سیاسی عمل کا آغاز ہوتے ہی جلسے جلوسوں کی بہار آ جاتی ہے‘ انتخابی دفتر کھل جاتے ہیں‘ ڈیرے آباد ہوتے ہیں اور عوام کو ایک آدھ ماہ تفریح کا سامان میسر آجاتا ہے۔ انتخابی سرگرمیوں کی بدولت اربوں روپے گردش میں آ جاتے ہیں جن سے لاکھوں لوگوں کو روزگار ملتا ہے۔ زندہ باد‘ مردہ باد کے نعرے لگتے ہیں۔ اسی دوران غریب کو اندازہ ہوتا ہے کہ اُس کا ووٹ کتنا قیمتی اور طاقتور ہے۔ پرانی سیاست کے عادی سیاستدان محبتوں سے ووٹ مانگتے ہیں لیکن اب اس کھیل میں بڑے بڑے صنعتکار، کاروباری لوگ اور نو دولتیے بھی اسمبلیوں میں جانے کے امیدوار ہیں۔ یہ امیدوار ووٹ حاصل کرنے کیلئے غریب ووٹروں میں آٹے‘ چینی کے تھیلے اور گھی کے ڈبے تقسیم کرتے ہیں۔ ہماری جمہوریت جیسے جیسے بالغ ہو رہی ہے بہت سی مثبت روایات بھی ہماری سیاست کا حصہ بننے لگی ہیں۔ خواتین کی بہت بڑی تعداد نہ صرف اپنے ووٹ کی قدر جاننے لگی ہے بلکہ خواتین جلسے جلوسوں اور پارٹی سیاست میں بھی سرگرم ہو گئی ہیں۔ وہ مخصوص نشستوں سے آگے بڑھ کر اوپن سیٹوں پر مردوں کا مقابلہ بھی کرنے لگی ہیں۔ سیاسی کلچر میں جن نئے رجحانات نے جنم لیا ہے ان میں رائے کا بے باک اظہار اہم ہے۔ عوام کھل کر اپنی پسند ناپسند کا اظہار کرنے لگے ہیں جس سے رائے عامہ کے جائزوں کے درست نتائج حاصل کرنے میں مدد ملی ہے۔ ان مثبت پہلوئوں کے ساتھ ساتھ منفی طرزِ عمل بھی کارفرما ہے۔ بے مقصد جملے بازی سیاسی فضا کو خراب کر رہی ہے۔یہاں تک کہ صدر پاکستان کے ترجمان نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو عمران خان اور میاں نواز شریف کے حوالے سے خط تحریر کیا ہے کہ صدر مملکت سیاست سے دستبردار ہو چکے ہیں لیکن یہ لیڈر اُن کے خلاف مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ الیکشن کمیشن کو اپنے 29 جنوری 2013ء کو جاری کردہ 46 نکاتی کوڈ آف کنڈکٹ پر پہلے ہی عمل کرانا چاہیے تھا۔ تاہم اب چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم نے سیاستدانوں پر واضح کر دیا ہے کہ وہ کسی امیدوار کے خلاف منافرت انگیز مہم نہیں چلا سکتے۔ ہم نے ماضی کی انتخابی مہم کے دوران مخالفین کو لٹکانے کی باتیں سنی ہیں۔ کسی کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے اور کسی کی حب الوطنی کو مشکوک بنایا جاتا رہا ہے۔ سیاسی جماعتیں زیادہ تر اپنی کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ حاصل کرتی ہیں لیکن انتخابی ماحول سے بھی ان کے ووٹروں کی تعداد بڑھ جاتی ہے جو اسمبلیوں میں ان کی نشستوں میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے سیاسی حوالے سے عوامی رجحانات کو تبدیل کیا اور انتخابات میں جلسوں اور انتخابی مہم کا ایک نیا کلچر متعارف کرایا جس کا آغاز 1970ء کے الیکشن سے ہوا۔ پیپلزپارٹی نے ایسے طبقے کو متاثر کیا جس کو اس سے پہلے کوئی سیاستدان اہمیت نہیں دیتا تھا۔ جاگیردار‘ سرمایہ دار‘ صنعتکار‘ سیٹھ، منافع خور اور پیسہ بٹورنے والے ذوالفقار علی بھٹو کے جلسوں کا نشانہ ہوتے تھے۔ اس مہم میں جاگیرداروں کی زمینوں اور صنعتکاروں کی ملوں پر قبضے کا نعرہ بھی متاثر کن تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے لاکھوں کے انتخابی جلسوں کے ذریعے فن خطابت کی بھی نئی جہتیں متعارف کرائیں۔ وہ ہر موضوع پر بے پناہ بولتے تھے۔ اُن کی خوبیوں میں سے ایک یہ تھی معیشت پر بولتے تو بولتے ہی جاتے اور ایک ایک پہلو پر سیر حاصل گفتگو کرتے۔ خارجہ امور کی بات ہوتی تو اس موضوع پر اُن کا کوئی ثانی نہ ہوتا۔ ان کے مخالفین نے بڑے جلسوں میں رنگ جمانے کیلئے بھٹو کے طرز خطابت کی کسی نہ کسی حوالے سے تقلید کی۔ 1977ء میں پاکستان قومی اتحاد کے پلیٹ فارم سے کئی لیڈروں نے مخالفین پر جملہ بازی کے ذریعے سبقت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد پیپلزپارٹی کی قیادت کی ذمہ داریاں بے نظیر بھٹو نے اٹھائیں۔ 1988ء کا الیکشن ان کیلئے پہلا تجربہ تھا۔ وہ بھی والد کی طرح سیاست، معیشت اور خارجہ امور پر کمال مہارت رکھتی تھیں۔ یہی خوبیاں اُن کے انتخابی جلسوں کی رونق بڑھاتیں۔ اردو زبان میں روانی وقت کے ساتھ آتی گئی۔ مجمع کو گرفت میں رکھنے کیلئے خود بھی نعرے لگواتیں اور مخالفین کی سیاست کی خامیاں اُجاگر کرنے کے لیے دلائل دیتیں۔ ستر کے بعد ہر انتخابی مہم میں کوئی نہ کوئی بھٹو ضرور موجود ہوتا تھا۔ 2013ء کے انتخاب میں پیپلزپارٹی کی انتخابی مہم کی قیادت بلاول بھٹو زرداری کے ہاتھ میں ہے لیکن سکیورٹی خدشات نے ان کیلئے روایتی انتخابی مہم چلانا ناممکن بنا دیا ہے۔ وہ ویڈیو لنک کے ذریعے ہی عوام اور کارکنوں سے خطاب کرتے ہیں۔ انتخابی مہم کی قیادت یوسف رضا گیلانی کے سپرد ہے لیکن وہ جنوبی پنجاب میں انتخابی جوڑ توڑ کی مشکلات سے دوچار ہیں۔ اُن کے بڑے بیٹے عبدالقادر گیلانی ملتان کی اُس نشست سے حصہ لے رہے ہیں جس سے وہ ہمیشہ کامیاب ہوتے رہے۔ اس مرتبہ اُن کے روایتی حریف سکندر بوسن جو 2002ء کے انتخاب میں مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر کامیاب ہو کر وفاقی وزیر بنے تھے‘ تحریک انصاف میں شامل ہو کر عبدالقادر گیلانی کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ یوسف رضا کے بھائی احمد مجتبیٰ گیلانی مسلم لیگ (ن) کے سید جاوید شاہ گیلانی کے مقابلے میں ہیں۔ ان کے بیٹے علی موسیٰ گیلانی کو مخدوم شاہ محمود قریشی سے مقابلے کا سامنا ہے۔ ان کی اہلیہ کے بھتیجے پیر قطب علی شاہ کو یوسف رضا گیلانی نے ٹوبہ ٹیک سنگھ سے قومی نشست سے ٹکٹ دلوایا ہے۔ وہ علاقائی سیاست میں اتنے الجھے ہوئے ہیں کہ ان کے لیے ملکی سطح پر بڑے اجتماعات سے خطاب کرنا ممکن نہیں رہا۔ راجہ پرویز اشرف ہائی کورٹ کے حکم سے الیکشن میں حصہ لینے کے اہل ٹھہرے ہیں اور وہ بھی اپنی نشست بچانے میں مصروف ہیں۔ اُن کا مقابلہ مسلم لیگ (ن) کے راجہ محمد جاوید اخلاص سے ہے جو اس حلقہ سے کئی مرتبہ ایم پی اے اور ضلعی ناظم رہے۔ 2008ء کے انتخاب میں راجہ جاوید اخلاص کے بیٹے نے مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر تقریباً 70 ہزار اور مسلم لیگ (ن) کے چودھری ریاض نے 57 ہزار کے قریب ووٹ لیے تھے۔ مسلم لیگ (ن) کے چودھری محمد ریاض نااہل ہونے کے بعد راجہ جاوید کی حمایت کر رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے جلسوں کی قیادت کرنا ان کیلئے بھی ممکن نہیں۔ چودھری اعتزاز احسن کی انتخابی سرگرمیوں کا محور ان کی اہلیہ بشریٰ اعتزاز کا حلقہ ہے۔ وہ بھی مرکزی انتخابی مہم سے دور ہیں۔ قمر زمان کائرہ کو منڈی بہاؤ الدین میں سخت مقابلے کا سامنا ہے۔ وہ بھی مرکزی سطح پر کسی جلسے یا جلوس سے زیادہ اپنے حلقے کی طرف متوجہ ہیں۔ پیپلزپارٹی کو آصف علی زرداری بھرپور قیادت فراہم کر سکتے تھے مگر وہ منصب صدارت پر فائز ہونے کی وجہ سے آئینی طور پر سیاسی جلسے جلوسوں کا حصہ نہیں بن سکتے۔ سید خورشید علی شاہ سندھ کی سطح پر انتخابی سرگرمیوں میں سرگرم ہیں۔ پہلی بار انتخابی سیاست میں روایتی جیالا کلچر نظر نہیں آ رہا۔ البتہ تشہیری مہم میں پیپلزپارٹی کو دوسروں پر سبقت حاصل ہے۔ موجودہ انتخاب میں ایم کیو ایم، پیپلزپارٹی، عوامی نیشنل پارٹی کیلئے بڑے جلسے خطرے کی علامت بن گئے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی نگران حکومت کی توجہ اس اہم مسئلہ کی طرف مبذول کرائی ہے۔ الیکشن میں حصہ لینے والی جماعتیں پرعزم ہیں کہ وہ انتخابی عمل سے نہیں بھاگیں گی۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان سے آج بھی توقع ہے کہ وہ تارکینِ وطن کو ووٹ کا حق دینے میں سپریم کورٹ کے حکم پر عمل کرے گی۔ اگر الیکشن کمیشن جنگی بنیادوں پر سپریم کورٹ کے حکم پر عمل کرے تو انتخاب کا ٹرن آؤٹ 70 فیصد کی سطح کو چھو سکتا ہے۔ قومی رہنماؤں سے درخواست ہے کہ وہ اپنی پارٹی کا منشور پیش کریں‘ ایک دوسرے پر نفرت کے تیروں کی بوچھاڑ نہ کریں۔ منافرت پھیلانے کا سب سے بڑا نقصان ہماری سیاسی اور سماجی زندگی میں عام لوگوں کو ہوتا ہے۔ سیاسی دشمنیاں اُبھرتی ہیں جو آگے چل کر قتل و غارت تک جا پہنچتی ہیں۔ انتخابی کھیل کو پولنگ ڈے تک ہی محدود رکھیں۔