نائن الیون کے بعد دنیا کو محفوظ بنانے کے نام پر افغانستان پر امریکہ اور اُس کے اتحادیوں نے جو جنگ مسلط کی تھی‘ کیا وہ کامیابی کے تمام زینے عبور کر گئی ہے اور طالبان آج کہاں کھڑے ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جس پر عام شہری، سیاستدان، دانشور اور سول سوسائٹی جواب چاہتی ہے۔ امریکہ نے جس مقصد کے لیے یہ جنگ شروع کی تھی اس حد تک تو اُسے کامیابی مل چکی ہے کہ القاعدہ کا نیٹ ورک افغانستان سے تقریباً ختم ہو گیا ہے۔ دنیا کیلئے دہشت کی علامت سمجھے جانے والے اسامہ بن لادن ایک آپریشن میں مارے جا چکے ہیں؛ تاہم یہاں بیٹھ کر چین کا محاصرہ کرنے اور ایران، عراق اور افغانستان کے درمیان سینڈوچ بنانے کی خواہش پوری نہ ہو سکی اور نہ ہی امریکہ وسط ایشیا کے معدنی ذخائر کو اپنی دسترس میں لے سکا۔ ادھر افغانستان کے صدر حامد کرزئی سمجھتے ہیں کہ قطر میں طالبان سے مذاکرات کیلئے کھلنے والا آفس ان کی سیاست کو لے ڈوبے گا۔ وہ مسلسل حربے استعمال کرتے چلے آئے ہیں کہ مذاکرات کا عمل رک جائے ۔ جب امریکی صدر باراک اوباما نے 2014ء تک افغانستان سے نکلنے کا ڈرامائی اعلان کیا تو اس وقت افغان حکومت کے ساتھ اس معاہدے پر بھی دستخط کیے تھے کہ 2025ء تک امریکی فوج کا ایک حصہ افغانستان میں قیام کرے گا تاکہ نامساعد حالات میں افغان فوج کی مدد اور تربیت کا عمل جاری رکھا جائے۔ امریکہ کی جانب سے 2014ء کا ٹائم فریم اس لیے دیا گیا تھا کہ حامد کرزئی آئین کے مطابق اپنی صدارت کی دوسری مدت بھی پوری کر لیں۔ افغانستان کے نئے آئین کے مطابق کوئی تیسری مدت کیلئے صدر نہیں بن سکتا۔ بہرحال وہ افغانستان کے خوش قسمت آدمی ہیں‘ جن کو اس مقام اور مرتبے تک پہنچانے میں ان کی قابلیت اور صلاحیتوں کا کوئی عمل دخل نہیں۔ ایک زمانے میں وہ ظاہر شاہ کی آئینی بادشاہت کی تجویز کے زبردست حامی تھے۔ انہوں نے افغان جہاد میں براہ راست حصہ نہیں لیا۔ 1979ء میں روس کی کابل آمد ہوئی تو وہ بھارت کی شمالی ریاست ہماچل پردیش کی یونیورسٹی میں سیاسیات کی تعلیم کیلئے چلے گئے۔ نہ صرف کرزئی بلکہ ان کا خاندان بھی قندھار سے پشاور آ گیا۔ پاکستان میں ضیاء الحق نے جن مجاہد تنظیموں کو کام کرنے کی اجازت دی تھی ان میں روحانی لیڈر صبغت اللہ مجددی کی نیشنل فرنٹ آف افغانستان بھی تھی۔ پشاور میں حامد کرزئی کو دوستوں کا حلقہ وسیع کرنے کا موقع ملا۔ صبغت اللہ مجددی کی روحانی تحریک سے وابستہ ہونے کی وجہ سے اُن کے اندر وہ جہادی سپرٹ نہ اُبھر سکی جو اس زمانے کی افغان جہادی تنظیموں کا شیوہ تھی۔ طبیعت کے ٹھہراؤ، زبان و بیان اور اعتماد کی خوبیوں سے وہ مجددی کے ترجمان اور پھر خارجہ پالیسی کے مشیر بنے۔ مختصر عرصہ کیلئے مجددی افغانستان کے صدر بنے تو حکومتی معاملات میں انہیں حصہ لینے کا پہلی مرتبہ موقع ملا۔ 1994 ء میں طالبان کے منظرعام پر آتے ہی وہ پھر کوئٹہ آئے۔ نائن الیون کے حادثہ سے ان کی قسمت ایسی کھلی کہ وہ گیارہ سال سے افغانستان کے اقتدار اعلیٰ پر فائز ہیں۔ 2002ء میں جرمنی کے شہر بون میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں جہادی لیڈر اور کمانڈر جمع ہوئے تاکہ افغانستان کے مستقبل کے نظام حکومت کا فیصلہ کیا جائے۔ ہر ایک کے پاس روس کے خلاف قربانیوں کا زبردست ریکارڈ تھا۔ ان لیڈروں میں پھوٹ پڑنے سے قرعہ حامد کرزئی کے نام نکلا کیونکہ وہ اپنے آپ کو امریکہ کا سب سے بڑا وفادار ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ 2004ء کا صدارتی انتخاب افغانستان میں عوام کے ذریعے چنائو کا پہلا جمہوری تجربہ تھا۔ حامد کرزئی کی 15 مخالف جماعتوں نے دھاندلی کا الزام لگا کر نتائج کو قبول نہ کیا۔ انتخابات محض تماشا تھے۔ امریکہ صرف دنیا کو افغانستان کا جمہوری چہرہ دکھانا چاہتا تھا۔ 7 دسمبر 2004ء کو جب حامد کرزئی نے پہلے آئینی افغان صدر کا حلف اٹھایا تو انہوں نے اپنی تقریر میں خاص طور پر کہا ’’وہ اپنے سخت اور تاریک ماضی کو پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔‘‘ انہوں نے پہلی بار ناکامی کا بھی اعتراف کیا کہ انتہا پسندی، دہشت گردی اور منشیات کے خطرات بدستور لاحق ہیں۔ اُن کے گیارہ سالہ دور میں مغربی اتحادیوں کی افواج اور افغان سکیورٹی اہلکاروں پر حملوں کی شدت میں کبھی کمی نہ آئی۔ ستمبر 2012ء میں صوبہ ہلمند میں برطانوی فوج کے اڈے پر اُس وقت راکٹوں اور دستی بموں سے حملہ کیا گیا جب برطانوی ولی عہد شہزادہ چارلس وہاں موجود تھے۔ خود حامد کرزئی کئی بار حملوں سے بال بال بچے۔ حال ہی میں کابل کے صدارتی محل اور سی آئی اے کے آفس پر بڑے طالبان حملے نے سب کو حیران کر دیا۔ طالبان کے ہر حملے کے بعد حامد کرزئی بیانات کا رخ پاکستان کی طرف موڑ دیتے کہ ان کے پیچھے پاکستان ہے۔ پاکستان کے خلاف مہم کا آغاز اُن کے عبوری صدر بنتے ہی خلیل زار کی طرف سے ہوا تھا۔ وہ افغانستان میں امریکی صدر کے نمائندہ خصوصی اور پاکستان لابی کے اہم رکن تھے اور وہ حامد کرزئی کے منتخب ہونے کے بعد پاکستان مخالف مہم چلاتے رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ القاعدہ اور طالبان کا مرکز جنوبی وزیرستان میں منتقل ہو چکا ہے۔ وہ پاکستان کے خفیہ اداروں کو بھی اپنی تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔ امریکہ بھی پاکستان پر ایسے ہی الزامات لگاتا رہا۔ ستمبر 2011ء میں جب ایڈمرل مائیک مولن پاکستان آئے تو امریکی سفارتخانے نے مخصوص پاکستانی صحافیوں سے ملاقات کا اہتمام کیا۔ مولن کا اُس وقت بھی موقف تھا کہ پاکستان افغانستان میں جنگجوؤں کے بعض گروپوں‘ بالخصوص حقانی نیٹ ورک‘ کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ پھر پاکستان میں سابق امریکی سفیر کیمرون منٹر کی طرف سے حقانی نیٹ ورک اور پاکستان کے سکیورٹی اداروں کے درمیان روابط کا خدشہ سامنے آیا۔ سفارتی سطح پر ہیلری کلنٹن بھی کئی بار یہ سوال اٹھاتی رہیں۔ امریکہ طالبان سے مذاکرات کیلئے کافی عرصے سے سرگرم تھا۔ نیٹو ممالک کے دباؤ پر مذاکرات میں پیش رفت ہوئی جس میں جرمنی کا اہم کردار ہے۔ برطانوی وزیراعظم کے حالیہ دورہ پاکستان میں طالبان سے مذاکرات اور اس کے بعد کے حالات کے حوالے سے میاں نواز شریف سے بھی مدد مانگی گئی ہے۔ جنوری 2011ء میں لندن کانفرنس میں افغانستان سے انخلاء کے وقت امریکیوں نے عندیہ دیا تھا کہ وہ 2011ء کے آخر تک ایک مضبوط اور خود مختار حکومت قائم کر دیں گے۔ جولائی 2013ء تک ایسا نہیں ہو سکا۔ حامد کرزئی پریشان ہیں کہ امریکہ کے جانے سے ہم پھر ماضی میں چلے جائیں گے، تو وہ مسلسل اشتعال انگیزی کی طرف جا رہے ہیں۔ پاکستانی سرحدوں پر تازہ گولہ باری کے ساتھ ساتھ افغان آرمی چیف جنرل کریمی نے ایک انٹرویو میں کہا کہ طالبان کا کنٹرول پاکستان کے ہاتھ میں ہے۔ حامد کرزئی چاہتے ہیں کہ طالبان امریکہ سے نہیں افغان حکومت سے مذاکرات کریں جبکہ طالبان ان کو صدر ماننے کیلئے ہی تیار نہیں۔ طالبان مذاکرات کے حوالے سے امریکہ بھی کچھ پریشان دکھائی دیتا ہے۔ افغانستان کے سکیورٹی اداروں اور فوج نے ابھی وہ مقام حاصل نہیں کیا جس کی ایک کامیاب ریاست کو ضرورت ہوتی ہے۔ 2012ء میں نیٹو فوج کے تقریباً سو کے قریب نیٹو فوجی افغان سکیورٹی اہلکاروں کی فائرنگ کے نتیجے میں مارے گئے۔ ان اندرونی حملوں کی روک تھام کے سلسلے میں سینکڑوں کی تعداد میں افغان فوجی برطرف کیے گئے۔ ان واقعات نے افغان آرمی اور پولیس کی تربیت اور تشکیل سے متعلق سوالات کو جنم دیا ہے۔ اب پاکستان سے افغان فوج کی تربیت سے مدد مانگنے کا سوال بھی سامنے آ رہا ہے۔ طالبان سے مذاکرات کامیاب ہونے کی صورت میں اصل میدان انتخابی عمل کے ذریعے ہی سجے گا۔ ایک آزاد اور خود مختار افغانستان کیلئے ضروری ہے کہ عوام کی اکثریت جس جماعت کو پسند کرے وہ حکمران ہو۔ آنے والی حکومت کو شہری آزادیوں کا خیال رکھنا ہوگا اور ایسا آئین تشکیل دینا ہوگا جو سب کیلئے قابل قبول ہو۔