ایبٹ آباد کمیشن نے رپورٹ تو الیکشن 2013 ء سے پہلے مکمل کرکے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے حوالے کی تھی البتہ رپورٹ میں جو کچھ شائع ہوا ہے اس سے اُبھرنے والے سوالوں سے ہم مستقبل کا راستہ ضرور متعین کر سکتے ہیں۔ رپورٹ میں بہت سے اداروں پر سوالات اٹھے ہیں۔یوسف رضا گیلانی وہ بدقسمت وزیراعظم ہیں جو اقتدار سے الگ ہونے کے باوجود ہر کیس اور رپورٹ میں نظر آتے ہیں۔ 2 مئی 2011 ء کو جب پاکستان کی خود مختاری کو چیلنج کرکے امریکہ نے اسامہ بن لادن کو مارنے کیلئے ایبٹ آباد میں آپریشن کیا تھا تو اُس وقت وزیراعظم ہاؤس اور ایوان صدر کا ماحول غمگین نہیں خوشگوار تھا۔ صدر پاکستان نے اسامہ بن لادن کے خاتمہ کو پاک امریکہ تعاون کا نتیجہ ہی قرار نہیں دیا بلکہ 3 مئی 2011ء کو امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں انہوں نے ’’پاکستان نے اپنا کردار ادا کیا‘‘ کے عنوان سے آرٹیکل شائع بھی کرایا جس میں اس عزم کا اعادہ کیا کہ ’’اس صدی کی سب سے بڑی برائی کی جڑ کو آج خاموش کرکے اس کے متاثرین کو انصاف فراہم کر دیا گیا ہے۔‘‘ جو لوگ پاکستان کی خود مختاری کا سوال اٹھا رہے تھے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے ان کو طعنہ دیا کہ اسامہ بن لادن کس ویزے پر پاکستان آیا بلکہ انہوں نے ملک کی خود مختاری کی امریکہ کی جانب سے دھجیاں اڑانے کے واقعہ میں اسامہ کی ہلاکت کو عظیم فتح قرار دیا۔ یہاں تک کہا کہ یہ آپریشن پاکستان اور امریکہ کے مابین ہونے والی معلومات کے سبب ہی مکمل ہوا ہے ۔جب امریکی سی آئی اے چیف لیون پینٹا یہ بیان دے رہے تھے کہ ہم نے اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن سے متعلق کسی سے معلومات سے متعلق تبادلہ خیال نہیں کیا۔سیکرٹری خارجہ سلمان بشیر کہہ رہے تھے کہ اسامہ کی ہلاکت کے آپریشن میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے بی بی سی کو اپنے انٹرویو میں بتایا کہ اسامہ کے ٹھکانے سے متعلق معلومات دو سال قبل امریکہ کو دے دی تھیں۔ آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی نے چھ سات سال میں ثابت کیا ہے کہ ان کے کوئی سیاسی عزائم نہیں اور نہ کسی سیاسی ایڈونچر میں دلچسپی رکھتے تھے۔ وہ صدر پاکستان سے ملے اور پارلیمنٹ کو اِن کیمرہ بریفنگ دینے کی خواہش کی۔ حالانکہ یہ حکومت کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس نازک موقع پر بریفنگ لیتی۔ آئی ایس آئی چیف نے کھل کر قومی سلامتی کے ایشو پر بات کی۔ اُن قربانیوں کا تذکرہ کیا جو طویل عرصہ سے پاکستان کے دفاع کیلئے دی گئی تھیں۔ پارلیمنٹ کے ہر سوال کا جواب دینے کے ساتھ ساتھ احمد شجاع پاشا نے ایبٹ آباد آپریشن میں اپنی ناکامی تسلیم کرتے ہوئے اپنا استعفیٰ پیش کیا۔ ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ میں کیری لوگر بل کا بھی ذکر ہے جسے کمیشن نے لولی پاپ قرار دیا۔ پاکستان کو عسکری اور سول امداد کا پیکیج امریکیوں کیلئے ویزے میں نرمی کرنے سے مشروط تھا۔ کیری لوگر بل کیلئے امریکہ میں پاکستانی سفیر پیپلزپارٹی کی حکومت قائم ہوتے ہی سرگرم ہو گئے تھے۔ 2009 ء کے اواخر میں اس بل کو امریکی کانگریس نے پاس کیا تھا۔ یوسف رضا گیلانی نے اس بل کو پاکستان کی عظیم کامیابی قرار دیا۔حکومت کو قومی مفادات کے خلاف اُن اقدامات کا ادراک ہی نہیں ہواکہ بعد میں کیا ہوگا۔ میڈیا پر معلومات آنے کے بعد کور کمانڈر کانفرنس میں کیری لوگر بل کی قومی سلامتی کو متاثر کرنے والی شقوں کی نشاندہی کی اور فوج نے اپنے تحفظات وزارت دفاع کو بھجوائے تاکہ حکومت ان کو دیکھ سکے۔ کیری لوگر بل کے قابل اعتراض چھ نکات پر سب سے زیادہ سوال اٹھے۔ اُس وقت کے اپوزیشن لیڈر اور آج کے وزیر داخلہ چودھری نثار نے فوج کے موقف کی حمایت کی۔ حکومت کی اتحادی جماعت عوامی نیشنل پارٹی نے الزام لگایا کہ کیری لوگر بل کے ذریعے مسلح افواج پر قدغن لگائی گئی ہے۔ مولانا فضل الرحمن کا موقف بھی یہی تھا جبکہ مرحوم قاضی حسین احمد نے بل کے خلاف جنگ کرنے کا اعلان کیا۔ ایوان صدر کی طرف سے کور کمانڈر میٹنگ کے فیصلے پر صدر کے ترجمان کی طرف سے ردعمل کا جس انداز سے اظہار کیا گیا وہ محاذ آرائی کی طرف ایک قدم تھا۔ اس کا اظہار صدر پاکستان نے بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر بھی کیا۔ یوسف رضا گیلانی کی حکومت میں کیری لوگر بل کے بعد ایبٹ آباد آپریشن کی گرد بیٹھی نہیں تھی کہ امریکہ میں پاکستانی سفیر کی ہدایت پر ایک تاجر منصور اعجاز کے ذریعے مائیک مولن کو ایک میمونڈرم پیش کیا جس کا مقصد بھی پاکستان کے عسکری ادارے کو کنٹرول کرنا تھا۔ 22 اکتوبر 2011 ء کو آئی ایس آئی کے سربراہ احمد شجاع پاشا لندن کے پارک لین ہوٹل میں منصور اعجاز سے ملے جہاں انہوں نے معلومات کا تبادلہ کیا۔ آئی ایس آئی چیف نے تین چار منٹ میں تمام تفصیلات دیکھنے کے بعد اندازہ لگا لیا کہ یہ سب کچھ سچ ہے۔ منصور اعجاز سے ملاقات اور معلومات کے تبادلہ کے بعد 24 اکتوبر کو میمو کیس کی تمام تفصیلات اور ثبوت آرمی چیف کے حوالے کیے جس کے بعد اشفاق پرویز کیانی نے ایک خط صدر پاکستان کے نام لکھا جس میں مائیک مولن کے نام بھیجے گئے میمو کی تحقیقات کی درخواست کی گئی۔ میاں نواز شریف میمو کے نکات کو لے کر ہی چیف جسٹس اور تمام ہائی کورٹ کے چیف جسٹس پر مشتمل عدالتی کمیشن بنانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ یوسف رضا گیلانی نے امریکہ میں پاکستانی سفیر حسین حقانی کو طلب کیا اور اُن سے استعفیٰ لے لیا گیا۔ یہ معاملہ انتہائی سنجیدہ تھا جو سوالات میمو میں اٹھائے گئے تھے اس کا سراغ لگانے کی ضرورت تھی۔ میاں نواز شریف نے سپریم کورٹ میں ایک آئینی پٹیشن دائر کی جس میں استدعا کی گئی تھی پاکستان سے بے وفائی کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ سپریم کورٹ کی ہدایت پر قائم کمیشن نے منصور اعجاز کو طلب کیا۔ انہیں گرفتاری کی دھمکیاں دیں جس کے بعد اُن کا بیان پاکستان کی بجائے برطانیہ میں ویڈیو لنک کے ذریعے ریکارڈ کیا گیا۔ سپریم کورٹ نے اس پر مزید کارروائی کرنی ہے۔ ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ کی اشاعت کے تین ممکنہ فریق ہو سکتے ہیں جہاں تک موجودہ حکومت کا تعلق ہے، اس کے پاس قومی اور عوامی مسائل اتنے زیادہ ہیں اور تمام توجہ اُس پر ہے۔ حکومت فوج کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ حیرت انگیز طور پر بہتر بنا رہی ہے۔ فوج کے معاملات میں مداخلت کی بجائے وزیراعظم پہلے ہی پالیسی بیان دے چکے ہیں کہ سنیارٹی کو وہ نظرانداز نہیں کریں گے۔ صدر پاکستان آصف زرداری تقریباً اپنی صدارت کی مدت پوری کر چکے ہیں۔ 11 ستمبر 2013 ء تک نئے صدر پاکستان کا انتخاب عمل میں آ چکا ہوگا۔ امریکی انتظامیہ بھی مطالبات لے کر میدان میں نہیں آئے گی۔ اس کے سب سے بڑے دشمن اسامہ بن لادن کے ختم ہونے کے بعد یہ معاملہ بھی ختم ہو گیا ہے۔ البتہ مضبوط پاکستان کیلئے دفاع کو مزید مضبوط بنانا ضروری ہے۔