جمہور اور جمہوریت کے حوالے سے سیاسی تاریخ ہمیشہ دو حصوں میں بٹی رہی ہے۔ ایک حصہ جابرانہ اور آمرانہ طرز کا حامی ہوتا ہے تو دوسرا قانون کی حکمرانی کیلئے متحرک نظر آتا ہے۔ جمہوریت کی بالادستی اور پزیرائی سے دنیا بھر میں جمہوری حکومتوں کا قیام اس کی دلیل ہے جبکہ جابرانہ حکومتیں تاریخ کے ہاتھوں فنا ہوتی رہی ہیں۔ اچھا ہوا کہ پرویز مشرف نے پہلی فکر کو ترک کیا اور جلاوطنی ختم کرکے 11 مئی 2013 ء کے انتخابات میں اپنی مقبولیت کا اندازہ لگانے کیلئے اپنی پارٹی آل پاکستان مسلم لیگ کو متحرک کیا۔ پرویز مشرف نے اپنے پہلے دور حکومت کے جاہ و جلال کو دیکھا تھا۔ پروٹوکول میں کھڑی لمبی لمبی قطاروں اور افسروں کے جلوسوں کی وجہ سے وہ آسمان پر اڑتے تھے۔ 2008 ء کے انتخابات کے بعد اقتدار پر گرفت کمزور دیکھتے ہوئے بے بسی کا احساس غالب آنے لگا۔ پھر اُن کے مواخذے کا مطالبہ بھی آگیا۔ اُن کے حلیف بھی چھوڑنے لگے تھے۔ مخدوش مستقبل کا تقاضا تھا عوامی حاکمیت کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ استعفیٰ دیا اور لندن کی فضاؤں میں ڈیرے جما لیے۔ اقتدار کا نشہ بھی خوب ہوتا ہے جو سنبھلنے نہیں دیتا۔ اقتدار کی ساری سیڑھیاں اترنے کے باوجود لندن میں پہلا قدم رکھنے تک یہی سمجھتے رہے پاکستان کے عوام کو انہیں اقتدار سے نکالنے کا احساس ہے۔ جلتی پر تیل کا کام سوشل میڈیا نے کیا۔ دنیا بھر میں بسنے والے پاکستانی اُن کے طرز حکمرانی کے گیت گانے لگے۔ لاکھوں لوگ ان کی حمایت میں جڑ گئے۔ مشرف کے بعد آنے والی جمہوریت سے پاکستان کے عوام کو کوئی خاص فائدہ ہوا یا نہیں البتہ سیاست، معیشت، معاشرت کوئی شعبہ ایسا نہیں تھا جس میں جمہوری دور حکومت کے اعدادو شمار مشرف دور سے بہتر نظر آتے۔مشرف کا دور حکومت کتنا بہتر تھا، اس نے عوام کو کیا دیا، ملکی وقار کو کہاں لا کھڑا کیا انہی سوالات کا جواب دینے کیلئے مشرف نے 2013ء کے جمہوری عمل کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا اور وطن واپس آ گئے۔ مشرف کے پاکستان آنے کیلئے جو نقشہ کھینچا گیا تھا، اندازہ تھا کہ لاکھوں لوگ اپنے محبوب قائد کے استقبال کیلئے موجود ہوں گے۔ کہتے ہیں سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا ۔اس کا مشاہدہ انہیں کراچی ایئر پورٹ پر ہوا کہ وہ یقینا اندازے کی غلطی کا شکار ہوئے ہیں۔ اُن کے وہ قریبی ساتھی، سیاستدان، سرکاری ملازم ،وفادار کوئی نظر نہ آیا۔ مشرف کو اپنے بارے میں عوامی نفرت کا اندازہ سندھ ہائی کورٹ میں جوتا پھینکنے کے عمل کے بعد ہوا۔ یہ جمہوریت کی کامیابی ہے کہ ایک ایسا شخص جس نے پاکستان کے جمہوری عمل کو گدلا کیا۔ اب آئینِ پاکستان کی بالادستی اور جمہوری نظام پر یقین رکھتے ہوئے 11 مئی کے انتخابی عمل میں حصہ لینے کیلئے پاکستان آیا ہے۔ یہ عوام کا حق ہے کہ وہ پرویز مشرف کو اپنے اعتماد سے نوازیں یا مسترد کر دیں۔ بہت بڑا طبقہ یہ چاہتا ہے کہ پرویز مشرف کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ آئین توڑنے کا معاملہ اب سپریم کورٹ جا پہنچا ہے۔ دوسری بری خبر مشرف صاحب کیلئے یہ ہے کہ انتخابی عمل میں حصہ لینے کے امکانات کم ہو رہے ہیں ۔ان کے امیدوار بننے کے کاغذات ایک حلقہ سے مسترد ہو چکے ہیں۔ جب سے پرویز مشرف پاکستان آئے ہیں ملک کی بڑی جماعتوںپاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے اُن کے خلاف چپ کا روزہ رکھ لیا۔ ٹی وی اینکرز کی جانب سے یہ سوال پوری شدت سے اٹھایا گیا ہے کہ وہ میاں نواز شریف کہاں چلے گئے جو عوامی اجتماعات اور پریس شوز میں پرویز مشرف کے خلاف پیپلزپارٹی کی حکومت سے آئین کو متحرک کرنے کا مطالبہ کرتے رہتے تھے۔ حالانکہ میاں نواز شریف سے پرویز مشرف کی مخاصمت کی تاریخ تکلیف دہ ہے۔ میاں نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں صدر پاکستان فاروق لغاری، آرمی چیف جہانگیر کرامت اور چیف جسٹس آف پاکستان سید سجاد علی شاہ کو گھر بھیجا گیا تو ایک بڑے طبقے کی طرف سے یہ تاثر شدت سے پھیلایا گیا کہ میاں نواز شریف امیر المومنین بننا چاہتے ہیں جبکہ حقیقت یہ تھی وہ آئین پاکستان کو طاقتور بنانے کا ارادہ رکھتے تھے ۔جو لوگ آرمی چیف، صدر پاکستان اور وزیراعظم کی ٹرائیکا کے عادی تھی وہ ’’سٹیٹس کو‘‘ کو اپنی شکست سمجھ رہے تھے اور یہ ساری قوتیں 12 اکتوبر 1999 ء کے انقلاب کی طرف ہی دھکیل رہی تھیں۔ میاں نوازشریف کے مخالفین الگ نکتے پر مہم جوئی کا آغاز کرچکے تھے کہ میاں نوازشریف کو اقتدار سے نکالا جائے ۔میاں صاحب کیلئے مشکل کا آغاز اُس وقت ہوا تھا جب انہوں نے آرمی چیف کو برطرف کرکے نیا آرمی چیف بنا دیا جوکہ وزیراعظم کا آئینی حق تھا۔ میاں نواز شریف جو 38 دن پہلے وزیراعظم تھے، پہلی مرتبہ جب عدالت میں پیش کیے گئے اُن کو دیکھتے ہی صحافی اُن کی طرف لپکے۔ پہلا سوال ہی یہ تھا کہ ایک اہلکار آگے بڑھا اور میاں نواز شریف کے منہ پر ہاتھ رکھ کر اُن کو اپنے ساتھ لے گئے۔ حکومت نے بھٹو کے وعدہ معاف گواہ مسعود محمود کی طرح ایک سرکاری ملازم امین اللہ چودھری تخلیق کیا۔ پھر اس کی گھڑی ہوئی کہانی کے اجزائے ترکیبی سامنے آئے۔ مخالف سیاسی قوتوں نے پرویز مشرف کو میاں صاحب کے خلاف ایندھن فراہم کیا اور پرویز مشرف کے سات نکاتی ایجنڈے کی حمایت میں ایک قرارداد پاس کر ڈالی۔ مسلم لیگ کو تقسیم کرنے کیلئے ہم خیالوں نے پہلا اجتماع کرکے میاں صاحب کے مخالفوں کو جمع کیا۔ اعجاز الحق جن کے خاندان سے میاں صاحب کا گہرا تعلق تھا، ان کی طرف سے مائنس میاں نواز شریف کا نعرہ سب سے حیران کن تھا۔ مالی سکینڈل کی داستانیں پھیلائی گئیں اور ان کی رائیونڈ کے محل اور طرز حکمرانی کے بارے میں ایسا تاثر پھیلایا گیا کہ 22 کمروں پر مشتمل اُن کی رہائش گاہ کے پردوں، کچن، فرنیچر کی منظر آرائی کے ساتھ اس رہائش کو مغل شہنشاہ کے تاج محل یا لوئی چہارم کے دربار کا ہم پلہ قرار دیا گیا۔ سب سے حیران کن منظر یہ تھا میاں نواز شریف کے دربار کے بڑے بڑے جانثار میاں تان سین بنے ہوئے تھے۔ مشرف کے حق میں ہر شخص ایسی بلند آواز میں راگ درباری گا رہا تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ ایسا ہونا انسانوں کے معاشرے میں فطری تھا کیونکہ جبر اور طاقت سے مشرف نے اقتدار کاہما اپنے سر پر بٹھا لیا تھا۔ مشرف صاحب اب پاکستان آ چکے ہیں۔ انہوں نے نظریہ ضرورت کے تحت اقتدار پر قبضہ کیا اور میاں نواز شریف کی آئینی اور قانون حکومت کو معزول کیا۔ اس فیصلے کا محاکمہ وقت اور تاریخ نے کرنا ہے۔ مہینوں کی نہیں بلکہ دنوں کی بات ہے۔ میاں نواز شریف کی سیاست کا فیصلہ تو 2008 ء میں ہی عوام نے دے دیا تھا۔ اب پرویز مشرف کی باری ہے کہ وہ عوام کے ہاتھوں سرخرو ہوتے ہیں یا شکست کھا کر تاریخ بن جائیں گے۔