"WAC" (space) message & send to 7575

میاں نواز شریف کیلئے تمغۂ جمہوریت

ترکی حکومت کی جانب سے تیسری بار پاکستان کے منتخب ہونے والے وزیراعظم میاں نواز شریف کو ’’تمغہ جمہوریت‘‘ دے کر اُن کوششوں کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے جو انہوں نے تین دہائیوں پر پھیلی ہوئی اپنی سیاست میں جمہوریت کے فروغ کے لیے کیں۔ ’’تمغہ جمہوریت‘‘ صدر عبداللہ گل کی طرف سے میاں صاحب کو دیاگیا۔ خصوصی تقریب میں ترکی کے وزیراعظم طیب اردوان بھی شریک تھے۔ 1990ء میں پہلی مرتبہ وزیراعظم بننے کے بعد انہیں اندازہ ہوا کہ ایوانِ صدر کی طرف سے چلی جانے والی چالیں کس حد تک ملک کے جمہوری نظام کے لیے خطرناک ہیں۔ میاں نواز شریف کو وزیراعظم بنے ایک سال بھی نہیں ہوا تھا‘ جب انہوں نے صدر سے وہ اختیار واپس لینے کا عہد کر لیا جس سے حکومتوں کو ایک فرمان کے ذریعے گھر بھیج دیا جاتا تھا۔ آٹھویں ترمیم کے ذریعے صدر کو جو اختیارات ملے تھے اس کو ختم کرنے کا نقارہ میاں نواز شریف نے بجایا ہی تھا کہ انہیں بے بس وزیراعظم بنانے کی حکمت عملی تیار ہونے لگی۔ پیپلزپارٹی‘ جس کی حکومت غلام اسحاق کے ایک فرمان سے باطل ٹھہری تھی‘ جمہوریت کی بالادستی کی جنگ میں غلام اسحاق کے ساتھ تھی۔ جمہوریت کی جنگ لڑنے والے میاں نواز شریف کا سفر خطروں سے خالی نہیں تھا اور انہیں گستاخی کا سبق سکھانے کیلئے 24 نومبر 92ء کو ہارٹ اٹیک سے انتقال کر جانے والے آرمی چیف آصف نواز جنجوعہ کے انتقال کو قتل کا رنگ دینے کی کوشش اپریل 1993ء کے اوائل میں تیار ہوئی۔ یہ الزام درست ثابت نہ ہوا تو مسلم لیگ کے اندر سے حامد ناصر چٹھہ کے ذریعے بغاوت کرائی گئی۔ پارلیمانی جمہوریت میں اکثریت کھو دینے والا اقتدار کا حقدار نہیں ٹھہرتا۔ ایوان صدر پوری اپوزیشن کو ساتھ ملانے کے بعد بھی کامیاب نہ ہوا تو تین صوبوں کے وزرائے اعلیٰ وزیراعظم کے خلاف خم ٹھونک کر میدان میں آ گئے۔میاں صاحب نے 17 اپریل 93ء کو ٹیلی ویژن پر آکر ان چہروں سے نقاب سرکائے جو سازش کر رہے تھے۔ پھر کیا تھا‘ اسمبلی کو رخصت ہونا پڑا۔ نگران حکومت آ گئی۔ آصف علی زرداری سے فاروق لغاری تک غلام اسحاق کے حکم سے نگران وزیراعظم بلخ شیر مزاری کی کابینہ کا حصہ بن چکے تھے۔ اعتزاز احسن، ارباب جہانگیر، آصف احمد علی، انور سیف اللہ، غلام مصطفی کھر، کوثر نیازی، زاہد سرفراز، آفتاب شیرپاؤ اور نہ جانے کتنے اور چہرے اس غیر جمہوری عمل کا حصہ ٹھہرے۔ سپریم کورٹ کی طرف سے بحال ہوجانے کے باوجود اسٹیبلشمنٹ، اپوزیشن اور ایوانِ صدر نے الیکشن کا ڈول میاں صاحب کے گلے میں ڈال دیا جس طرح امریکی صدر ٹرومین نے جنرل ڈگلس میک آرتھر کو ہٹا کر اپنی صدارت کا غیر مقبول فیصلہ کیا اسی طرح 18 اپریل 1993ء کو میاں نواز شریف کی حکومت کو ہٹانے کا فیصلہ صدر غلام اسحاق کیلئے مشکل گھڑی ٹھہرا۔ 12 اکتوبر 1999ء کے فوجی انقلاب نے ان کوششوں کو ایک بار پھر غارت کر دیا جس کیلئے میاں صاحب نے بڑی محنت کی تھی۔ مشرف صاحب ’’انقلاب‘‘ لے آئے۔ میاں نواز شریف کی سیاسی مشکلات بڑے لیڈروں سے کسی بھی حوالے سے کم نہیں تھیں۔ دو مرتبہ ایوانِ اقتدار سے نکالے گئے‘ جلاوطن ہوئے لیکن انہوں نے قید، جلاوطنی اور دیگر صعوبتوں کے باوجود آمرانہ اور غیر جمہوری رویوں کا مقابلہ کیا۔ 29 جنوری 2006ء میاں صاحب کی زندگی کا یادگار دن تھا جب انہوں نے جدہ کے پابندیوں سے جکڑے ہوئے ماحول میں پانچ سال گزارنے کے بعد لندن کا رخ کیا۔ میاں نواز شریف نے لندن پہنچنے کے بعد سوچا کہ سیاسی قوتوں کو ایک ایجنڈے ’’جمہوریت کی بالادستی‘‘ پر متحد کیا جائے۔ سب سے پہلے انہوں نے اپنی جماعت کے غیر متحرک لیڈروں کو فعال اور پارٹی کو متحد اور منظم کیا۔ لندن میں بیٹھ کر مشرف حکومت پر جس انداز سے سنگ باری کی‘ اس کے ارتعاش سے ایوانِ صدر تک میں لرزہ محسوس کیا گیا۔ ’’کنگ پارٹی‘‘ نے اپنے بادشاہ کیلئے 23 مارچ 2006ء کو مینار پاکستان پر زبردست شو کیا اور مشرف کے حق میں قرارداد پاس کرکے میاں صاحب کو جوابی پیغام بھیجا۔ لندن کا ماحول‘ خواہ سیاسی ہو یا غیر سیاسی‘ کب کسی کو چین سے جینے دیتا ہے۔ ’’کنگ پارٹی‘‘ کے لیے اس سے بڑا جواب ’’میثاقِ جمہوریت‘‘ کے ذریعے دیا گیا۔ میاں صاحب نے اپنی سب سے بڑی حریف جماعت کی سربراہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ مل کر مئی 2006ء میں چارٹر آف ڈیمو کریسی پر دستخط کیے جس کو ہماری سیاست میں ایک تاریخی حیثیت رہے گی۔ اس میں یہ عہد بھی شامل تھا کہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف اقتدار کیلئے فوجی حکمرانوں سے کسی قسم کی ڈیل نہیں کریں گے۔ 8 جولائی 2007ء کو آل پارٹیز کانفرنس بھی میاں نواز شریف کی اُن کوششوں کا حصہ تھی جس میں تمام جماعتوں نے شفاف الیکشن کیلئے پرویز مشرف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا تھا۔ آل پارٹیز کانفرنس کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ پاکستان پیپلزپارٹی‘ جو میثاق جمہوریت کے ذریعے لندن میں سمجھوتہ کرکے میاں صاحب سے جمہوریت کی بحالی اور طریقِ کار پر اتفاق کر چکی تھی‘ بیک ڈور سے پرویز مشرف سے آئندہ حکمرانی کے اصول طے کرکے اقتدار میں آنا چاہتی تھی۔ میاں نواز شریف کے یہ خدشات اُس وقت درست ثابت ہوئے جب پرویز مشرف اور پیپلزپارٹی نے 5 اکتوبر 2007ء کو این آر او قبول کر لیا۔ عالمی دباؤ کی وجہ سے پرویز مشرف کے لیے ممکن نہیں تھا کہ بے نظیر بھٹو سے این آر او کرکے انہیں سیاست سے آؤٹ کر سکیں۔ سیاست اور وطن سے دور رہنا میاں صاحب کو قبول نہیں تھا۔ 2008ء کے انتخاب سے باہر رکھنے کی مشرف کی کوشش تو کامیاب ہو گئی البتہ مسلم لیگ (ن) انتخاب میں بڑی قوت کے طور پر اُبھری۔ انتخابی ایجنڈے اور منشور میں عدالت عظمیٰ کے ان ججوں کو اُن کی پوزیشنوں پر بحال کرنا بھی شامل تھا جن کو نومبر 2007ء کی ایمرجنسی کے ذریعے اُن کے عہدوں سے ہٹا کر اپنی مرضی کے ججوں کو لگایا گیا تھا۔ ججوں کی بحالی کیلئے میاں صاحب نے دو لانگ مارچ کیے۔ دوسرا لانگ مارچ فیصلہ کن ثابت ہوا۔ میاں نواز شریف سرخرو رہے اور جج بحال ہو گئے۔ پرویز مشرف کو ایوان صدر سے نکالنا، 18 ویں اور 19 ویں ترمیم میاں صاحب کی کوششوں سے ہی ممکن ہوئی۔ تیسری بار وزیراعظم بنتے ہی دو صوبوں میں اپنی مخالف حکومتوں کو مضبوط کرنا ان کا کارنامہ ہے۔ بلوچستان میں اکثریت کے باوجود اقتدار دوسرے کے حوالے کرنا سیاسی تاریخ کا اہم واقعہ ہے۔ اب سیاسی قیادت کیلئے ضروری ہے کہ جمہوریت کی بالادستی کے علم کو گرنے نہ دیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں