تاریخ ساز الیکشن کا مرحلہ مکمل ہوا۔ انتخابی نتائج کے بارے میں جو اندازے لگائے گئے تھے ان کے مطابق بڑے پیمانے پر اپ سیٹ نہ ہوا۔پاکستان پیپلزپارٹی کے انتخابی میدان سے غائب ہونے سے خالی ہونے والی جگہ کو تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے نہ صرف پُر کیا بلکہ اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ انہوں نے ملک بھر کے نوجوانوں کو گرمایا۔ بڑی تعداد میں اپنے ہمدرد پیدا کیے اور لوگوں سے اپیل کی کہ ماضی کی سیاست کو دفن کر دیں۔ عمران خان نے بڑے بڑے جلسے کرکے میاں نواز شریف کو خوب للکارا۔ ہلکے پھلکے پیرائے میں پیپلزپارٹی کو بھی لتاڑا۔ انتخابی عمل جس کے معطل ہونے کے بارے میں خدشات سر اٹھا رہے تھے‘ وہ 11 مئی کا سورج طلوع ہوتے ہی پسپا ہوگئے اور پاکستان کے 8 کروڑ 61 لاکھ ووٹرز میں سے بڑی تعداد نے اپنا رائے حق دہی استعمال کیا۔ پولنگ ڈے سے پہلے ملک بھر کے 70 ہزار پولنگ ا سٹیشنز میں سے 15681 کو انتہائی خطرناک قرار دیا گیا تھا جن پر دہشت گردی کا خطرہ تھا جبکہ کم خطرناک پولنگ سٹیشن کی تعداد 15214 تھی۔ ملک بھر کے 38834 پولنگ سٹیشن بغیر کسی ہنگامہ آرائی کے چلتے رہے۔ جو صوبہ انتخابی مہم سب سے زیادہ متاثر ہوا وہ خیبر پختونخوا تھا جس میں عوامی نیشنل پارٹی سب سے زیادہ متاثر ہونے والی جماعت تھی‘ اسے کوشش کے باوجود انتخابی مہم چلانے میں سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے امیدواروں اور انتخابی اجتماعات پر شدید حملے ہوئے۔ صوبہ کے 10514 پولنگ ا سٹیشنزمیںسے صرف 4336 جو حساس نہیں تھے۔ 60 فیصد پولنگ اسٹیشنز پر ٹرن آؤٹ اس لیے کم ہوا کہ لوگوں نے جان کے خوف سے ووٹ کاسٹ نہ کیے۔یہی صورتحال صوبہ سندھ میں تھی۔ وہاں پر ٹرن آؤٹ اس لیے کم ہوا کہ 50 فیصد پولنگ سٹیشن حساس اور انتہائی حساس قرار دیئے گئے تھے۔ انتخابی عمل کے آخری لمحے میں جب این اے 110 سیالکوٹ میں انتخابی عمل مکمل ہو چکا تھا مسلم لیگ (ن) کے امیدوار خواجہ آصف کو تاریخ ساز شکست دینے کا دعویٰ کرنے والی امیدوار فردوس عاشق اعوان نے انتخابی عمل سے دستبردار ہو کر پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار کے حق میں ووٹ ڈالنے کی اپیل کرکے اپنی شکست تسلیم کر لی۔ راجہ پرویز اشرف نے فردوس عاشق اعوان کے دستبردار ہونے کا نوٹس محض خانہ پوری کیلئے لیا ہے۔ پیپلزپارٹی کی ہائی کمان کی اجازت کے بغیر فردوس عاشق اعوان کیلئے ایسا کرنا ممکن نہیں تھا۔ اس اقدام کا مقصد پیپلزپارٹی کی اس حکمت عملی کا حصہ تھا جس کے مطابق مسلم لیگ (ن) کو بڑی قوت بننے سے روکنا تھا۔ کراچی کی یہ خبر بھی حیران کن تھی کہ جماعت اسلامی نے کراچی اور حیدر آباد میں انتخابی عمل پر عدم اعتماد کرتے ہوئے الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا۔ جمہوری وطن پارٹی، سنی تحریک، مہاجر قومی موومنٹ اور جمعیت علمائے پاکستان بھی بائیکاٹ پر چلی گئیں۔ جہاں تک سیاسی جماعتوں کا تعلق ہے‘ انہوں نے اس بار اپنے پروگرام اور انتخابی منشور کی بجائے تنقید کا رخ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف کی طرف رکھا۔ تنقید ہی نہیں بلکہ ان پر کردار کشی کے زبردست حملے بھی ہوئے۔ انتخابی ضابطہ اخلاق کے حوالے سے پیمرا اس طرح حرکت میں نہیں آیا جس کی ضرورت تھی۔ پاکستان پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کی تشہیری تنقید کے نشتر میاں نواز شریف کی طرف ہی برستے رہے ۔ انتخابی مہم میں شائستگی اور عدم برداشت کے جو مناظر ہم نے ٹیلی ویژن سکرین پر دیکھے وہ قابل رشک نہیں تھے۔ جن ایشوز پر منفی تشہیری مہم چلائی گئی تھی اُس کا باب میثاق جمہوریت میں بند کر دیا گیا تھا۔ اس کے باوجود میاں نواز شریف کے خلاف تشہیری مہم چلانا ضروری سمجھا گیا۔ پیپلزپارٹی موجودہ انتخاب میں پانچ سالہ حکمرانی کے باوجود بے بسی کی تصویر نظر آئی حالانکہ پیپلزپارٹی موجودہ انتخابی کلچر کی بانی ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے قائد ذوالفقار علی بھٹو جو پہلے عوامی سیاستدان تھے۔انہوں نے پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی اور اسے زبردست عوامی جماعت بنایا۔ پاکستانی سیاست میں نیا انداز فراہم کرنے والی جماعت نے 2013ء کے انتخاب میں اپنے تاریخی ورثہ سے محروم رہی۔ 2013 کی پوری انتخابی مہم میں اس نے پاکستان میں کسی جگہ کوئی بڑا جلسہ نہیں کیا بلکہ ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کا بڑا اجتماع بھی چھوٹی سی میٹنگ میں تبدیل کردیا ۔ پیپلزپارٹی نے پوری انتخابی مہم میڈیا پر اشتہارات کے ذریعے چلاکر نئے انتخابی کلچرکومتعارف کرایا جس کے خدوخال بھٹو ازم اور اُس کی فکر کے گرد نظر آئے۔ پیپلزپارٹی نے عوامی رابطے کے بغیر جو مہم چلائی اس کے نتائج بھی ویسے ہی سامنے آئے۔ انتخابی سیاست کا میدان پنجاب تھا جہاں پاکستان پیپلزپارٹی نے ایسے امیدواروں کو جوش و جذبہ بخشا جہاں وہ مضبوط تھے۔ جہاں مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے درمیان مقابلہ تھا وہاں پیپلزپارٹی کے امیدواروں کی مہم کوتیز کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ پاکستان تحریک انصاف نے تبدیلی کے نام پر انتخابی جلسوں اور ریلیوں کے ذریعے جو ہیجان پیدا کیا تھا، پنجاب کی سطح پر اس کے اثرات جی ٹی روڈ سے ملحقہ شہروں میں نظر بھی آئے۔ موجودہ انتخابی نتائج میں دیہی انتخابی کلچر میں بہت تبدیلیاں رونما نہ ہوسکیں۔ میانوالی سے رحیم یار خان تک پھیلے ہوئے اضلاع میں سرگودھا، جھنگ، خوشاب، چکوال، جہلم، ٹوبہ ٹیک سنگھ، ملتان، بہاولپور، بہاولنگر میں روایتی دھڑے بندیوں نے خوب کام دکھایا۔ حالانکہ عمران خان نے انتخابی مہم کیلئے بڑی محنت کی تھی۔ وہ نوجوانوں کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہے تھے کہ وہ نئے پاکستان کی بنیاد رکھ رہے ہیں‘ وہ پرانے اور روایتی سیاستدانوں سے قوم کو نجات دلانے جا رہے ہیں‘وہ حکومت میں باری باری آنے کی روایت ختم کر دیں گے۔ عمران خان انتخابی مہم کے اختتامی مراحل میں ایک حادثہ سے دوچار بھی ہوئے۔ اُن کے سب سے بڑے حریف میاں نواز شریف نے رواداری کی مثال قائم کی، قدم آگے بڑھائے، اُن کیلئے نیک تمناؤں کا اظہار کیا گیا۔ شہباز شریف عمران خان کی خیریت دریافت کرنے ہسپتال چلے گئے۔ پوری قوم کے ہاتھ دعاؤں کیلئے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ عوام کی ہمدردیاں بھی ان کے ساتھ جڑ گئیں لیکن ووٹوں کا معاملہ ذرا مختلف تھا۔ میاں نواز شریف کی انتخابی حکمت عملی سب سے کامیاب رہی۔ امیدواروں کے چناؤ میں بڑی دانش کا مظاہرہ کیا۔ اگر قومی اسمبلی میں کمزور امیدوار رکھا تو صوبائی امیدوار تگڑے تھے۔ مسلم لیگ (ن) نے تشہیری مہم میں ماضی کی کارکردگی کو اجاگر کیا۔ عمران خان کے مقابلے میں شہباز شریف اور حمزہ شہباز نے بھی خوب رنگ جمایا۔ سب سے اہم بات مسلم لیگ (ن) نے یہ تاثر قائم کرنے میں کامیاب رہی کہ پنجاب میں و ہی سب سے بڑی جماعت بنے گی۔ عالمی سطح کے جائزے بھی مسلم لیگ (ن) کے حق میں جا رہے تھے جن میں کامیابی کا فرق دوسری جماعتوں سے بڑا واضح دکھائی دیتا تھا۔ انتخابات کو مانیٹرکرنے والی عالمی ٹیمیں بھی پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو آگے دکھا رہی تھیں۔ سفارت کاروں کی رپورٹس بھی میاں نواز شریف کے حق میں تھیں۔ موجودہ انتخابات مسلم لیگ (ن) کیلئے بھی تجربہ ثابت ہوئے۔ ملک کی کوئی چھوٹی بڑی جماعت ایسی نہیں تھی جس نے مسلم لیگ (ن) پر حملہ آور ہونے کی کوشش نہ کی ہو۔ کراچی، حیدرآباد اور دوسرے صوبوں میں دھاندلی کا الزام حیرت انگیز ہے۔ یہ سب کچھ ہونے کے باوجود انتخابی کلچر میں تبدیلی سیاست میں ٹھنڈی ہوا کے جھونکے ہیں۔