"WAC" (space) message & send to 7575

انقلاب بذریعہ موروثی سیاست

انتخاب کا مرحلہ سر پر آن پہنچا۔ سیاسی جماعتوں کی طرف سے انتخابی مہم میں روایتی جوش و جذبہ دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔یہ پہلو سیاسی جماعتوں کی فکری اور نظریاتی کمزوری کی وجہ سے نمایاں ہوا۔ تمام جماعتوں کی حکمت عملی کا نمایاں نکتہ زیادہ سے زیادہ امیدواروں کو پارلیمنٹ میں پہنچانا ہے۔ تین بڑی جماعتیں جوڑ توڑ کا شکار رہیں۔ٹکٹوں کی تقسیم کے وقت احتجاج کے جو طریقے اور مناظر سامنے آئے اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ عوام کی حاکمیت کا نعرہ محض منشور کے اُن صفحات تک محدود ہوتاہے جس کی تخلیق کیلئے بڑے بڑے دانشور سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے نعرے خوبصورت ہیں۔ لیکن امیدواروں کی طرف دیکھیں تو وہی موروثی سیاستدان ہر جماعت میں نمایاں ہیں۔ پاکستان کے نظام کو تبدیل کرنے کی سب سے بڑی دعویدار پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار بھی اسی کلاس سے تعلق رکھتے ہیں۔ 1996ء سے قائم پاکستان تحریک انصاف 1997 ء اور 2002ء کے انتخابات میں ناکامی کے بعد 30اکتوبر2011ء کے جلسے سے اس کا نیا ظہور ہوا۔ اس جلسے کی تیاری کے لیے کئی ماہ صرف ہوئے اور اس کی رونق بڑھانے کے لیے ملک کے کونے کونے سے تحریک انصاف کے کارکنوں کو لایا گیا۔ عمران خان کی یہ کامیابی ہے کہ انہوں نے سیاست میں داخل ہونے کے لیے نوجوانوں کا انتخاب کیا لیکن انتخابی سیاست کیلئے انہوں نے بیشتر ایسے امیدواروں کو ٹکٹیں دیں جو اپنا خاندانی پس منظر رکھتے تھے یا جن کے پیچھے برادری، اثر و رسوخ اورپیسہ ہے۔ این اے 3 پشاور سے پشتو کے مشہور شاعر اور اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز رہنے والے بابر ہاشم کے والد اکرم خان 1935ء سے خان عبدالغفار خان کے وفادار رہے۔ خود بابر ہاشم ملازمت سے سبکدوشی کے بعد اے این پی میں رہے۔ 2008ء کے انتخاب میں وہ امیر ترین ممبر قومی اسمبلی نور عالم سے صرف 900 ووٹوں کے فرق سے ناکام ہوئے تھے۔ وہ بہت پہلے تحریک انصاف سے وابستہ ہوئے لیکن ٹکٹ کسی اور کو دے دیا گیا ۔ عمران خان کے جلسے سے متاثر ہوکر ایئر مارشل اصغر خان نے اپنی جماعت تحریک استقلال کو تحریک انصاف میں ضم کرکے عمران خان کے ہاتھوں پر سیاسی بیعت کر لی لیکن اُن کے صاحبزادے علی اصغر کو نظر انداز کر کے ٹکٹ ڈاکٹر اطہر جدون کو دے دیا گیا ۔ریاست امب کے نوابزادہ صلاح الدین سعید بھی تقریباً 20 دن پہلے تحریک انصاف میں شامل ہوئے۔ انہیں مانسہرہ سے ٹکٹ دے دیا گیا ۔ وہ پانچ مرتبہ اسی حلقے سے ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ چودھری نثار کے مقابلے میں تحریک انصاف کے امیدوار غلام سرور خان 1985 ء سے 2013ء تک چار پارٹیوں سے وابستہ رہے۔ اب وہ تحریک انصاف کے امیدوار ہیں۔ ملک امین اسلم خان کے خاندان کا شمار چیفس آف پنجاب میں ہوتا ہے۔ اُن کے پردادا ملک امین قیام پاکستان سے پہلے سیاست میں سرگرم رہے۔ دادا ملک محمد اکرم اور والد محمد اسلم بھی صوبائی و قومی اسمبلی کے رکن رہے۔ 2008 ء میں وہ شیخ آفتاب کے مقابلے میں صرف 363 ووٹوں سے ناکام ہوئے تھے۔ وہ عمران خان کے تبدیلی کے نعرے سے متاثر نظر آتے ہیں۔ اٹک سے ہی قومی نشست سے عمران خان کے امیدوار ملک سہیل خان مسلم لیگ میں رہے۔ اُن کا تعلق یہاں کے پرانے سیاسی خاندان سے ہے۔ چکوال کی بااثر ٹمن فیملی کے منصور حیات ٹمن عمران خان کی سونامی کے امیدوار ہیں۔ وہ 2008 ء میں پیپلزپارٹی کے امیدوار تھے۔ ان کے والد حیات ٹمن تحریک پاکستان کے کارکن، پنجاب اسمبلی کے رکن اور بھٹو کے مشیر رہے۔ ان کے رشتہ دار ممتاز ٹمن مسلم لیگ (ن) کے امیدوار ہیں۔ تحریک انصاف نے 2008 ء میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے سید عنایت علی شاہ کو چنیوٹ کے قومی حلقہ سے ٹکٹ دیا ہے۔ ان کے کزن سید امیر حسین دو مرتبہ اسی حلقے سے ممبر قومی اسمبلی بنے۔ منڈی بہاؤ الدین سے تحریک انصاف کے ٹکٹ ہولڈر میاں افضل حیات پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ، ملت پارٹی کے رکن اور پاکستان پیپلزپارٹی کے وفادار رہے۔ این اے 108 سے تحریک انصاف کے امیدوار ظفر اللہ تارڑ بھی منڈی بہاؤ الدین کے قدیم سیاسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے والد غلام رسول تارڑ سدا بہار رکن اسمبلی تھے۔ سیالکوٹ کی رپو چک فیملی کے منصور سرور بھی تحریک انصاف کے امیدوار ہیں۔ ان کے والد، تایا اور کزن ہر سیاسی انتخاب میں حصہ لیتے رہے۔ اختر حسین رضوی مسلم لیگ (ن) سے صوبائی نشست کے امیدوار تھے۔ 2002 ء میں وہ مسلم لیگ (ق) کے وزیر اور ممبر اسمبلی رہے۔ ٹکٹ نہ ملنے پر اب وہ تحریک انصاف کے امیدوار ہیں۔ ڈاکٹر یاسمین راشد کے سسر ملک غلام نبی تحریک پاکستان کے کارکن ،مسلم لیگ کی طرف سے رکن پنجاب اسمبلی اور 1970 میں صوبائی وزیر تعلیم رہے۔ لاہور کے این اے 126 سے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر حصہ لینے والے شفقت محمود کے بزرگ چودھری اقبال چیلیانوالہ قیام پاکستان کے بعد کئی بار رکن قومی و صوبائی اسمبلی رہے۔ ان کے کزن چودھری جعفر اقبال اس وقت سینیٹر ہیں اور بھابھی عشرت اشرف دو مرتبہ رکن قومی اسمبلی رہیں۔ خورشید محمود قصوری کا خاندان بھی قیام پاکستان سے پہلے کا سیاست میں سرگرم ہے۔ اُن کے والد میاں محمود علی قصوری پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی رہے۔ خورشید قصوری مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر دو مرتبہ ایم این اے بنے۔ 2002ء میں مسلم لیگ (ن) چھوڑ کر مسلم لیگ (ق) میں چلے گئے، وزیر خارجہ بھی رہے۔ وہ پرویز مشرف کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ شاہ محمود قریشی پاکستان پیپلزپارٹی سے طویل عرصہ وابستہ رہنے کے بعد اُس وقت راستہ بدلنے پر مجبور ہوئے جب انہیں وزیر خارجہ کے عہدہ سے الگ کیا گیا۔30اکتوبر کے جلسے کے بعد انہوں نے پیپلزپارٹی کو الوداع کہا اورتحریک انصاف میں شامل ہو گئے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ وہ پنجاب کے علاوہ سندھ کے ضلع عمر کوٹ سے بھی امیدوار ہیں۔ انہوں نے پارٹی کا مرکزی عہدیدار ہوتے ہوئے وہاں آزاد حیثیت سے انتخاب میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ ان کے چھوٹے بھائی مرید قریشی پاکستان پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر حصہ لے رہے ہیں۔ خانیوال کے علاقہ قتال پور کا سید خاندان قیام پاکستان سے پہلے انتخابی سیاست کا حصہ تھا۔ڈاکٹر خاور علی شاہ تحریک انصاف کے امیدوار ہیں۔ اس وقت درجنوں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے امیدوار جو موروثی سیاست کا حصہ ہیں ، ان کا پسندیدہ پلیٹ فارم تحریک انصاف ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) بھی اپنے اس اصول سے منحرف ہو چکی ہے کہ مشرف کے ساتھیوں اور قاف لیگ میں جانے والوں کو وہ مسلم لیگ میں نہیں لے گی۔ سوات سے تعلق رکھنے والے امیر مقام مسلم لیگ (ق) کے لیڈر، وفاقی وزیر اور مشرف کے وفادار ساتھی رہے۔ اب وہ مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو کر اس کے مرکزی نائب صدر بن چکے ہیں۔ ایبٹ آباد سے گوہر ایوب اور سردار یوسف بھی ابتدائی دور میں میاں نواز شریف کو چھوڑ کر مسلم لیگ (ق) کا حصہ بن گئے۔ اب دونوں واپس مسلم لیگ (ن) میں آ گئے ہیں۔ پنجاب اسمبلی کے وہ 29 ارکان جنہوں نے پنجاب میں میاں شہباز شریف کا ساتھ دے کر تخت لاہور کو الٹنے نہ دیا اُن کو بھی 2013 ء کے انتخاب میں مسلم لیگ (ن) کے پلیٹ فارم سے ساتھ ملا لیا ہے۔ میاں صاحب نے مخدوم احمد عالم انور، سید جاوید علی شاہ، اسلم بودلہ،دیوان سید عاشق حسین کو بھی اپنا امیدوار بنالیا ہے۔ یہ سلسلہ سندھ تک پھیلا نظر آتا ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے طاقتور سیاسی گھرانوں کو ساتھ ملانے کی جو حکمت عملی اپنائی تھی وہ سندھ تک خاصی کامیاب رہی۔ گھوٹکی کے مہر خاندان، لاڑکانہ سے چانڈیو کے علاوہ سلیم جان مزاری، اسد سکندر اور وننگ امیدواروں کو ساتھ سکور بڑھانے کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں