"WAC" (space) message & send to 7575

خارجہ پالیسی کے خدوخال

الیکشن کی گہما گہمی، شور وغوغا، تنازعات، ہنگامے اور الزامات کی گرد تیزی سے بیٹھ رہی ہے ۔ 14 ویں قومی اسمبلی اپنے نئے قائد ایوان کا انتخاب کرنے جا رہی ہے۔ نئی حکومت ایک ایسے وقت میں زمام ِاقتدار اپنے ہاتھ میں لے رہی ہے جب ملکی معیشت دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔ اندرونی اور بیرونی قرضے ملک کی بلند ترین شرح پر پہنچ چکے ہیں۔ ہر روز کرپشن کا نیا باب کھل رہا ہے۔ انرجی بحران خوفناک ہوتا جا رہا۔ پورا ملک گرمی سے جھلس رہا ہے، گرڈ سٹیشنوں پر حملے ہو رہے ہیں، ہسپتالوں میں آپریشن کرنے میں مشکلات درپیش ہیں، پانی بھی کم یاب ہوتا جا رہا۔ معیشت کا پہیہ جام ہو رہا۔ صنعتی یونٹ سکڑ چکے ہیں۔ بیروزگاری کا طوفان اُمڈ رہا ہے۔ خارجہ پالیسی کی کوئی منزل نہیں ہے۔ جون کے پہلے ہفتے میں زمام اقتدار میاں نواز شریف سنبھال رہے اور عمران خان ’’نیا پاکستان‘‘ بنانے کی منزل تک تو نہیں پہنچ سکے تاہم ان کیلئے نیا خیبر پختونخواہ بنانے کا موقع میسر آیا ہے۔ میاں شہباز شریف جو تیسری بار وزیراعلیٰ بن رہے ہیں، ان کے سامنے بھی اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کا تاریخ ساز موقع ہے۔ بلوچستان میں بھی ایک ایسی حکومت سامنے آ رہی ہے جو بلوچستان کے مسائل کو ایڈریس کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ سندھ میں ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی مل کر عوام کی محرومیوں کا مداوا کر سکتے ہیں۔ میاں نواز شریف حکومت سازی کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ اُن کا تیسرا دور بڑا اہم ہے جو لوگ اُن پر تنقید کے نشتر داغنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، انہوں نے بھی میاں صاحب کو ایک بدلا ہوا سیاستدان پایا ہے۔ ماضی کی سیاست کی نسبت اُن میں ٹھہراؤ، برداشت اور مفاہمت کی خوبیاں نمایاں نظر آنے لگی ہیں۔ سب سے حیران کر دینے والا قدم اُس وقت اٹھایا گیا جب وہ ہسپتال میں عمران خان کی عیادت کیلئے پہنچے۔ اُن کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا کہ یہ دوستی پاکستان کیلئے ہو گی۔ یہ الگ بات کہ بعد میں عمران خان نے میاں نوازشریف کے فرینڈلی میچ کھیلنے کی آفر کو ٹھکرا دیا۔ درگزر کرتے ہوئے میاں صاحب نے پرویز مشرف کی اُن خطاؤں کو بھی معاف کر دیا جس سے ان کا اقتدار چھینا گیا تھا۔ میاں نواز شریف نے صدر پاکستان آصف علی زرداری سے ملاقات میں انہیں اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا عندیہ بھی دیا۔ آرمی چیف سے بھی ملاقات ہوئی۔ 2013ء اور 2008 ء کی حکومت میں بڑا فرق نظر آتا ہے۔ یوسف رضا گیلانی جب وزیراعظم پاکستان چنے گئے تھے، اُن کے سامنے ملک اقتصادی بحران کی زد میں تھا، لوڈشیڈنگ تھی، خارجہ پالیسی کی ترجیحات کا تعین بھی حکومت نے نئے سرے سے کرنا تھا۔ بدحال معیشت کی وجہ سے حکومت چلانے کیلئے بار بار کشکول اٹھایا اور امداد کیلئے ہر در پر دستک دی۔ پیپلزپارٹی کے اقتصادی ماہرین کی ناکامی کا یہ حال تھا کہ 5 سال میں چھ کے قریب خزانے کے مشیر اور وزیر بدلے گئے۔ انرجی بحران کے خاتمے کیلئے رینٹل پاور کا جو منصوبہ بنایا گیا، غیر شفافیت کی وجہ سے اس میں کرپشن کی کہانیاں منظرعام پر آئیں۔ اقتصادی پہیہ ایسا جام ہوا کہ سینکڑوں کارخانے بند اور لاکھوں لوگ بیروزگار ہو گئے۔ متوسط طبقہ غریب طبقے میں مدغم ہو گیا۔ تعلیم کا یہ حال ہے کہ مئی 2013ء کی ایک رپورٹ کے مطابق 2 کروڑ 70 لاکھ بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ بیروزگاری، غربت اور بھوک کا اس سے بھی برا حال ہے۔ 2000ء میں حکومت پاکستان نے عالمی برادری سے کہا تھا کہ 2015ء تک جی ڈی پی کا 7 فیصد تعلیم پر خرچ کیا جائے گا۔ میاں نوازشریف کی مسلم لیگ سنگل لارجسٹ پارٹی بن کر اُبھری ہے۔ مسائل کا انبار اس کے سامنے ہے۔ نواز شریف نے اپنی ترجیحات میں دو پہلوؤں پر سب سے زیادہ توجہ دی ہے۔ خارجہ پالیسی اور معیشت کی اصلاح کو تو انہوں نے چیلنج کے طور پر قبول کیا ہے۔ ان کیلئے ایک چیلنج یہ ہوگا کہ وہ آئی ایم ایف کے پاس جاتے ہیں یا نہیں، خزانہ تو خالی ہے ۔ میاں صاحب وزیراعظم بننے سے پہلے چینی وزیراعظم سے اُن کے حالیہ دورئہ پاکستان کے دوران طویل ملاقات کر چکے ہیں جس میں انہوں نے خزانہ بھرنے کیلئے امداد کی درخواست نہیں کی بلکہ پاکستان میں سرمایہ کاری پر زور دیا۔ اس وقت 140 سے زائد چینی کمپنیاں پاکستان میں کام کر رہی ہیں۔ گوادر پورٹ کی وجہ سے بھی چین کے ساتھ پاکستان کے اقتصادی مضبوط ہوئے ہیں۔ حقیقت یہی ہے پاکستان کو اس وقت کشکول سے زیادہ معیشت کو مضبوط اور اقتصادی سرگرمیاں رواں کرنے کی ضرورت ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی کامیابی سے امریکہ کو نئے سرے سے پاکستان کے بارے میں معاملات بہتر بنانے کی ضرورت محسوس ہوئی ہے۔ میاں نواز شریف جن معاشی سرگرمیوں کو رواں کرنے کا نعرہ لگا رہے ہیں، اُس کیلئے پاکستان میں امن اور دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ضروری ہے۔ دوٹوک مؤقف کی وجہ سے ہی امریکی سفیر اب تک میاں نواز شریف سے دو طویل ملاقاتیں کر چکے ہیں۔ امریکی سفیر نے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ توانائی بحران کے خاتمہ اور معیشت کی بحالی کیلئے امریکہ مکمل حمایت کرے گا۔ یہی نہیں امریکہ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے منصوبوں میں بھی مکمل تعاون کرے گا جبکہ میاں نواز شریف ڈرون حملوں کے بند کرنے اور طالبان سے مذاکرات پر زور دے رہے ہیں۔ ڈرون حملوں کے بارے میں پہلے امریکی صدر باراک اوباما نے کہا تھا کہ بوسٹن سے فاٹا تک دہشت گردوں کا پیچھا کیا جائے اور ڈرون حملے جاری رکھنے کا عندیہ بھی دیا تھا۔ گزرے 3 سالوں میں ان حملوں کی وجہ سے پاکستان کو 58 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے جس کی وجہ سے گزشتہ حکومت نے 16 ارب ڈالر کا قرضہ لیا اور اقتصادی مسائل نے ہمارا گھیراؤ کر لیا۔ اگر ہم پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے دیکھیں تو ماضی کے حکمرانوں نے امریکہ کے سیاسی نظام میں اپنی جگہ بنانے کی بجائے امریکی صدور، اراکین کانگریس، وزیروں اور عہدیداروں سے ہی ملاقات اور تصاویر بنوانے کو کامیابی کا پیمانہ سمجھا ہے اور اسی کو تعلقات کی معراج سمجھ لیا گیا کہ کس کانگرس مین نے کس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر دوستانہ گفتگو کی اور کس وزیر اور جرنیل نے ان سے مسکرا کر بات کی۔ امریکہ جو دس سال سے پاکستان کا دوست اور اتحادی ہے اور فرنٹ لائن کے طور پر استعمال ہونے والے پاکستان کا شکریہ ادا کرنے کی بجائے گزشتہ تین سالوں سے الزامات اور وارننگ کے تحفے دیئے ہیں۔ امریکہ کا موجودہ طرز عمل اس لیے تبدیل ہوا ہے کہ چین نے پاکستان کے ساتھ چٹان سے مضبوط، ہمالیہ سے بلند اور شہد سے میٹھی دوستی کا عندیہ دیا ہے ۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں یہ شاندار لمحہ ہے کہ آنے والی پارلیمنٹ خود مختار پالیسی کا راستہ اختیار کر رہی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں