"WAC" (space) message & send to 7575

افغانستان میں کون کون پسپا ہو رہا ہے

گیارہ مئی کے جمہوری انقلاب کے بعد یہ اعزاز بھی پاکستان کے حصے میں آیا ہے کہ وہ افغانستان میں امن کوششوں میں شریک ہے۔ میاں نواز شریف ابھی وزیراعظم کے باقاعدہ امیدوار نہیں بنے تھے کہ انہوں نے طالبان سے صلح اور مذاکرات کا اعلان کرکے عالمی میڈیا کی بھرپور توجہ حاصل کر لی تھی۔ یہ پیشکش پاکستان کے لبرل، سیکولر اور سول سوسائٹی کے بڑے حصے کیلئے حیران کن تھی اور توقع کی جا رہی تھی کہ امریکہ ان کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کرے گا۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد نے طالبان کے قریبی دوستوں سے بھی ٹیلی فون پر رابطے کرکے بات چیت کے عمل کا آغاز کرنے کی درخواست کی۔ اس دوران امریکی سفیر نے دو مرتبہ میاں صاحب سے ملاقات کی لیکن طالبان کے حوالے سے سخت موقف کا اظہار نہ کیا جس سے محسوس ہونے لگا کہ طالبان سے امن کے حوالے سے کہیں نہ کہیں مذاکرات کی کھچڑی پک رہی ہے۔ اس کی تصدیق امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے اس بیان سے ہوئی: ’’طالبان سے لڑنے کی بجائے مذاکرات بہتر ہیں۔ ہم نے ماضی میں مخالفت کے باوجود چین اور ویتنام سے بھی بات کی‘‘۔ جب میاں نواز شریف وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھا رہے تھے، امریکہ نے ڈرون حملہ کردیا جس میں پاکستانی حکومت سے مذاکرات کے سب سے بڑے حامی ولی الرحمن بھی مارے گئے۔ سیاست اور جنگ کے کھیل میں سب چلتا ہے۔ جان کیری نے ویتنام کا حوالہ اس لیے دیا تھا کہ امریکہ کو اپنے کٹر دشمنوں کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانا پڑی تھی۔ طالبان تو ماضی میں امریکہ کے حلیف اور دوست رہے تھے۔ انہی مجاہدین کی مدد سے انہوں نے دنیا میں اپنے سب سے بڑے دشمن روس کو شکست دی تھی۔ امریکہ افغانستان سے 2014ء کے آخر تک نکل جائے گا لیکن وہ چاہتا ہے کہ افغانستان میں تمام سٹیک ہولڈرز خود آگے آئیں اور مل کر افغانستان کی تعمیرنو میں حصہ لیں۔ طالبان کے حوالے سے جون کے مہینے میں قطر میں ہونے والی پیش رفت نے کابل ہی نہیں عالمی سیاست کے مزاج میں بھی ارتعاش پیدا کر دیا ہے۔ طالبان نے قطر میں اپنا دفتر ’’امارات اسلامی افغانستان‘‘ کے بینر تلے کھول کر دنیا کو تاثر دیا جیسے یہ ان کا سفارت خانہ ہو۔ دفتر کے افتتاح سے پہلے افغانستان میں نیٹو فورسز، سکیورٹی اور جنگی آپریشنز کی کمان کو بھی اعتماد میں لیا گیا تھا۔ افغانستان سے امریکہ کے جانے سے جس شخص کو ناامیدی کے سائے گھیر رہے ہیں وہ افغان صدر حامد کرزئی ہیں۔ نیٹو فورسز اور امریکہ کی سرپرستی ختم ہوتے ہی وہ بے سہارا اور تنہا ہو جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے امریکہ سے شدید احتجاج کیا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ جو بھی میثاق یا معاہدہ ہو، وہ قطر میں نہیں افغانستان میں ہو۔ طالبان سے مذاکرات کا موجودہ عمل اچانک شروع نہیں ہوا بلکہ اس پر 2012 ء سے کام ہو رہا تھا۔ مذاکرات بار بار اس لیے تعطل کا شکار ہوتے رہے کہ طالبان امریکہ کی قید میں اپنے اہم ساتھیوں کی فوری رہائی چاہتے تھے۔ موجودہ پیش رفت میں طالبان کی طرف سے حامد کرزئی کے علاوہ امریکہ کی تیار کردہ تین لاکھ افغان فوج اور پولیس سے بھی معاملات طے کرنے کی اطلاعات ہیں۔ طالبان یہ بھی چاہتے ہیں کہ امریکہ کے جانے کے بعد دیگر اقوام افغانستان کی تعمیرنو میں ہاتھ تو بٹائیں مگر وہ افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کریں۔ نائن الیون کے بعد امریکی ٹیکس گزاروں کا بھاری سرمایہ دس سالہ افغان جنگ کی نذر ہو چکا ہے۔ اس وقت افغانستان میں 66 ہزار امریکی فوجی موجود ہیں جو دسمبر 2014ء تک دو مرحلوں میں افغانستان کو خیرباد کہہ دیں گے۔ انہوں نے اپنا عسکری ساز و سامان امریکہ پہنچانے کیلئے عالمی جہاز راں کمپنیوں سے معاہدے بھی کر رکھے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق یہ سامان امریکہ پہنچانے کا خرچ سات ارب ڈالر کے قریب ہے۔امریکہ چاہتا ہے کہ اُن کا سامان اور فوجی خوش اسلوبی سے افغانستان کو خیرباد کہہ دیں۔ اس سلسلہ میں میاں نواز شریف سے امریکہ نے مدد طلب کی ہے۔ قطر میں طالبان کے دفتر کے حوالے سے پاکستان کے دفتر خارجہ نے تسلیم کر لیا ہے کہ اس میں حکومت پاکستان کا بھی مفاہمتی کردار ہے۔ افغانستان سے امریکہ کا نکلنا امن‘ امریکہ اور پاکستان کے مفاد میں ہے۔ دہشت گردی کی جس جنگ میں پرویز مشرف نے پاکستان کو دھکیلا تھا، ہم نے اس کی بھاری قیمت ادا کی ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے خوفناک واقعات کا جو تسلسل دس برسوں پر محیط ہے، اب اس سے نجات ملنے کا امکان ہے۔ پاکستان کے سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ کا کہنا ہے کہ طالبان سے معاملات طے پانے کے بعد وہ ایجنٹ بھی نکل جائیں گے جو فاٹا سے بلوچستان تک پھیلے ہوئے ہیں۔ پاکستان تو افغانستان کی ہمیشہ مدد کرتا رہا ہے،لیکن افغانستان سے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کبھی نہیں آئے۔ آزادی کے وقت افغانستان دنیا کا واحد ملک تھا جس نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی مخالفت کی تھی اور تقسیم کے وقت برطانیہ کی طرف سے قائم کردہ ’’ڈیورنڈ لائن‘‘ کی حیثیت پر اعتراض اٹھاتا رہا اور خیبر پختونخوا اور کچھ بلوچی لیڈروں کو بھی پاکستان کے خلاف برگشتہ کرتا رہا۔ روس نے جب کابل پر چڑھائی کی، پاکستانی اور افغان عوام روسی جارحیت کے سامنے ڈٹ گئے جس کے بعد امریکی صدر جمی کارٹر نے کہا: ’’دوسری عالمی جنگ کے بعد روس کی یہ مداخلت امن کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے‘‘۔ پاکستان ہی کی مدد سے جنگ میں روس کو 70 بلین ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا‘ اس کے 13310 فوجی مارے گئے۔ بالآخر 14 اپریل 1988ء کو روس اور امریکہ نے باہمی مذاکرات میں جنیوا معاہدے کی شرائط طے کر لیں۔ محمد خان جونیجو کی شمولیت خانہ پُری تھی۔ معاہدے میں روس نے تسلیم کیا کہ ’’افغانستان میں اس کی فوجی مداخلت ایک بڑی غلطی تھی۔ یہ فیصلہ غیر ضروری تھا اور یہ قدم عوامی حمایت کے بغیر اٹھایا گیا‘‘۔ اب بھی افغانستان میں طالبان سے امن مذاکرات پر بہت سے لوگ پریشان ہیں کہ افغانستان میں کہیں 1990ء کا دور واپس نہ آ جائے جب مجاہدین کے گروپ مختلف علاقوں پر چڑھ دوڑے۔ ڈاکٹر نجیب نے 18 مارچ 1992ء کو تخت کابل سے دستبرداری کا اعلان کرکے اقوام متحدہ کے دفتر میں پناہ لے لی۔ مجاہدین نے ایک دوسرے کے خون کی ندیاں بہا دیں۔ ڈاکٹر نجیب نے اقتدار چھوڑتے وقت پاکستان کے وزیراعظم میاں نواز شریف سے سیاسی تصفیہ کیلئے مدد چاہی۔ اپریل 1992ء میں اقوام متحدہ کی کوششوں سے میاں نواز شریف معاہدہ پشاور کی روسے ’’افغان عبوری کونسل‘‘ قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ 10 افغان جماعتوں نے مجددی کی قیادت میں 2 ماہ کیلئے اقتدار سنبھال لیا۔ معاہدہ پشاور ناکام ہوا تو میاں نواز شریف نے افغان قیادت کو اسلام آباد بلا کر پہلے صدر برہان الدین ربانی اور حکمت یار کے درمیان صلح کرائی پھر 1993 ء میں ’’معاہدہ اسلام آباد ‘‘ پر آٹھ پارٹیوں نے دستخط کیے۔ بعد ازاں سعودی عرب جا کر ان لیڈروں نے معاہدے کے عربی متن پر دستخط کیے۔ پھر بھی اقتدار سے کوئی لیڈر پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھا۔ وار لارڈز اور مجاہدین کے گروپوں نے اپنی طاقت کا بھرپور استعمال شروع کر دیا۔ بے نظیر کے دوسرے دور حکومت میں طالبان نے سر اٹھایا۔ طالبان حکومت پر امریکہ اور یورپی ممالک نے سوالات اٹھائے۔ القاعدہ کے ٹریننگ کیمپ اور جہادیوں کی سرگرمیاں چیلنج بننے لگیں۔ کینیا اور تنزانیہ کے امریکی سفارت خانوں پر حملے اور نائن الیون میں القاعدہ کے ملوث ہونے کے بعد امریکہ نے افغانستان پر اتحادی قوتوں سے مل کر جنگ مسلط کر دی۔ دس سالہ جنگ میں امریکہ نے امن کے تمام حربے استعمال کیے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اسے کتنی کامیابی حاصل ہوئی، اس کا فیصلہ تاریخ کرے گی۔ امریکہ کے 2014ء تک افغانستان سے نکلنے کے بعد سوال اٹھے گا کہ کیا افغانستان کی خودمختاری، علاقائی سلامتی، سیاسی آزادی، غیر جانبداری پر کوئی اور گروہ تو شب خون نہیں مارے گا؟ اس لیے ضروری ہے کہ جن ممالک کے جاسوس اور ایجنٹ وہاں موجود ہیں ان کو بھی نکالا جائے تاکہ امن قائم ہو سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں