پانچ سالہ آئینی مدت کیا پوری ہوئی‘ مرکز اور صوبوں میں مرضی کا نگران چیف ایگزیکٹو مقرر کروانے کے سوال پر سیاست دانوں نے جہاں زبردست قلابازیاں کھائی ہیں وہاں یہ بھی واضح ہوگیا ہے کہ آنے والے انتخاب میں کون کس کے ساتھ کھڑا ہوگا، کون کون اتحاد بنائے گا اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کس کس کے درمیان ہوگی۔ کس اتحاد میں رخنہ پڑے گا اور کون تنہا پرواز کرے گا۔ اب سیاسی شطرنج کا کھیل فیصلہ کن معرکے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ نگران وزیر اعظم شاید ان سطور کی اشاعت تک بن چکا ہوگا۔ گزشتہ دنوں کے بحران نے20 ویں آئینی ترمیم کے تخلیق کاروں کے لیے بہت سے سوالات چھوڑے ہیں۔ نگران وزیراعظم کی نامزدگی میں صرف حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کا کردار ہی غالب نہیں رہا‘ پس پردہ قوتیں بھی متحرک رہیں۔20 ویں آئینی ترمیم پاس کرتے وقت سٹیک ہولڈرز نے اپنا اپنا فائدہ تو دیکھا لیکن اس امکانی بحران کا ادراک نہیں کیا جس کا ان دنوں سامنا کرنا پڑا۔ 20 ویں آئینی ترمیم نے قائد ایوان اور اپوزیشن لیڈر پر اتفاق رائے سے نگران وزیر اعظم بنانے کی جو ذمہ داری ڈالی تھی اس کا پہلا مرحلہ ہی ناکام ہوگیا۔ مسلم لیگ ن نگران وزیر اعظم کے سوال پر سازش سے بال بال بچ گئی… جب اُسے اندازہ ہواکہ مولانا فضل الرحمان عقبی دروازے سے ایک خاص امیدوار کے لیے حکومت سے بالا بالا معاملات طے کر رہے ہیں تو چودھری نثار نے جسٹس (ر) شاکر اللہ جان کا نام واپس لے لیا۔ انتخابات میں نگران حکمرانوں پر دھاندلی کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ راؤ رشید جو ذوالفقار علی بھٹو کے انتہائی معتمد ساتھی تھے ۔اپنی کتا ب میں بھٹو اور ان کے ساتھیوں کی بہت سی غلطیوں کی نشاندہی کی۔ وہ بتاتے ہیں کہ وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ نے بلامقابلہ کامیاب ہونے کی مشق کرکے دھاندلی کے الزامات کو تقویت بخشی۔ بعد کی نگران حکومتوں نے 1977 ء کے انتخابی عمل کو غیر شفاف قرار دیا۔ اس پر ضیاء الحق کی مارشل لا حکومت نے تین ضخیم جلدوں پر مشتمل ایک رپورٹ جاری کی۔ دھاندلی سے ملتی جلتی شکل اپوزیشن جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی شکل میں بھی ہمارے سامنے آئی جب آئی جے آئی کو تخلیق کیا گیا۔ اس کا مقصد ایک مقبول جماعت کو واحد سب سے بڑی پارٹی بننے سے روکنا تھا۔ یہ مشق 1990ء میںبھی دہرائی گئی‘ جب ایوان صدر میں خاص لوگوں کو کامیاب بنانے کے لیے الیکشن سیل قائم کیا گیا اور پسند کے امیدواروں میں رقوم تقسیم کی گئیں۔ پھر ایک شخص بیرون ملک سے بریف کیس اٹھائے آیا اور پاکستان کا نگران وزیر اعظم بن گیا۔ 1993ء کے انتخابات میں اس نگران وزیراعظم سے کسی نے یہ تک نہ پوچھا کہ آپ کے پاس پاکستان کا شناختی کارڈبھی ہے یانہیں؟ اب 20 ویں آئینی ترمیم کے بعد سیاسی منظر نامے پر چھائی ہوئی ایک جماعت کو اعتراض ہوا ہے کہ اپوزیشن نے نگران وزیر اعظم کے لیے ایک پی سی او جج اور ان کی جماعت سے دشمنی رکھنے والی شخصیت کو اس منصب کے لیے نامزد کیا ہے۔ یہ اعتراض اس وقت شدت سے اٹھایا گیا جب نگران وزیر اعظم کے لیے قرعہ فال اپوزیشن کے تجویز کر دہ جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد کے نام نکلنے کی امیدیں غالب دکھائی دینے لگیں۔ مرکز اور صوبوں میں پسند کی نگران حکومت لانے کی خواہش سیاست دانوں کی نئی نہیں۔ 1970ء میں ایک فرد ایک ووٹ کی بنیاد پر ہونے والے انتخابات پاکستان کے عوام کے لیے نیا تجربہ تھا۔ عوام کی سیاسی رہنمائی کے لیے سیاسی جماعتوں ، الیکشن کمیشن آف پاکستان اور حکومت نے کم وبیش ایک سال تک مہم چلائی تب جاکر ٹرن آؤٹ نے 63 فیصد کی حد کو چھوا۔ سقوط ڈھاکہ کے تلخ واقعے سے جو کچھ بچا‘ اسی سے ایک جمہوری حکومت کا سفر شروع ہوا ۔ تمام سیاسی جماعتوں اور لیڈروں نے اتفاق رائے سے 1973ء کا آئین بنایا۔ اُس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ سیاست میں ایساموڑ بھی آئے گا جب چوکیدرا کو مالک تسلیم کرنے کی بحث چلے گی۔ آئین میں درج تھا کہ نگران حکومتیں کس طرح انتخاب کرائیں گی۔ مرکزی اور صوبائی نگران حکومتوں پر جانبداری کے الزامات انتخابی شیڈول جاری ہونے سے پہلے ہی لگنے لگیں تو نتائج کتنے ہی حقیقی ہوںہارنے والا انہیں تسلیم نہیں کرتا۔ یہ درست ہے کہ جسٹس ناصر اسلم زاہد 10 جون 1996ء کو قتل ہونے والے جسٹس نظام کے بہنوئی اور ندیم ایڈوکیٹ کے ماموں تھے۔ مرتضیٰ بھٹو قتل کیس پر بننے والے کمیشن کا سربراہ جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد کو بنائے جانے پر بھی اعتراض کیا گیا تھا۔ اس کمیشن نے پولیس کو جارح قرار دے کر ان کے خلاف کارروائی کی سفارش کی تھی۔ انہوں نے جیلوں کی اصلاحات‘ بچوں کی صحت پر بھی بہت اچھا کام کیا۔ 17 مئی 1980ء کو جج بننے کے بعد سپریم کورٹ پہنچنے تک انہوں نے یاد گار فیصلے کیے۔ ڈاکٹر عشرت حسین کا مسلم لیگ ن کے نزدیک جرم یہ تھا کہ وہ مشرف کے اہم ساتھی رہے۔ ورلڈ بینک میں ان کی خدمات پر بھی اعتراض کیا جاتا ہے۔یہ نام نگران حکمران جماعت اور ان کے اتحادیوں کی طرف سے آیا۔ یہ حقیقت ہے کہ 2 دسمبر 1999ء سے ہی وہ جنرل پرویز مشرف کی اقتصادی ٹیم میں گورنر سٹیٹ بینک کی حیثیت سے شامل ہوگئے تھے ۔ ملکی معیشت کی تجدید کے عمل میں انہوں نے حکومت کی اقتصادی اور انتظامی ٹیم کے رکن کی حیثیت سے اہم کردار ادا کیا۔2003ء میں ڈاکٹر عشرت حسین کو لندن سے شائع ہونے والے بینکرز میگزین نے زبردست خراج تحسین پیش کیا اور جنوری 2005ء کی اشاعت میں انہیں ایشیاء بھر میں مرکزی بینک کا بہترین گورنر قرار دیا ۔ ان کے چھ سالہ دور کو اصلاحات اور معاشی استحکام کا دور کہا گیا۔ انہوں نے اکنامک مینجمنٹ پر ریسرچ پیپرز اور ایک درجن کتب تحریر کی ہیں۔ وہ 2011ء سے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے آزاد ڈائریکٹر بھی ہیں۔ جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد اور ڈاکٹر عشرت حسین ملک کے معتبر نام ہیں۔ سیاست اور اقتدار کی اس کھینچا تانی میں سندھ اور خیبر پختونخوا کے بننے والے نگران وزرائے اعلیٰ کی تقرری کے معاملات عدالتوں میں پہنچ چکے ہیں۔ پنجاب میں نگران وزیر اعلیٰ کی تقرری کا فیصلہ بھی نگران وزیر اعظم کے نام پر اتفاق سے وابستہ ہو گیا ہے۔ سب سے زیادہ بحران سے دوچار صوبہ بلوچستان تھا جہاں وزیر اعلیٰ اسلم رئیسانی اور اپوزیشن لیڈر طارق مگسی نے اتفاق رائے سے نواب غوث بخش باروزئی کو نگران وزیراعلیٰ نامزد کر لیا ہے۔ پہلی بار وزیراعلیٰ کی سنجیدگی دیکھنے میں آئی ورنہ وہ لوگوں کو ہنسانے او ر شگوفے چھوڑنے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔