"ZIC" (space) message & send to 7575

ڈاکٹر ستیہ پال آنند کی پریشانی

امریکہ سے آئے ہوئے مہمانِ عزیز ڈاکٹر ستیہ پال آنند نے مختلف جگہوں پر جو لیکچر دیے ہیں‘ ان کا موضوع صرف اور صرف غزل دشمنی تھا۔ وہ اپنی بات ہی اس جملے سے شروع کرتے رہے کہ میں غزل کا دشمن ہوں۔انہوں نے کھل کر غزل کے نقائص بیان کیے اور غزل کی ترویج و اشاعت بلکہ اس کی موجودگی ہی پر جی بھر کے احتجاج اور اظہارِِ تاسف کیا۔ ہمیں موصوف کے ساتھ پوری پوری ہمدردی ہے کہ اپنی تمام تر خواہش کے باوجود شاید وہ اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اور یہ سلسلہ انہیں اپنی باقی زندگی میں بھی جاری رکھنا پڑے گا۔ 
یہاں غزل کا دفاع مقصود نہیں کیونکہ وہ اپنا دفاع کرنے کے لیے خود کافی ہے اور اس کی اہمیت کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے خلاف آنند صاحب کو باقاعدہ لیکچر دینا پڑ رہے ہیں بلکہ اپنے آپ کو غزل کا دشمن کہنے میں بھی کوئی ہرج محسوس نہیں کر رہے۔ ہمیں خود یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہ صنفِ سخن ستیہ پال آنند جیسے حضرات کے اعصاب پر اس حد تک سوار بھی ہو سکتی ہے کہ انہیں دور دراز کا سفر طے کر کے اس کی دہائی بھی دینا پڑ گئی ہے اور وہ اس بات کو چھپا بھی نہیں سکے کہ انہیں غزل سے کس قدر خطرہ لاحق ہے ورنہ وہ اس کے خلاف باقاعدہ ایک مہم چلانے کا آغاز نہ کرتے۔ وہ شاید بجا طور پر اہلِ پاکستان کو خبردار کر رہے ہیں کہ دیکھو! اگر تم نے غزل کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا تو یہ تمہیں تباہ کر کے رکھ دے گی! 
ویسے یہ ایک عجیب بات ہے کہ غزل اور غزل گوئوں کونہ تو نظم سے کوئی خطرہ لاحق ہے اور نہ ہی انہوں نے اس کے مقابلے میں اپنے آپ کو کبھی غیر محفوظ محسوس کیا ہے اور پھر غزل اگر واقعی اس قدر فرسودہ ہو چکی ہے تو یہ اپنی موت آپ ہی مر جائے گی‘ اس کے پیچھے لٹھ لے کر بھاگ اٹھنے کی ضرورت کیوں محسوس کی جاتی ہے؟ چنانچہ غزل پر یہ یلغار خود یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ غزل اب بھی کس قدر طاقتور اور جاندار صنفِ سخن ہے کیونکہ کمزور کو مارنے کی تو کوئی ضرورت ہی نہیں ہوتی کہ اُسے ختم کرنے کے لیے اس کی کمزوری ہی کافی ہوتی ہے۔ 
اس کا ایک اور مطلب یہ بھی ہے کہ جناب ستیہ پال آنند پاکستان سے تعلق رکھنے والے شعراء کو اس قدر کم عقل سمجھتے ہیں کہ وہ یہ باتیں خود نہیں سمجھتے اور انہیں اتنی دور سے آ کر سمجھانے کی ضرورت ہے۔ البتہ موصوف غزل دشمن ہونے کا واشگاف اعلان کیے بغیر یہ تردد کرتے تو اس کا کچھ اثر ضرور پڑتا لیکن انہوں نے شروع ہی اس انداز میں کیا کہ وہ غزل دشمن ہیں اور یہی مہم سر کرنے نکلے ہیں کیونکہ وزن کسی غیر متعصب اور غیر جانبدار شخص کی بات کو ہی دیا جا سکتا ہے‘ چہ جائیکہ آپ باقاعدہ گالیاں ہی دینا شروع کردیں۔ سو‘ نظم کے گِٹوں گوڈوں میں اگر پانی ہے تو اُسے اپنے آپ میں مطمئن اور متحد رہنا چاہیے نہ کہ غزل سے اس درجہ خوفزدہ ہو جانا کہ اس کے خلاف مہم چلانے کی ضرورت محسوس کرنا۔ یہ بات بلا خوفِ تردید کی جا سکتی ہے کہ نظم آزاد ہو یا نثری‘ ایک درآمدی پودا ہے جسے اس نامانوس آب و ہوا میں پنپنے اور پھلنے پھولنے کے لیے ابھی کچھ مزید وقت درکار ہوگا اور ایک وقت یقیناً ایسا آئے گا کہ غزل کا خوف اس کے دل سے نکل جائے گا جبکہ غزل اور نظم خود ایک دوسری کے قریب آ رہی ہیں اور آنند صاحب اگر جی کڑا کر کے جدید غزل کا تھوڑا بہت مطالعہ کر سکیں تو انہیں محسوس ہوگا کہ غزل اب محض رونا پیٹنا اور حزن ویاس پھیلانا ہی نہیں ہے‘ بلکہ یہ بہت حد تک تبدیل ہو چکی ہے۔ اسے محبت کا طعنہ دینا بھی کسی قدر زیادتی ہے کیونکہ محبت آدمی کی کیمسٹری میں ہی بنیادی طور پر موجود ہے‘ اور اگر غزل کا موضوع محبت ہے تو لوگ محبت بھی کرتے رہیں گے اور غزل بھی لکھی جاتی رہے گی۔ البتہ محبت جن لوگوں کا مسئلہ نہیں ہے‘ ان کی اور بات ہے‘ یعنی ؎ 
خصّی ہوں خیال و خواب جن کے 
دل کیوں نہ ہو اُن کا بے اُمنگا 
چنانچہ اس حد تک ضرور کہا جا سکتا ہے کہ عمر کے ایک حصے میں آ کر غزل قاری کے لیے غیر متعلقہ ہو جاتی ہو۔ البتہ میرؔ و غالبؔ جیسے اساتذہ نے جو پیرانہ سالی میں آ کر عشقیہ غزلیں تخلیق کیں‘ شاید انہیں بھی معاف کیا جا سکتا ہے۔ 
سو‘ نظم اور غزل اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنا اپنا کام کر رہی ہیں اور مناسب یہی ہے کہ انہیں آزادی سے کام کرنے دیا جائے۔ ان میں سے جو کمزور ہوئی وہ خود ہی پیچھے رہ جائے گی اور دونوں میں سے کسی کو بزور پیچھے دھکیلنا تو بجائے خود ایک اعتراف شکست ہوگا۔ ہر صنف سخن اپنا قاری خود تلاش کرتی ہے۔ اسے ترغیب ضرور دی جا سکتی ہے لیکن مثبت اور صحتمندانہ طریقے سے‘ کسی صنف پر حملہ آور ہو کر نہیں‘ کیونکہ اس کا اثر اُلٹا ہوگا۔ لہٰذا اس مہم جوئی کے نفسیاتی اثرات کو بھی پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ 
سو‘ نظم اور غزل کا کوئی تنازع نہیں ہے۔ جس صنفِ سخن میں بھی تازگی اور تاثیر ہوگی‘ وہ قاری کو خود ہی اپنی طرف کھینچ لے گی۔ غزل اگر ہمارے ہاں مقبول ترین اور مضبوط صنفِ سخن مانی جاتی ہے تو اس لیے نہیں کہ اسے قارئین پر زبردستی ٹھونسا گیا ہے۔ مزید یہ کہ یہ اپنے پائوں پر کھڑی ہے اور جب تک اس میں دم ہے‘ اسی طرح ایستادہ رہے گی۔ میں خود اس بات کا مخالف نہیں کہ نظم غزل کی جگہ لے لے‘ لیکن یہ بھی قدرتی اور فطری طریقے سے ہی ہو سکتا ہے‘ لکد کوبی سے نہیں کیونکہ ع 
قبولِ خاطر و لطفِ سخن خداداد است 
سو‘ ہمارے دوست ڈاکٹر ستیہ پال آنند نظم کو جتنا چاہیں پروموٹ کرتے رہیں لیکن انہیں یہ ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں کہ غزل ان کے راستے کا روڑا ہے اور وہ ہر صورت اسے سامنے سے ہٹا کر رہیں گے۔ بلکہ اگر اس کارروائی کا بغور تجزیہ کیا جائے تو ہرشخص اس نتیجے پر پہنچے گا کہ مخالفت، غزل کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے اسی کے حق میں جا رہی ہے؛ چنانچہ ہم یہی عرض کریں گے کہ ؎ 
وہ ایک طرح سے اقرار کرنے آیا تھا 
جو اتنی دور سے انکار کرنے آیا تھا 
آج کا مطلع 
اس پر ہوائے دل کا اثر دیکھنا تو ہے 
ہونا تو خیر کیا ہے‘ مگر دیکھنا تو ہے 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں