11 مئی 2013 ء کی تاریخ اٹل ہے۔ انتخابات ایک لمحہ آگے نہیں جا سکتے نہ ہی انتخابی عمل کا راستہ کسی طویل المدتی نگران حکومت کی طرف موڑا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے افواہیں نگران وزیراعظم کی تقریر کے بعد دم توڑ گئی ہیں۔ پاکستان کی کئی اہم جماعتیں اس کوشش میں تھیں کہ انتخابی عمل کچھ آگے چلا جائے۔ ایسی کوششیں اور خواہشیں عدلیہ، نگران حکومت اور فوج کے اٹل فیصلے کے بعد کامیاب ہوتی نظر نہیں آتیں۔ پاکستان کے انتخابی منظرنامے پر بہت سی تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔ آزاد الیکشن کمیشن نے جو وعدے کیے تھے ان پر خاصی حد تک عملدرآمد ہوتا نظر آ رہا ہے۔ پاکستان میں یہ انتخابات تاریخ میں یادگار ہوں گے۔ ماضی کی طرح ووٹ چرانے کے راستے تقریباً بند ہو گئے ہیں۔ بیلٹ باکس سے جو ووٹ نکلیں گے وہی امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ کریں گے۔ ایسا نہیں ہوگا کہ انتخابی نتائج کو کسی حکومتی کوشش کے ذریعے تبدیل کردیا جائے۔ اب آنے والی نسلوں کے لیے ایک ایسے شفاف انتخابی عمل کی بنیاد رکھ دی گئی ہے جو پاکستان میں حقیقی جمہوریت کے لیے ایک مثال بنے گی۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ بہت سی خامیاں رہ گئی ہیں۔ قرض خور، جعلساز اور 63,62 پر پورا نہ اترنے والے بہت سے امیدوار انتخابی عمل کا حصہ ہیں۔ اچھی خبر یہ ہے کہ موجودہ الیکشن میں ایسا انتظام کر دیا گیا ہے جو عوامی نمائندوں کی رہنمائی کرتا رہے گا کہ اُن کا کام اقتدار میں آنے کے بعد لوٹ مار کرنا نہیں بلکہ عوام کو حقیقی جمہوریت فراہم کرنا ہے۔ الیکشن چند روز کے فاصلے پر ہونے کے باوجود انتخابی ماحول گرم نہیں ہوا جس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ بھٹو اور اینٹی بھٹو قوتوں کے درمیان ہونے والی سیاسی اور انتخابی لڑائی کا رخ مُڑ گیا ہے۔ میاں نواز شریف جو سیاسی منظرنامے پر بڑے کھلاڑی کے طور پر پہلے سے موجود تھے‘ اس مرتبہ ان کو نئے چیلنج کا سامنا ہے۔ پیپلزپارٹی ہمیشہ ان کے لیے چیلنج بنی رہی ہے لیکن 2013ء میں پنجاب کی سطح پر ان کا اب نئے اُبھرنے والے فیکٹر تحریک انصاف سے مقابلہ ہے۔ عمران خان 1996ء سے اپنی پارٹی کو مقبول بنانے کی جستجو میں تھے۔ اب ان کے پیچھے بڑے کھلاڑی آن کھڑے ہوئے ہیں جس سے مقابلہ کا میدان خوب سج گیا ہے۔ وہ لوگ جو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابی معرکے میں جگہ ملنے کے انتظار میں تھے، تحریک انصاف نے ا نہیں موقع فراہم کردیا ہے۔ مسلم لیگ (ق) جو ماضی کی حکمران جماعت تھی‘ وہ سکڑ رہی ہے۔ ان کے نامور لیڈروں کے لیے بھی تحریک انصاف بہترین سیاسی پلیٹ فارم ٹھہرا ہے۔ جماعت اسلامی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی وجہ سے میاں صاحب سے ناراض ہے۔ انتخابی جلسوں کے مقابلے میں عمران خان اور میاں نواز شریف ہی چھائے نظر آتے ہیں۔ عمران خان کی تنقید کا نشانہ میاں نواز شریف ہیں۔ پہلی بار یہ بات شدت سے محسوس ہوئی ہے کہ پنجاب کے محاذ پر پیپلزپارٹی کا کوئی بڑا لیڈر تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کو چیلنج نہیں کر رہا۔ پیپلزپارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو سکیورٹی خدشات کے باعث عوامی اجتماعات میں شریک نہیں ہو رہے۔ 2013ء کے بعد اُبھرنے والے سیاسی منظرنامے پر بھٹو اور اینٹی بھٹو کی جگہ نواز شریف اور اینٹی نواز شریف جنگ نظر آتی ہے۔ جہاں تک بھٹو ازم کا تعلق ہے اس کی اٹھان زبردست فلسفے اور نعروں سے اُبھری تھی جس نے ایک عہد اور سوچ کو متاثر کیا تھا۔ایوب خان کے مضبوط قلعے سے عوامی نفرت کی لہریں جب شدت سے ٹکرائیں تو وہ سارا جمہوری تماشا زمین بوس ہو گیا۔ عوامی حکومت کا سورج 1970ء کے انتخاب سے نکھرا۔ اس کے بعد سیاسی نظریات بھی دائیں بائیں، روشن خیال اور شدت پسندوں کے درمیان تقسیم ہو گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے جمہوری انقلاب کے سرخیل ٹھہرے۔ اُس عہد کے بہت سے لوگ بھٹو کی فکر سے متاثر ہو کر پاکستان پیپلزپارٹی سے ایسے وابستہ ہوئے کہ پیچھے نہ ہٹے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے طرز حکمرانی نے بھٹو کے فلسفہ اور فکر کو ’’بھٹو ازم‘‘ کے لبادے میں لپیٹ دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو سے اختلاف کرنے والوں کی بھی کمی نہیں تھی۔ بھٹو اور اینٹی بھٹو اصطلاح کا پہلا نظارہ 1977ء کے انتخابات میں دیکھا گیا جب بھٹو کی مخالف نو جماعتوں نے پاکستان قومی اتحاد قائم کرکے نو ستاروں کا پرچم تھام کر مقابلے کی ٹھانی۔ یہ مقابلہ کیا خوب تھا، کوئی پسپائی اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ انتخابات کے نتائج کو اینٹی بھٹو قوتوں نے تسلیم نہ کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایسی زوردار تحریک چلی جس کی لہریں پاکستان کے گلی کوچوں سے ٹکرانے لگیں۔ بھٹو جو ملک میں روشن خیالی، جدید معاشرے اور پاکستان کو ترقی یافتہ دنیا میں لے جانا چاہتے تھے‘ تحریکِ نظام مصطفی نافذ کی شدت کا رُخ موڑنے کے لیے اسلامی نظام کی طرف پیش رفت کا اعلان کردیا۔ جمعہ کی چھٹی، شراب خانوں کی بندش اور دیگر اقدامات کے اعلان کے باوجود جب پاکستان میں بحران اور سول نافرمانی ختم نہ ہوئی تو بھٹو نے اگست 1976ء میں امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کے درمیان ہونے والی ملاقات کا احوال اشاروں کنایوں میں سنایا جب انہیں ایٹمی پروگرام ترک نہ کرنے کی صورت میں عبرت کا نشان بنانے کی دھمکی دی گئی تھی۔ اس صورت حال نے ملک کو صرف مارشل لا کی طرف ہی نہیں دھکیلا بلکہ بھٹو کو ایک مقدمہ قتل میں تختہ دار پر جھولنا پڑا۔ بھٹو اور اینٹی بھٹو قوتوں کے درمیان محاذ آرائی کم و بیش چار دہائیوں تک جاری رہی۔ 1988ء سے 2008ء تک کے انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی کے مزاج سے بھٹو ازم خارج نہ ہوا۔ شاید اب بھی ایسا نہیں ہے۔ البتہ 2013ء کے انتخابی معرکے میں پہلی بار تبدیلی آئی ہے اور سیاسی میدان میاں نواز شریف اور تمام مخالف قوتوں کے درمیان دکھائی دیتا ہے۔ پنجاب میں پیپلزپارٹی کی حالت بہت پتلی ہے۔ اس کے امیدواروں میں ماضی جیسا جوش ہے نہ ولولہ، یہاں تک کہ پیپلزپارٹی پنجاب کے صدر میاں منظور وٹو نے اشارہ دیا ہے کہ پیپلزپارٹی عمران خان کو وزیراعظم کی حیثیت سے قبول کر سکتی ہے جبکہ عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ کسی صورت میں آصف علی زرداری سے حلف نہیں لیں گے۔ عمران خان پنجاب میں ایک بڑی قوت کی حیثیت سے اُبھرے ہیں، موجودہ انتخابی مہم میں جلسوں سے بھی انہوں نے اپنی طاقت کا اظہار کیا ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے انتخابی جنگ کا میدان پنجاب کو ہی بنایا ہے۔ قومی اسمبلی کی 272 عام نشستوں میں سے 148 پنجاب میں ہیں۔ پنجاب کے مزاج کو سمجھنے والے جانتے ہیں کہ پرانے سیاسی خاندان ہی کسی جماعت کو بڑا بنانے میں بھرپور کردار ادا کرتے ہیں۔ پنجاب کے دو شہری حلقوں اور ایک دیہی حلقے سے الیکشن لڑنا خود کپتان کے لیے آسان کھیل نہیں ہے۔ میانوالی کی نشست پر انہیں مقامی لیڈر عبید اللہ شادی خیل کے ساتھ سخت معرکے کا سامنا ہے۔ وہ خود ضلع ناظم‘ اُن کے والد غلام رسول شادی خیل اور بھائی امانت اللہ شادی خیل صوبائی اسمبلی کے ممبر رہے۔ ان کا مخالف دھڑا روکھڑی خاندان بڑے میاں صاحب کی موجودگی میں عبید اللہ شادی خیل سے صلح کر چکا ہے۔ اس نشست پر اگر کوئی اپ سیٹ ہوا تو کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہو گی۔ لاہور کی نشست سے بھی انہیں ایاز صادق سے سخت مقابلہ کا سامنا ہے۔ ایسی ہی صورتحال راولپنڈی میں ہے۔ سندھ اور بلوچستان روایتی اور مقامی سیاست کے چنگل میں ہیں۔ عمران خان کو ان علاقوں سے جو امیدوار میسر آئے ہیں وہ قابلیت، علم و فہم کے اعتبار سے تو سب سے آگے ہو سکتے ہیں لیکن ووٹ بینک کی عدم موجودگی میں کوئی معجزہ ہی ان کے لیے کارآمد ہو سکتا ہے۔ اگر عمران خان نوجوانوںکو تحریک انصاف کا ہر اول دستہ سمجھتے ہیں تو میاں نواز شریف کی قوت کے پیچھے مڈل ایج کے لوگ ہیں۔ فیصلہ میڈیا وار سے نہیں بلکہ عوام کے ووٹوں سے ہوگا۔ اس کا فیصلہ 11 مئی کو ہوگا کہ پنجاب کا فاتح شیر ہے یا بلا لیکن یہ حقیقت ہے کہ اینٹی نواز شریف مہم نے ان کے حامیوں کو ایک جگہ پر متحد کر دیا ہے۔