"WAC" (space) message & send to 7575

یہ ہے عوام کا وائٹ پیپر

صبر کی نسبت بے قراری زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہے۔ ضمنی انتخاب سے ایک دن پہلے وائٹ پیپر جاری کرنے کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ تحریک انصاف مظلوم بن کر 22 اگست کے ضمنی انتخاب پر اثر انداز ہوتی مگر ایسا نہیں ہو سکا۔ خیبرپختونخوا میں وہ ایک قومی اور چاروں صوبائی نشستوں پر ناکام رہی۔ سپریم کورٹ وائٹ پیپر پر سوموٹو لے یا نہ لے، عوام نے وائٹ پیپر کو ضمنی انتخاب میں مسترد کیا ہے۔ اپنی ہی چھوڑی ہوئی دو نشستوں پر شکست سے عمران خان کی قیادت پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا ہے جو ہر سیاسی جماعت کو کرپٹ اور ان کے لیڈروں کو ٹیکس چوراور کرپٹ قرار دیتے رہے ۔ اگر ہم اعداد و شمار کے حوالے سے دیکھیں تو عوام نے ضمنی انتخاب میں بھی وہی فیصلہ کیا ہے جو 11 مئی کے عام انتخاب میں کیا تھا۔ وائٹ پیپر میں این اے 68 جہاں سے میاں نواز شریف 140828 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے‘ وہاں سے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار شفقت بلوچ 67888 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے ہیں۔ میاں نواز شریف نے 63.14 فیصد ووٹ لئے تھے جبکہ تحریک انصاف کے نور حیات کلیار 20.43 فیصد ووٹ لے سکے تھے۔ ضمنی انتخاب میں شفقت بلوچ 43.60 فیصد ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔ دوسرے نمبر پر 2008ء میں مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے سید حسنین جاوید رہے جو مسلم لیگ کا ٹکٹ نہ ملنے پر باغی ہو گئے تھے‘ انہوں نے 42472 ووٹ لیے جو 27.2 فیصد بنتے ہیں۔ دونوں نے مل کر70 فیصد سے زیادہ ووٹ لیے ہیں۔ ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کے امیدوار ملک نذیر احمد 40169 ووٹ لے کر تیسرے نمبر رہے۔ وائٹ پیپر میں اس نشست پر دھاندلی کا جو الزام لگایا گیا تھا مگر ضمنی انتخاب میں عمران خان کا امیدوار تقریباً 25 فیصد ووٹ لے سکا۔ ضمنی انتخاب میں شفقت بلوچ اور سید حسنین شاہ کے ووٹ جمع کیے جائیں تو یہ ایک لاکھ دس ہزار تین سو ساٹھ بنتے ہیں۔ عام انتخاب کے موقع پر میانوالی کے عوام کو عمران خان ان کی وہ تقریر بھی یاد ہے جس میں انہوں نے عوام کو یاد دلایا تھا کہ یہ وہ حلقہ ہے جہاں پر تحریک انصاف کا پودا پروان چڑھا اور میانوالی کے عوام انہیں (عمران خان) کہاں سے کہاں لے گئے۔ انہوں نے تقریر میں یہ بھی عہد کیا کہ وہ میانوالی کے عوام کو کبھی نہیں چھوڑیں گے اور نہ بھولیں گے۔ میانوالی کے عوام نے عمران خان کو زبردست اعتماد سے نوازا۔ وہ 133224 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔ انہیں 61.56 فیصد ووٹ ملے جبکہ مسلم لیگ (ن) کے عبید اللہ شادی خیل 73373 ووٹ لے سکے۔ انہیں عمران خان کے مقابلے میں 33 فیصد ووٹ ملے۔ کپتان نے میانوالی کے عوام سے کیا ہوا وعدہ توڑ دیا اور نشست خالی کرکے اپنے حلقے سے ایسے امیدوار کو ٹکٹ دیا جس کو میانوالی کے عوام نے بڑی محنت اور جدوجہد سے سیاست سے آؤٹ کیا تھا۔ تحریک انصاف کے امیدوار ملک وحید نواب مظفر آف کالا باغ کے بیٹے اور سابق گورنر مغربی پاکستان نواب آف کالا باغ کے پوتے ہیں؛ چنانچہ مسلم لیگ (ن) کے عبید اللہ شادی خیل کے حق میں فیصلہ دیا گیا۔ انہوں نے ضمنی انتخاب میں 55 فیصد ووٹ حاصل کیے جو عام انتخابات سے 22 فیصد زیادہ ہیں۔ عمران خان کو یہ شکست ہمیشہ یاد رہے گی۔ اس سے بھی بڑھ کر این اے ون پشاور سے ضمنی انتخاب میں غلام احمد بلور کامیاب ہوئے ہیں جو 4 مرتبہ ایم این اے اور تین مرتبہ وفاقی وزیر ریلوے رہے۔ 2013ء کے عام انتخابات میں کپتان نے یہاں سے بھاری مینڈیٹ حاصل کیا تھا۔ عام انتخاب میں عمران خان کے 62 فیصد ووٹوں کے مقابلے میں غلام احمد بلور کوتقریباً 17 فیصد ووٹ ملے تھے۔ ضمنی انتخاب میں غلام احمد بلور تقریباً23 فیصد ٹرن آؤٹ کے باوجود 34386 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔ انہیں 47.41 فیصد ووٹ ملے۔ ان کی پارٹی کے حق میں 30 فیصد لوگوں نے رائے تبدیل کر لی۔ تحریک انصاف کو عام انتخاب کی نسبت پشاور سے 22 فیصد کم ووٹ ملے۔ کچھ لوگوں کو اعتراض ہے کہ پیپلزپارٹی، جمعیت علمائے اسلام اور مسلم لیگ (ن) نے بلور کا ساتھ دیا۔ بہت سے تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کے گل بادشاہ اور باغی صمد مرسلین کے ووٹ بلور سے زیادہ ہیں۔ تحریک انصاف کے باغی صمد مرسلین صرف 1770 ووٹ لے سکے ہیں۔ حقیقت میں عمران خان کی پالیسیوں کے خلاف پشاور کے عوام اور خاص طور پر نوجوانوں کا عدم اعتماد ہے۔ این اے 48 پر جاوید ہاشمی 42 فیصد ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے۔ یہ نشست اسد عمر نے 51 فیصد ووٹ لے کر جیتی ہے۔ عام انتخاب میں مسلم لیگ (ن) کے انجم عقیل نے 30 فیصد ووٹ لیے تھے۔ ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ (ن) کے چودھری اشرف گجر 44 فیصد ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔ مسلم لیگ (ن) کو اس حلقے میں 14 فیصد زیادہ ووٹ پڑے ہیں۔ حافظ آباد سے چودھری شوکت بھٹی کو تحریک انصاف کا امیدوار بننے کے باوجود کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ مسلم لیگ (ن) کے امیدوار میاں شاہد حسین بھٹی 53 فیصد ووٹ لے کر کامیاب ہوئے ہیں جبکہ شوکت بھٹی 46 فیصد ووٹ حاصل کر سکے۔ 2013ء کے عام انتخاب میں ان کے چچا چودھری لیاقت علی بھٹی 76199‘ تقریباً 48 فیصد ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے اور مسلم لیگ (ن) کے میاں شاہد بھٹی صرف 322 ووٹوں کے فرق سے ناکام ہوئے تھے۔ اب انتخاب میں مسلم لیگ (ن) کا امیدوار 11 ہزار ووٹوں کے فرق سے کامیاب ہوا ہے۔ فیصل آباد کی نشست کے بارے میں بھی تحریک انصاف بہت پرامید تھی۔ یہاں بھی ناکامی اس کا مقدر بنی۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) نے صوبائی اسمبلی کی جن دو نشستوں پر شکست کھائی ہے، وہ بھی غوروفکر کی بات ہے ۔ موجودہ انتخابی نتائج سے وہ فکرمند نہیں۔ سوشل میڈیا اور تحریک انصاف کی قیادت دھاندلی کے ایشو پر جس انداز سے سیاست چمکا رہی تھی، عوام نے اس کو بری طرح مسترد کر دیا ہے۔ خاص طور پر لاہور اور کراچی کے 4 حلقوں میں انگوٹھے کے نشان چیک کرنے کا جو مطالبہ کیا جا رہا تھا، 22 اگست کے انتخاب میں اس کا بھی فیصلہ ہو گیا ہے۔ ایم کیو ایم جس کے خلاف عمران خان اور ان کے حمایتی یہ مہم چلاتے رہے کہ وہ پولنگ سٹیشن پر قبضے کرکے ٹھپے لگاتی ہے۔یہ الزام بھی عوام نے مسترد کر دیا۔ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 254 میں ایم کیو ایم کے امیدوار محمد علی راشد نے 84 فیصد ووٹ لیے۔ تحریک انصاف کے محمد نعیم کو صرف 9 فیصد ووٹ ملے۔ اس طرح ایم کیو ایم پی ایس 95 میں 91 فیصد اور پی ایس 103میں 78 فیصد ووٹ لے کر کامیاب ہوئی ہے۔ میرپور خاص کی نشست پر بھی وہ 50 فیصد ووٹ لے کر جیت چکی ہے۔ لاہور کی تمام نشستوں پر عوام نے 11 مئی کا فیصلہ برقرار رکھا۔ ملک بھر میں رائے عامہ کا ٹرینڈ عام انتخاب سے مختلف نہیںرہا۔ ضمنی انتخاب سے اگر کسی کو نقصان پہنچا ہے وہ تحریک انصاف ہی ہے اور اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کا نوجوان طبقہ غیر متحرک ہو رہا ہے۔ اب یہ جماعت طاقتور سیاسی خاندانوں کو رابطے میں لا کر ’’سٹیٹس کو‘‘ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ یہ حکمت عملی تحریک انصاف کے انقلابیوں کیلئے ششدر کر دینے والی ہے۔ سٹیٹس کو اور موروثی سیاست عمران خان کی تقریروں کا خاص ہدف رہے ہیں۔ اب عمران خان پاور فل سیاسی خاندانوں کی طرف کیوں لپک رہے ہیں؟ وجہ یہی ہے کہ عمران خان کو قدرت نے عام انتخابات میں اقتدار میں آنے کا جو موقع فراہم کیا تھا‘ اسے وہ گنوا چکے ہیں۔ وائٹ پیپر کے غبارے سے بھی ہوا نکل چکی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں رہا کہ عام انتخابات بھی ضمنی انتخاب کی طرح شفاف تھے اور انہیں ان تمام ریٹرننگ افسروں سے بھی معافی مانگ لینی چاہیے۔ اب عمران خان کے لیے مناسب ہوگا کہ وہ پانچ سال انتظار کریں اور وہ کے پی میں اچھی حکمرانی کی مثال قائم کرکے آئندہ انتخاب میں اپنے لیے ملک بھر میں کامیابی کا دروازہ کھول سکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں