"WAC" (space) message & send to 7575

حکمرانوں کی بغل بچہ جمہوریت

بلدیاتی انتخابات کا لمحہ زیادہ دور نہیں کیونکہ سپریم کورٹ ان کے انعقاد کا حکم دے چکی ہے۔ صوبائی حکومتیں قانون سازی کرکے اپنے حصہ کا کام مکمل کر چکی ہیں۔ سندھ اور خیبر پختونخوا میں صوبائی حکومتیں بلدیاتی انتخاب سیاسی بنیادوں پر کرانے کا ارادہ رکھتی ہیں جبکہ پنجاب حکومت یہ انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر کرانا چاہتی ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف غیر جماعتی انتخاب کے خلاف تحریک چلانے اور اعلیٰ عدالتوں میں انہیں چیلنج کرنے کا اعلان کر چکی ہیں۔ پنجاب میں غیر جماعتی انتخاب کے خلاف تو شور ہو رہا ہے لیکن الیکشن کمیشن کا یہ فیصلہ بھی سیاسی جماعتوں کیلئے پریشانی کا سبب بنا ہو گا کہ امیدوار کو سیاسی جماعتوں کے نشانات الاٹ نہیں کیے جائیں گے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے لیڈر پنجاب حکومت کے غیر جماعتی فیصلے کو ضیاء الحق دور کی جمہوریت کا طعنہ دے رہے ہیں۔ ایوب دور سے اب تک مختلف ناموں سے بلدیہ کی سطح کے 9 انتخابات ہو چکے ہیں۔ پیپلزپارٹی نے اپنے کسی بھی دور میں عوام کو نچلی سطح پر اقتدار میں شامل نہیں کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں بلدیاتی انتخاب کی بجائے مئی 1972ء میں پیپلز ورکس پروگرام شروع ہوا۔ پھر اسی سال لوکل گورنمنٹ آرڈیننس جاری ہوا مگر انتخابات نہ ہوئے۔ فروری 1975ء میں پیپلزپاٹی کی چاروں صوبائی حکومتوں نے آرڈیننس تو جاری کیے مگر انتخاب نہ کرائے۔ ضیاء الحق کی وفات کے بعد بے نظیر بھٹو برسراقتدار آئیں تو وہ کم از کم دو صوبوں سندھ اور خیبرپختونخوا میں بلدیاتی نظام لا سکتی تھیں لیکن انہوں نے ایسا نہ کیا۔ پیپلز پارٹی کو 1993ء میں ایک بار پھر موقع ملا کہ جن صوبوں میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے وہاں بلدیاتی انتخابات کر دیے جائیں مگر اس سے فائدہ نہ اٹھایا گیا۔ چنانچہ ان کا دوسرا دور حکومت بھی تمام ہو گیا مگر بلدیاتی انتخاب نہ ہوئے۔ فروری 2008ء میں پیپلزپارٹی تیسری مرتبہ اقتدار میں آئی مگر نچلی سطح کی جمہوریت پھر بھی بحال نہ ہوئی۔ تمام تر اعتراض کے باوجود بلدیات کی سیاست فوجی حکمرانوں کو راس آتی رہی ہے۔ ایسی پاپولر حکومتیں جو عوام میں مقبول ہوتی ہیں ان کیلئے لوکل سطح کے جماعتی انتخابات خطرے کی گھنٹیاں بجاتے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق نے اکتوبر 1979ء کے عام انتخاب سے بچنے کیلئے لوکل باڈیز کے انتخاب ایک ماہ پہلے ستمبر 1979ء میں ہی کرا دیے۔ پیپلزپارٹی کے کارکنوں اور لیڈروں نے انتخاب کا یہ میدان خالی نہ چھوڑا اور ’’عوام دوست‘‘ کے نام سے میدان میں آ گئے۔ ان کے مدمقابل امیدوار بھی سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھتے تھے۔ لاہور، راولپنڈی اور فیصل آباد کی کارپوریشنوں میں ’’عوام دوست‘‘ اکثریت سے کامیاب ہوئے لیکن انہیں نااہل قرار دے کر ضیاء الحق کی حمایت کرنے والے افراد کو ضلع کونسلوں اور ٹاؤن کمیٹیوں پر مسلط کر دیا گیا۔ 1987ء تک ضیاء الحق کے تقریباً تمام حامی مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔ بلدیاتی انتخابات جماعتی ہوں یا غیر جماعتی اس کے دو فائدے ضرور ہوتے ہیں۔ ایک: عوامی رابطہ کا تجربہ جو قومی اور صوبائی سیاست میں کارآمد ہوتا ہے۔ دوسرے اس سے قیادت کا تسلسل جاری رہتا ہے۔ ملکی منظرنامے پر ان اداروں سے نکلنے والے سیاستدانوں کی کہکشاں چمکتی دمکتی نظر آتی ہے۔ سابق وزیراعظم پاکستان محمد خان جونیجو بلدیاتی سیاست سے ہی ابھرے۔ ان کے سسر بھی بلدیہ لاڑکانہ کے سربراہ رہیں۔ ان کی بیٹی کنیز فاطمہ 2005ء میں میرپور خاص کی ناظمہ رہیں۔ پاکستان کے سابق نگران وزیراعظم غلام مصطفی جتوئی نے اپنی سیاست کا آغاز چیئرمین ڈسٹرکٹ بورڈ نواب شاہ سے کیا۔ 2001ء میں ان کے بیٹے مسرور جتوئی ضلع نوشہرو فیروز کے ناظم رہے۔ یوسف رضا گیلانی کا خاندان قیام پاکستان سے ہی بلدیاتی سیاست سے منسلک رہا۔ وہ خود بھی 1983ء میں ضلع کونسل ملتان کے چیئرمین رہے۔ ان کے بھائی مجتبیٰ گیلانی مشرف دور میں ملتان کے ایک ٹاؤن کے ناظم رہے۔ خیبرپختونخوا کے موجودہ وزیراعلیٰ پرویز خٹک 1983ء میں کونسلر منتخب ہوئے۔ 2001ء میں وہ ضلع ناظم مانسہرہ بنے۔ پنجاب کے سابق گورنر اور وزیراعلیٰ صادق قریشی ایوب خان کی بنیادی جمہوریت کے ذریعے بلدیہ ملتان کے وائس چیئرمین رہے۔ ان کے کزن گورنر مخدوم سجاد قریشی وائس چیئرمین ملتان اور بھتیجے شاہ محمود قریشی ضلع کونسل ملتان کے ناظم بنے۔ سابق وزیراعلیٰ میاں منظور احمد وٹو نے 1979ء میں بلدیاتی کونسلر سے سیاست کا آغاز کیا۔ وہ 1991ء تک مسلسل ضلع کونسل اوکاڑہ کے چیئرمین بنتے رہے۔ سابق وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویزالٰہی کی سیاست ضلع کونسل گجرات سے شروع ہوئی۔ وہ دو مرتبہ چیئرمین ضلع کونسل گجرات رہے۔ پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ عارف نکئی بھی ضلع کونسل قصور کے وائس چیئرمین سے آگے بڑھے اور وزیراعلیٰ پنجاب بنے۔ یہ تمام لوگ نچلی سطح پر سیاسی عمل سے آگے آئے۔ ایوب خان نے ساٹھ سے زائد بڑے سیاستدانوں کو نااہل قرار دے کر سیاست کو بے وقعت کرنے کی کوشش کی اور اپنی پسند کا سیاسی میدان سجایا۔ انہوں نے بنیادی جمہوریت کا نظام رائج کیا جس کے تحت اسی ہزار ارکان کو چنا گیا۔ اس سے اتنی امید بندھی کہ قابلیت، ذہانت اور صلاحیتوں کے حوالے سے اتنے لوگ تو نکلیں گے جو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے خلا کو پر کر سکیں۔ 1959ء میں ان اسی ہزار بی ڈی ممبران کو ایوب خان نے سیاسی مقصد کیلئے استعمال کیا اور اپنی صدارت پر جمہوریت کا لیبل لگانے کیلئے ریفرنڈم کرایا۔ ڈپٹی کمشنر، پولیس افسروں، پٹواریوں اور حواریوں کی مدد سے ان ارکان کو گھیر کر ایوب خان کے حق میں ووٹ ڈلوائے گئے۔ پرویز مشرف نے جو Devolution Plan دیا۔ یہ آدھا تیتر اور آدھا بٹیر بن گیا۔ میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کو سیاسی میدان سے نکالنے کیلئے انہوں نے ایوب خان جیسا ہی حربہ استعمال کیا۔ ملک کے بڑے بڑے سیاستدانوں کو نااہل کرنے کے بعد انہوں نے سوچا کہ غیر جماعتی بنیادوں پر بلدیاتی انتخاب کا تجربہ کرکے وہ اپنی حمایت میں ہمہ وقت تیار رہنے والی ٹیم تیار کر لیں گے مگر اس کے نتائج پرویز مشرف کے اندازے کے مطابق نہ نکلے۔ وہ جن لوگوں پر اقتدار کے دروازے بند کرنا چاہتے انہی کے بھتیجے اور بھانجے ضلعی حکومتوں پر چھا گئے۔ اس کے باوجود سیاسی جماعتوں نے مشرف کے اس فیصلے کو تسلیم نہ کیا۔ یوں مشرف عہد میں بلدیاتی سیاست کا کھیل اسی انداز سے کھیلا گیا جس طرح ایوب خان اور ضیاء الحق نے کھیلا تھا۔ دونوں سابق صدور پوری کوشش کے باوجود سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کی عمل داری نہ روک سکے۔ کہنے کو تو یہ غیر جماعتی انتخاب تھے مگر اس کے ووٹرز کی ہمدردیاں سیاسی خاندانوں اور جماعتوں سے جڑی ہوئی تھیں۔ مشرف عہد میں کامیاب ہونے والے ناظمین کی تعداد موجودہ اسمبلیوں میں پچاس سے زیادہ ہے اور سابق چیئرمین ضلع کونسل کو بھی شامل کر لیا جائے تو یہ تعداد 100 کے قریب بنتی ہے۔ انتخابات جماعتی ہوں یا غیر جماعتی اس سے فرق نہیں پڑتا۔ یہ اعتراض جائز نہیں کہ بلدیاتی سیاست تو وزیروں، مشیروں، جاگیرداروں اور ان کے بھانجوں اور بھتیجوں کی سیاست ہے۔ نچلی سطح پر عام آدمی کو بااختیار بنانے کے نام پر ہونے والے انتخابات میں ایسے ہی چہرے آتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو جماعتی اور غیر جماعتی انتخاب کی بحث میں نہیں الجھنا چاہیے بلکہ اپنے نظم و ضبط سے ایسے کردار کے امیدواروں کو میدان میں اتارنا چاہیے جو اپنی وفاداریاں تبدیل نہ کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں