احتساب کا عمل چوٹی سے شروع ہوتا ہے۔ اس کی کامیابی کی پہلی شرط یہ ہے کہ اس میں انصاف اور برابری ہو۔ اس کی گرفت سب سے پہلے حکمرانوں پر ہو، تاکہ کوئی غلط فہمی میں نہ رہے کہ وہ دیدہ دلیری سے قانون توڑ سکتا ہے اور اس کا کچھ نہیں بگڑے گا۔ پڑوسی ملک کے نامور سیاستدان لالو پرشاد جو بھارت کی سیاست پر کم و بیش 45 سال سے جلوہ افروز ہیں، آج کل کانگریس کے اتحادی اور اپنی پارٹی راشٹریہ جنتا دل کے سربراہ ہیں۔ انہیں 3 اکتوبر کو ایک ایسے مقدمے میں سزا ہوئی ہے جس کا کھوج بھارتی ایجنسی سی بی آئی سترہ سال سے لگا رہی تھی ،جب لالو وزیراعلیٰ تھے۔کرپشن کے اس مقدمے نے اس تھیوری کی نفی بھی کر دی ہے کہ جو لوگ اقتدار میں ہوتے ہیں ان تک قانون کے ہاتھ نہیں پہنچ سکتے۔اس مقدمے میں لالو پرشاد اکیلے نہیں ،ان کے 44 اور ساتھی بھی ہیں جو مختلف سزاؤں اور جرمانوں کی زد میں آئے ہیں۔ سزا کے بعد بھی ربڑی دیوی نے لالو کو اپنا ہیرو قرار دیا ہے اور الزام لگایا ہے کہ سازش کے تحت ان کے شوہر کو پھنسایا گیا ہے۔ ربڑی دیوی خود تین مرتبہ بہار کی وزیراعلیٰ رہی ہیں۔ اگر ہم لالو کے مقدمے کی روشنی میں اپنے احتساب کے نظام کا جائزہ لیں تو ہمارے حصے میں شرمندگی ہی آتی ہے۔ زیادہ دور نہ جائیں، سو دن گزرنے کے باوجود چیئرمین نیب کی تعیناتی کا معاملہ حل نہیں ہو سکا۔ چنانچہ بہت سے سوالات جنم لے رہے ہیں۔ کہیں پاکستان پیپلزپارٹی اور حکومت کے درمیان غیر تحریری این آر او تو نہیں ہو گیا کہ پرانے اور نئے مقدمات کو احتساب کے ڈھیلے ڈھالے بندھن میں اس طرح باندھا جائے کہ کرپشن کی کہانیاں ،جو ایوان وزیراعظم کی غلام گردشوں سے ہوتی ہوئی ایوان صدر تک سنائی دیتی رہیں ،بے وزن ہو کر اپنی موت آپ مر جائیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی کا یہ پرانا انداز اور حکمت عملی ہے۔بے نظیر بھٹو کا پہلا دور حکومت جو 18 ماہ پر محیط تھا، اپنے پیچھے کرپشن کی کہانیاں چھوڑ کر گیا۔ میاں نواز شریف 1990 ء میں وزیراعظم بنے تو ان کے دور میں مقدمات کا فیصلہ اس لیے نہ ہو سکاکہ التوا کی درخواستیں متواتر آتی رہیں اور آسانی سے منظور ہوتی رہیں اور اس پر کوئی کارروائی نہ ہوئی حتیٰ کہ 1993ء میں پیپلزپارٹی پھر برسرِاقتدار آئی اور سب مقدمات کا فیصلہ حق میں ہو گیا۔ 1993ء میں شروع ہونے والے دوسرے دورِ حکومت میں بھی کرپشن کی میگا کہانیاں منظرعام پر آئیں۔ میاں نواز شریف کی حکومت نے پیپلزپارٹی کی قیادت کے خلاف جو مقدمات بنائے وہ غلط تھے یا درست، ان کو پرویز مشرف نے آگے بڑھایا۔ پیپلزپارٹی نے پرانی حکمت عملی کے تحت 5 اکتوبر 2007ء کو مشرف سے معاہدہ کے تحت این آر او لے کر وہ تمام مقدمات ختم کرا لیے جن کی وجہ سے بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کو ملک چھوڑنا پڑا تھا۔ این آر او سپریم کورٹ سے 16 دسمبر 2009 ء کو غیر قانونی قرار پایا تو 8 ہزار سے زائد بدعنوانی اور دیگر سنگین مقدمات پرانی پوزیشن پر بحال ہو گئے۔ 2008ء میں ’’چارٹر آف ڈیمو کریسی‘‘ کا عزم لے کر نئی طرزِ حکمرانی قائم کرنے کے جو دعوے کئے گئے اس میں غیر جانبدار احتساب کا ادارہ قائم کرنے کی ضرورت پر زور تو دیا گیا لیکن اس سلسلہ میں جو قانون سازی کرنے یا چیئرمین نیب لگانے کی حکمت عملی اپنائی گئی اس کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت ماضی کے مقدمات سے کسی نہ کسی طریقے سے نجات پا سکے جو این آر او کالعدم ہونے سے پھر زندہ ہوگئے تھے۔ 12 ستمبر 2009 ء کو احتساب کو سیاسی مقاصد کے استعمال سے روکنے کیلئے اس وقت کے وزیر قانون بابر اعوان نے بل قومی اسمبلی میں پیش کیا، فاروق ایچ نائیک نے وزیر قانون بننے پر اس کی جگہ ایک اور بل اکتوبر 2012 ء میں قومی اسمبلی میں پیش کر دیا اور یہ بھی نہ بتایا کہ پرانا بل واپس کیوں لے لیا گیا ہے۔ پیپلزپارٹی نے 5 سال تک احتساب کا فورم ہی غیر متحرک کر دیا۔ اس دوران احتساب بیورو کے چیف کا مسئلہ سب سے اہم بن گیا۔ پیپلزپارٹی چاہتی تھی کہ وہ اپنی مرضی سے چیئرمین نیب کا تقرر کرے۔اس کیلئے وزیراعظم اور اپوزیشن کے درمیان بامقصد مشاورت کی شرط تھی ۔اس کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ کے سابق جج سید دیدار شاہ کو 8 اکتوبر 2010 ء کو چیئرمین نیب لگا دیاگیا۔ 17 اکتوبر 2010ء کو چودھری نثار نے سید دیدار شاہ کی تعیناتی کو چیلنج کیا جس میں دیگر کے علاوہ یہ اعتراض بھی شامل تھا کہ وہ پیپلزپارٹی کی سیاست کا حصہ ہی نہیں رہے بلکہ دو مرتبہ سندھ اسمبلی کے رکن بھی رہے تھے۔ سپریم کورٹ نے سید دیدار شاہ کی تعیناتی غیر قانونی قرار دی تو ایڈمرل فصیح بخاری کو اکتوبر 2011 ء میں نیا چیئرمین نیب لگا دیاگیا۔ ان کی تعیناتی کو بھی چودھری نثار نے اسی گراؤنڈ پر چیلنج کیا تھا جس پر سید دیدار شاہ نااہل ہوئے تھے۔ ایڈمرل فصیح بخاری نے چیئرمین نیب بننے کے بعد سپریم کورٹ ،جو حکومت کے اہم لوگوں کی کرپشن پر نیب کو ہاتھ ڈالنے کا حکم دے رہی تھی،کی ساری کوششوں کو ناکام بنایا ۔ رینٹل پاور میں اربوں روپے کے گھپلوں کا فیصلہ آنے کے باوجود ملزموں کو گرفتار نہ کیاگیا بلکہ صدر پاکستان کو سپریم کورٹ کے خلاف ایک ایسا خط لکھا گیا جس کا مقصد سپریم کورٹ کو سکینڈلائزڈ کرنا تھا۔ پیپلزپارٹی کی کرپشن کے قصے اُس کے پورے 5 سال کے دور میں سامنے آتے رہے۔رپورٹ میں پیپلزپارٹی کے پانچ سالوں کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ 7 ارب روپے روزانہ کی کرپشن ہوئی ہے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ 5 سالوں میں 12600 ارب روپے کی بدعنوانی کی گئی جو سالانہ 2520 ارب روپے بنتی ہے ۔جب پیپلزپارٹی کی حکومت قائم ہوئی تھی اس وقت پاکستان کرپشن میں 47 ویں نمبر پر تھا۔ 2010 ء میں یہ 34 اور 2012 ء میں یہ 33 ویں نمبر پر آ گیا۔ سابق چیئرمین نیب فصیح بخاری نے جب اپنے عہدے کی ایک سالہ مدت پوری کی تو اپنے کارنامے بتاتے ہوئے پریس کانفرنس میں اعتراف کیا تھا کہ ان کی سربراہی میں نیب نے 14 کھرب 75 ارب کے 173 منصوبوں میں کرپشن کے راستے بند کئے ۔ مسلم لیگ (ن) چیئرمین نیب کی تقرری پر خاموش اور تاخیری حربوں کی زد میں دانستہ آئی ہے یا وہ احتیاط سے کام لے رہی ہے ۔ بہرحال سچ یہ ہے چیئرمین احتساب نہ ہونے سے احتساب کا عمل مفلوج ہو گیا ہے۔ چیئرمین کی تقرری پر 5 ناکام ملاقاتیں وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان ہو چکی ہیں اور اب اس خدشے کا اظہار کیا جانے لگا ہے کہ کہیں قومی مفاہمت کے نام پر اربوں اور کھربوں لوٹنے والے ماضی کی طرح بچ تو نہیں جائیں گے۔ خالی خزانہ غریبوں کی جیبوں سے نہیں نیا چیئرمین نیب تعینات کرکے کرپٹ لوگوں سے پیسے نکلوا کر بھریں۔