ٹالسٹائی نے کہا تھا ’’صبر و استقامت اور وقت‘‘ دو نہایت طاقتور جنگ باز ہیں۔ یہ تاریخی الفاظ انہوں نے انسان کی جبلت کے گہرے مشاہدکے بعد کہے تھے۔ استقامت سے غوروفکر کرنے والا انسان ابھرتا ہے اور وقت کا درست استعمال کرنے والا کامیاب ٹھہرتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کی شخصیت کو پرکھا جائے تو ان کا دامن ان دونوں خوبیوں سے خالی نظر آتا ہے۔ پرویز مشرف کے بے صبرے پن کی ایک مثال صدر پاکستان آصف علی زرداری نے کئی چینلوں کو بیک وقت دیئے گئے انٹرویو میں دی۔ مشرف نے کارگل پر قبضہ کرنے کیلئے بے نظیر بھٹو کے سامنے جو آپشن رکھے تھے وہ درست نہیں تھے۔ پھر پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کی مرضی کے بغیر کارگل کی چوٹیوں پر مہم جوئی کیلئے عین اُس وقت کا انتخاب کیا جب پاکستان اور بھارت کے درمیان دوستی کا ٹریک درست کیا جا رہا تھا۔ پرویز مشرف نے ملک کے اقتدار اعلیٰ پر طاقت سے قبضہ کرکے بے صبرے پن کا مظاہرہ کیا۔ ایسے واقعات کی ایک طویل فہرست ہے۔ درست اور بروقت فیصلے کے زعم میں مبتلا پرویز مشرف نے وقت کے استعمال میں بھی غلطی کی۔ وہ 2008ء میں قائم ہونے والی جمہوری حکومت کے ہاتھوں شکست کھاتے ہوئے لندن میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔ انہوں نے 4 سال کی جلاوطنی ختم کرکے 24 مارچ 2013 کو کراچی ایئر پورٹ پر اُس وقت قدم رکھا جب آزاد الیکشن کمیشن قائم ہو چکا تھا‘ پیپلزپارٹی کی حکومت پانچ سال کی مدت پوری کر چکی تھی اور نگران حکومت بن چکی تھی۔ انہوں نے اپنے حق میں زبردست تشہیری مہم چلا کر عالمی میڈیا میں ایک انقلابی کا تاثر اُبھارا۔ غلط وقت پر فیصلے کا اندازہ انہیں ہو گیا۔ عوام کا مایوس کُن استقبال دیکھ کر جنرل مشرف 5 گھنٹے ایئر پورٹ سے باہر نہ آئے۔ اُن کو عظیم لیڈر قرار دینے والے نظریں پھیر کر دوسری جماعتوں کی طرف لڑھک چکے تھے۔ آزاد الیکشن کمیشن نے انہیں نااہل قرار دے کر اُن پر سیاست کے دروازے بند کر دیے۔ ملک کی تین بڑی جماعتیں 11 مئی کے الیکشن میں جانے سے کترا رہی تھیں۔ افواہوں اور سنسنی خیزیوں کے بہاؤ میں یہ سب سے آگے تھیں۔ اس سے پہلے ان جماعتوں کی بھرپور حمایت ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ تھی جن کے بارے میں اندازہ لگایا گیا تھا کہ ’’شیخ الاسلام کا سارا کھیل جمہوریت پر خودکشی حملہ ہے۔‘‘ قوم کے مضبوط ارادے کی وجہ سے بیلٹ باکس کی حکمرانی تک پہنچنا ایک معجزے سے کم نہیں۔ جو لوگ پرویز مشرف کی وجہ سے الیکشن ملتوی ہوتا دیکھ رہے تھے‘ جمہوریت کا تسلسل اُن کیلئے صدمہ بن گیا۔ مشرف کو اندازہ نہیں تھا کہ پاکستان کے حالات کس حد تک اُن کے خلاف ہو چکے ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی سے مشرف کو کبھی خطرہ نہیں تھا۔ اُس نے اپنے پانچ سالہ دور میں اُن کے جرائم کا حساب لینے کے لیے کاغذی کارروائی سے زیادہ کچھ نہ کیا۔ آئین کی توہین مشرف کا سب سے بڑا جرم تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اب ہر کیس اُن سے آئین شکنی کا جواب مانگ رہا ہے۔ تازہ اطلاع ہے اس مقدمے میں مشرف پر فرد جرم لگ چکی ہے لیکن وہ صحت جرم سے انکار کر چکے ہیں۔ انکار کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے ایڈوائس پر عمل کرتے ہوئے دستخط کیے تھے۔ وہ اکبر بگٹی کے مقدمے میں گرفتار ہو چکے ہیں اور بلوچستان کے سیاستدان چاہتے ہیں کہ ملزم کا ٹرائل ان کے صوبے میں ہو۔ بے نظیر بھٹو کے قتل کے ملزم کی حیثیت سے بھی مشرف کو بہت سے جوابات دینے ہیں جبکہ لال مسجد آپریشن کی گرہیں بھی کھل رہی ہیں اور یہ معاملہ بھی مشرف تک جاتا نظر آ رہا ہے۔ نواز شریف حکومت کے بارے میں تاثر پھیلایا جا رہا ہے کہ وہ ان کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کا ارادہ نہیں رکھتی۔ ضیاء الحق کے صاحبزادے اعجاز الحق وثوق سے فرماتے ہیں کہ ایک ماہ کے اندر مشرف کسی نہ کسی طریقے سے باہر نکل جائیں گے۔ قدرت کا اتفاق دیکھیے‘ جس شخص نے میاں نواز شریف کا اقتدار ختم کیا‘ انہیں گرفتار کرکے راولپنڈی، لانڈھی جیل اور اٹک کے قلعے میں رکھا‘ انہیں عمر قید سمیت 14 سال کی سزا سنائی اور پھر 2000ء میں جلاوطن کر دیا‘ اُن کی جماعت کے حصے بخرے کر دیے‘ اُن کے خاندان کیلئے پاکستان میں قدم رکھنا مشکل بنا دیا‘ آج وہی شخص اپنے شاندار محل میں ایک قیدی کی حیثیت سے اپنی بنائی ہوئی عدالتوں کے سامنے پیش ہو رہا ہے۔ میاں نواز شریف تیسری بار وزیراعظم بن گئے ہیں۔ انہوں نے وزیراعظم بننے کے بعد اپنے خطاب میں حقیقی جمہوریت قائم رکھنے کی ضرورت پر زور دیا‘ پاکستان میں لگنے والے چار مارشل لائوں کی مذمت کی اور بتایا کہ خرابیاں کیوں اور کیسے سر اٹھاتی رہیں۔ انہوں نے کہا: ’’جمہوریت سے جب بھی منہ موڑا گیا کانٹوں کی فصل پروان چڑھی اور جب بھی آمریت آئی تو ملک کی اکائیوں کو نقصان پہنچا۔ عالمی برادری میں پاکستان کی بدنامی ہوئی۔ آمریت کی وجہ سے پاکستان دو ٹکڑے ہو گیا‘‘۔ وزیراعظم کے انتخاب کے بعد قومی اسمبلی میں تمام پارلیمانی پارٹیوں کے لیڈروں نے جمہوریت کی بالادستی کے حق زبردست میں تقریریں کیں۔ سینئر رہنما محمود اچکزئی نے ارکان پارلیمنٹ کیلئے بہت سے سوالات چھوڑے۔ ایک سوال یہ بھی تھا کہ پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے ایسے رکن بھی ہیں جنہوں نے آمروں کی حمایت کی۔ اُن کی اس بات نے زبردست داد سمیٹی۔ ان میں پرویز مشرف کے ماضی کے ساتھیوں کی بڑی تعداد ہی نہیں تھی بلکہ ایوب خان اور ضیاء الحق سے تعلق رکھنے والے بھی موجود تھے۔ انہوں نے پرویز مشرف کے ٹرائل کو کافی قرار نہیں دیا بلکہ انہیں بھی کٹہرے میں لانے کا سوال اٹھایا جو مشرف کے فیصلوں کے ساتھی اور مددگار تھے۔ تقریر کا نچوڑ یہی تھا کہ اب ہمیں عہد کرنا چاہیے کہ آئندہ آئین کی خلاف ورزی کی گئی اور اسے توڑا گیا تو اسمبلی کا کوئی بھی رکن اس کا ساتھ نہ دے گا۔ یہ سوال اپنی جگہ بڑا اہم تھا کہ سیاست دانوں کی حمایت سے ہی ماضی کے مارشل لاء اقتدار اور جابرانہ طرز کو طول دیتے رہے۔ کوڑوں سے عوام کی چمڑیاں ادھیڑتے رہے۔حق بات کہنے والے سیاست دانوں کیلئے سیاست کے دروازے بند کرتے رہے ہیں۔ یہ بات ایک بار نہیں چار بار ثابت ہو چکی ہے۔ پاکستان میں فوجی طرز حکمرانی کا ملک کو فائدہ نہیں ہوا۔ اگر ایوب خان کا دور حکومت جمہوری ہوتا تو وہ اپنے پیچھے کوئی مضبوط ادارہ اور نظام چھوڑ کر جاتا۔ اس دور سے وابستہ لوگ اقتدار ختم ہوتے ہی منظر سے غائب ہو گئے۔ الطاف گوہر نے ،جو ایوب خان کے قریبی ساتھی رہے،اعتراف کیا کہ میں نے اپنی زندگی کے بہترین سال ان کے (ایوب) متعارف کردہ نظام کی خدمت کیلئے صرف کر دیے لیکن اس نظام کو عوام کی تائید نہ ملی۔ دوسرے فوجی حکمران یحییٰ خان نے شفاف انتخابات تو کرائے لیکن اقتدار منتقل کرنے انحراف کیا۔ ان پر صدر رہنے کی خواہش اتنی غالب آ گئی کہ ملک ٹوٹ گیا۔ ضیاء الحق کا مارشل لاء پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کا ردعمل تھا لیکن مارشل لاء لگانے میں دائیں بازو کے سیاستدانوں نے بھی بھرپور حصہ لیا۔ ایئر مارشل اصغر خان کا 25 اپریل 1977ء کا ڈیفنس سروسز آف پاکستان کے چیف آف سٹاف اور افسران کے نام خط سیاست میں داخل ہونے کا ہی پیغام تھا۔ انتخاب سے پہلے احتساب کا نعرہ قومی اتحاد کے لیڈروں نے اجتماعی طور پر لگایا تھا۔ ولی خان نے ضیاء الحق کو مشورہ دیا: ’’عام انتخابات سے پہلے ملک سے بھٹو ازم کا خاتمہ ضروری ہے۔‘‘ اب قوم جمہوریت کی طرف چل پڑی ہے۔ نئی جمہوری حکومت قائم ہو چکی ہے۔ اس کے سامنے مسائل کے پہاڑ ہیں۔ حکومت قائم ہوئے دس روز ہی گزرے ہیں۔ کچھ سیاستدانوں میں ماضی کی محاذ آرائی کی طرف لوٹنے کا رویہ نظر آنے لگا ہے۔ خدارا اب سیاست کو ماضی کی طرف نہ لے جائیں۔