"WAC" (space) message & send to 7575

آنے والا کل

کسی قوم کے مزاج کا اندازہ اُس کے فیصلوں اور ردعمل سے لگایا جا سکتا ہے۔ ہمیں فخر ہے کہ پاکستان کے عوام نے رائے عامہ کے ذریعے انتقال اقتدار کا راستہ دکھایا۔ پھر ہمارے سامنے ایسی صورتحال بھی آئی کہ ہارنے والے تو ناراض تھے ہی‘ جیتنے والوں کی ناراضی کی آوازیں بھی سنائی دیں۔ انتخابی نتائج نے دو بڑی جماعتوں کو جہاں اپنے فیصلے سے مسترد کیا وہاں تحریک انصاف ایک بڑی پارٹی کے طور پر اُبھری۔ ووٹوں کے اعتبار سے اُس نے دوسری جگہ بنائی ہے جبکہ نشستوں میں اس کا حصہ تیسرے نمبر پر ہے۔ تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے اپنی پارٹی کو اس مقام تک بڑی محنت سے پہنچایا ہے۔ 17 سال کا سفر ہے ۔ انہوں نے پڑھے لکھے اور قابل لوگوں کی ٹیم بنانے اور پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں پارٹی کی تنظیمیں قائم کرنے کے علاوہ نوجوانوں کو اپنا ٹارگٹ ہی نہیں بنایا بلکہ ایسا تاثر قائم کر دیا کہ نوجوانوں کا دوسرا عنوان تحریک انصاف ہے۔ عمران خان نے خواتین کو متحرک کیا، لاکھوں تبدیلی رضا کار بھرتی کیے اور متاثر کن جلسوں سے خطاب کیا ۔ انتخابی مہم کے دوران عمران خان ذہن بنا چکے تھے کہ وہ وزیراعظم بن کر پہلے نمبر پر کیا کریں گے، دوسرے نمبر پر کیا ہوگا، پھر کس مسئلے کی باری آئے گی۔ اُن کی سب سے بڑی حریف جماعت مسلم لیگ (ن) پنجاب میں حکمران تھی۔ اُس نے پیپلزپارٹی اینٹی قوتوں کو پہلے ہی اپنی جماعت میں شامل کر لیا تھا۔ امیدواروں کے چناؤ کا مرحلہ دو ماہ پہلے ہی مکمل کر لیا کہ کون قومی اسمبلی میں آئے گا اور کس امیدوار کے پینل میں کون کون صوبائی اسمبلی کا امیدوار ہوگا۔ عمران خان نے ملک کے کونے کونے میں تقریریں کیں، پروگرام سے زیادہ میاں نواز شریف ہی کو اپنا ہدف بنایا جس سے سنجیدہ ووٹرز میں یہ احساس آخری لمحوں میں شدت سے نمایاں ہوا کہ کہیں عمران خان کو ووٹ دینے سے پیپلزپارٹی کا 5 سالہ دور اُن پر پھر مسلّط نہ ہو جائے۔ ایک طرف وہ نئے پاکستان کیلئے عوام کو متحد کر رہے تھے‘ دوسری طرف خود پارٹی کے اندر گروہ بندی سر اٹھا رہی تھی۔ نئے پاکستان کی مہم میں عمران خان کے نعروں نے ایک خاص کلاس کو متاثر کیا جن کے پاس چمکتی دمکتی گاڑیاں تھیں۔ پاکستان کی آبادی کا 60 فیصد سے بڑا حصہ غریب لوگوں پر مشتمل ہے۔ تحریک انصاف انہیں ووٹ کیلئے متاثر نہ کر سکی۔ سنٹرل پنجاب میں تحریک کی ناکامی کی ایک وجہ یہ تھی کہ ایک نشست پر کئی کئی امیدوار موٹر گاڑیوں پر تحریک انصاف کے امیدوار کے طور پر مہم چلا رہے تھے، ٹکٹوں کی تقسیم سے پہلے کسی نے انہیں روکا نہیں۔ پنجاب میں تحریک انصاف کے جو لوگ کامیاب ہوئے‘ وہ سیاست کے پرانے کھلاڑی تھے۔ البتہ خیبر پختونخوا میں اُن کی کامیابی کا بڑا سبب عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان پیپلزپارٹی کی بری کارکردگی تھی۔ عمران خان کی پارٹی کو اس لیے بھی وہاں شرف قبولیت حاصل ہوا کہ ان کے خیال میں عمران خان ہم میں سے ہے اور ہماری بات کرتا ہے۔ کامیابی کے بعد خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک عمران خان کے ایجنڈے پر چلنے کا عہد کر چکے ہیں۔ عمران خان کی کے پی کے میں حکومت سازی میں بڑا حصہ میاں نواز شریف کا ہے جنہوں نے مولانا فضل الرحمن کی پوری کوشش کے باوجود تحریک انصاف کا حق حکومت تسلیم کیا۔ یہاں بھی بھرپور کامیابی کے باوجود تحریک انصاف کے پی کے کی سنگل لارجسٹ پارٹی نہ بن سکی‘ اس لیے انہیں جماعت اسلامی کے 8 ، قومی وطن پارٹی کے 10 اور صوابی کی مقامی جماعت کے 5 ممبران اسمبلی کی حمایت لینا پڑی۔ یہ کیسا اتحاد تھا کہ وزیراعظم کے انتخاب میںتحریک انصاف کے امیدوار نے جاوید ہاشمی کی بجائے میاں نواز شریف کو ووٹ دیا۔ میاں نواز شریف قومی اسمبلی میں 244 ووٹ لے کر وزیراعظم ہی نہیں بنے بلکہ انہوں نے دو تہائی اکثریت بھی حاصل کر لی۔ وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد میاں نواز شریف نے قومی اسمبلی میں یادگار تقریر کی۔ میاں نواز شریف کے بارے میں قومی سطح پر یہ بحث چل نکلی ہے کہ طرز حکمرانی میں میاں صاحب بدلے ہیں یا نہیں۔ اس کا تعین میاں صاحب کے فیصلے اور اقدامات کریں گے۔ جاوید ہاشمی آج تک 5 جون کی تقریر کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔ 2012ء میں جب وہ ایوان اقبال میں خواجہ رفیق کی برسی سے آخری مقرر کی حیثیت سے خطاب کر رہے تھے تو ٹیلی ویژن چینل پر اُن کے تحریک انصاف میں جانے کی خبریں چل رہی تھیں۔ جاوید ہاشمی اگلے دن کراچی پہنچے۔ ایئر پورٹ پر عمران خان نے ان کا استقبال کیا۔ شام کو جلسہ عام سے خطاب کے دوران عمران خان کو یاد دلایا کہ میں تمہارے ساتھ تبدیلی کیلئے آ رہا ہوں۔ اگر تم اپنے وعدے سے پھر گئے تو یاد رکھنا پھر آپ کو بھی کہوں گا ’’ہاں میں باغی ہوں‘‘۔ 5 جون 2013ء کے دن جاوید ہاشمی کی تقریر سے ایسا لگا کہ وہ پھر باغی ہو چکے ہیں۔ جب انہوں نے وزیراعظم کے خطاب کے بعد اپنی تقریر میں دانستہ کہا ’’میاں نواز شریف میرے لیڈر تھے اور رہیں گے‘‘ اس سے اگلے دن انہوں نے کہا کہ جو کچھ انہوں نے کہا تھا وہ اُس پر قائم ہیں۔ جاوید ہاشمی کے بیان سے سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے حامیوں نے دانت تیز کر لیے ہیں۔ عمران خان کے علاوہ مرکزی قیادت نے بھی جاوید ہاشمی کے رویے کو محسوس کیا ہے۔ تحریک انصاف آنے والے دنوں میں میاں نواز شریف کے خلاف انتخابی دھاندلی کے نام پر سیاست کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ صرف عمران خان کے مکمل صحت یاب ہونے کا انتظار ہو رہا ہے۔ عمران خان نے چیف جسٹس آف پاکستان سے دھاندلی کا نوٹس لینے کا مطالبہ ایک بار پھر دہرایا ہے۔ اس سے پہلے جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کی ایسی ہی درخواست سپریم کورٹ مسترد کر چکی ہے۔ عمران خان کیلئے اس وقت دو بڑے چیلنج ہیں۔ ایک تو پارٹی کے اندر اُبھرتے ہوئے اختلافات ہیں‘ دوسرے پارٹی کے اندر انصاف نہ ہونے کی آواز تحریک انصاف خواتین ونگ کی سابق صدر فوزیہ قصوری نے اٹھائی ہے اور الزام لگایا ہے کہ پارٹی پر مافیا کا قبضہ ہے اور یہ کہ جو پارٹی مجھے انصاف نہ دے سکی، کسی اور کو کیا دے گی۔ فوزیہ قصوری پاکستان کے سابق وزیر قانون میاں محمود علی قصوری کی بہو ہیں۔ انہوں نے عمران خان کی آواز پر فنڈ ریزنگ میں اہم کردار ادا کیا بلکہ سیاست میں حصہ لینے کیلئے امریکی شہریت کو ترک بھی کر دیا جس کی تصدیق فوزیہ قصوری نے امیدوارکے فارم میں بھی کی۔ تحریک انصاف کے اندر اور لیڈر بھی بولنے کیلئے پر تولتے نظر آ رہے ہیں۔ بہت سے لوگوں کو شاہ محمود قریشی کا بھی شدت سے انتظار ہے کہ وہ کب میاں نواز شریف کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہیں۔ عمران خان نے خوشخبری دی ہے کہ لیڈر کوئی بھی ہو، حقیقی اپوزیشن تحریک انصاف ہی کرے گی۔ عمران خان کو صحت یابی مبارک، ہماری نظر میں انہیں چاہیے کہ جس مافیا کی نشاندہی کی گئی ہے اُس کو منظرعام پر لائیں۔ علاوہ ازیں پارٹی کو شخصیات کے نرغے سے نکال کر پارٹی ڈسپلن اور پروگرام کو اجاگر کیا جائے۔ پھر ہو سکتا ہے کہ آنے والا کل تحریک انصاف کا ہو۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں