"WAC" (space) message & send to 7575

نمبروں کا کھیل

پاکستان کے عوام نے ’’تختِ لاہور‘‘ کا ہی نہیں بلکہ تخت پاکستان کا فیصلہ بھی جاری کر دیا ہے۔ پیپلزپارٹی نے بے نظیر اور ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے سے جو تشہیری مہم چلائی وہ بھی عوام کو متوجہ نہ کر سکی جس کی اہم وجہ یہ تھی کہ عوام 5 سالہ عہد جمہوریت کو بھولنے اور کسی صورت پیپلزپارٹی کے عہد ستم کے دوبارہ لانے پر تیار نہ تھے۔ یہ سب کچھ ووٹ کی پرچی سے ہی ممکن تھا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی کوششوں سے ہی شفاف انتخابی فہرستوں کا عمل مکمل ہوا۔ 3 کروڑ 70 لاکھ بوگس ووٹ فہرستوں سے خارج ہوئے۔ خواتین اور نوجوان ووٹرز صبح آٹھ سے شام پانچ بجے تک لمبی لمبی قطاروں میں پولنگ سٹیشنوں پر کھڑے نظر آئے جس سے ووٹرز کا ٹرن آؤٹ بھی بڑھا۔ کپتان عمران خان کی جماعت ووٹوں کے حوالے سے دوسری بڑی جماعت کی حیثیت سے سامنے آئی۔ جس نے قومی اسمبلی کی 27 نشستیں جیت کر حیران کر دیا ہے۔ خیبرپختونخوا میں قومی اسمبلی کے 17 امیدوار کامیاب ہوئے۔ دھاندلی کے الزام کے باوجود پورے کراچی میں بھی اس کے امیدواروں نے متحدہ قومی موومنٹ کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ البتہ بلوچستان اور اندرون سندھ کپتان کا جادو نہ چل سکا۔ پنجاب میں بھی اس کے آٹھ ارکان ہی قومی اسمبلی میں پہنچے۔ انتخابی جلسوں کی اُٹھان اور میڈیا میں بھرپور کوریج سے اندازے لگائے جا رہے تھے کہ مسلم لیگ (ن) بری طرح ناکام ہو گی مگر ایسا نہ ہو سکا۔ مسلم لیگ (ن) کی جوابی حکمت عملی نے تحریک انصاف ہی نہیں پیپلزپارٹی کو بھی لپیٹ کر رکھ دیا۔ اسے پنجاب میں 148 نشستوں میں سے 116 عام نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی۔ سندھ میں ایک، بلوچستان میں ایک ، فاٹا میں ایک، اسلام آباد میں ایک اور خیبر پختونخوا میں 4 قومی نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔ آزاد ارکان کے شامل ہونے سے مسلم لیگ (ن) کے ارکان کی تعداد 140 تک جا پہنچی ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق جو ایک کروڑ 25 لاکھ نئے ووٹرز انتخابی عمل کا حصہ بنے‘ خیال کیا جا رہا تھا کہ یہ نوجوان کپتان کی طرف جائیں گے لیکن دیہی زندگی سے جڑے 50 فیصد سے زائد نوجوان مسلم لیگ (ن) کی طرف گئے۔ دائیں بازو کے 10 سے 15 فیصد ناراض ووٹرز بھی آخری دن ’’شیر‘‘ کو تھپکی دیتے نظر آئے۔ 11 مئی کے انتخاب میں مسلم لیگ (ن) نے ایک کروڑ 46 لاکھ ووٹ حاصل کیے ہیں جو 2008ء کے تقریباً 68 لاکھ ووٹوں کے مقابلے میں 78 لاکھ زائد ووٹ ہیں جبکہ کپتان نے 75 لاکھ 63 ہزار ووٹ حاصل کیے۔ میاں نوازشریف کی اس شاندار کامیابی کے پیچھے طویل پارلیمانی تاریخ ہے۔ ضیاء الحق کی موت کے بعد میاں نواز شریف کو سیاست کے نئے رخ کا سامنا کرنا پڑا۔ چار سال کے عرصہ میں میاں نواز شریف ایک مرتبہ وزیراعلیٰ اور ایک مرتبہ وزیراعظم کا قلمدان سنبھالنے میں کامیاب رہے۔ میاں نواز شریف سے غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے طاقت کے بڑے مراکز سے چھیڑ چھاڑ شروع کر دی۔ چنانچہ اتحاد بھی انجام کو پہنچا اور مسلم لیگ بھی دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ 1993ء کا انتخاب پہلی مرتبہ مسلم لیگ (ن) کے نام سے لڑا لیکن نمبروں کا کھیل آئی جے آئی ٹوٹنے اور مسلم لیگ کا اتحاد بکھرنے سے بگڑ گیا۔ البتہ 93ء کے انتخاب نے شکست کے باوجود نواز شریف کو طاقت کے مظاہرے کا موقع ضرور فراہم کیا۔ 1990ء کی نسبت مسلم لیگ (ن) کو دو لاکھ ووٹ زائد ملے ۔ پیپلزپارٹی کی دوسری حکومت بھی مدت پوری نہ کرسکی۔ ایک اور وسط مدتی انتخاب نے میاں نواز شریف کو 1997ء میں وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز کر دیا۔ مسلم لیگ (ن) نے 88 لاکھ اور 44 ہزار ووٹ اور 137 نشستیں حاصل کیں جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی نے 42 لاکھ اور 15 ہزار ووٹ حاصل کیے اور یہ جماعت 18 نشستیں لے کر سندھ تک محدود ہو گئی۔ اس کو 36 لاکھ کم ووٹ ملے۔ میاں صاحب نے اپنے مینڈیٹ کو آسانی سے دو تہائی تک پہنچا دیا۔ دوسری مرتبہ طاقتور اداروں سے محاذ آرائی کا نتیجہ اقتدار سے محرومی ہی نہیں بلکہ جلاوطنی کی صورت میں سامنے آیا۔ پرویز مشرف کی سرپرستی میں قائم مسلم لیگ (ق) ملک کی سب سے بڑی پارٹی بن گئی۔ سرکاری ایوانوں سے جنم لینے والی پارٹی نے 2002ء کے انتخاب میں 68 لاکھ 98 ہزار ووٹ قومی اسمبلی کی 118 نشستیں اور ڈالے گئے ووٹوں میں سے 26.63 فیصد ووٹ حاصل کیے۔ مسلم لیگ (ن) نے 2002ء کا انتخاب انتہائی مشکل حالات اور بے سروسامانی کی حالت میں لڑا۔ اس نے 2002ء میں 32 لاکھ 92 ہزار ووٹ اور 18 نشستیں حاصل کیں۔ 1997ء کی نسبت اسے 56 لاکھ ووٹ کم ملے اور قومی اسمبلی میں اس کی 119 نشستیں کم ہوئیں۔ میاں نواز شریف نے جلاوطنی کے ایام میں لندن میں بیٹھ کر اپنی پارٹی کو دوبارہ متحد کیا۔ 23 اگست 2007ء کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے میاں نوازشریف اور ان کے بھائی شہباز شریف کو پاکستان آنے کی اجازت دی۔ مشرف حکومت نے میاں نواز شریف کو پاکستان آنے کے بعد جدہ واپس بھیج دیا ۔ پھر عالمی طاقتوں کی مداخلت پر میاں نوازشریف 2008ء میں پاکستان تو آئے لیکن انہیں الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت نہ ملی۔ البتہ انہوں نے کامیاب حکمت عملی کے تحت مسلم لیگ کو ایک بڑی جماعت بنا دیااور 2013ء کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے بڑی کامیابی حاصل کرلی ۔ 2013ء کے انتخابی نتائج سے ثابت ہوا ہے کہ نگران حکومتوں کا کردار خاصا کمزور رہا۔ انہوں نے بہت آگے بڑھ کر اپنی اصل ذمہ داری کا احساس نہیں کیا۔ ڈاکٹر طاہر القادری کے وہ الزامات درست ثابت ہونے لگے جو انہوں نے فخر الدین جی ابراہیم کے ساتھیوں کے بارے میں لگائے تھے۔ انتظامی مشینری کو صرف پنجاب کی سطح پر ہی تبدیل نہیں کیا گیا بلکہ مسلم لیگ (ن) کے حمایتیوں کو چن چن کر کھڈے لائن لگایا گیا۔ نگران حکومتوں کی یہ بھی ناکامی رہی کہ وہ بہت سے ایسے معاملات میں الجھی رہی جو اُن کی ذمہ داری نہیں تھے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان میں اصلاحات کی گنجائش ہے تاکہ ان خامیوں کو دور کیا جائے جو 11 مئی کے انتخابات میں سامنے آئیں۔ عوام کی اکثریت نے سیاست کے پرانے انداز کو مسترد کر دیا ہے۔ بہرحال انتخابات سے یہ ثابت ہوا کہ کوئی جماعت عوامی خدمت کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی اور عوام آنکھیں بند کرکے ماضی کے مزاروں کی تقلید نہیں کر سکتے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں