"ZIC" (space) message & send to 7575

گجرات یونیورسٹی کا رسالہ ’’تناظر‘‘ (3)

بظاہر تو یہ یونیورسٹی کا میگزین ہی لگتا ہے جیسے کالجوں سے شائع ہوا کرتے ہیں اور ان میں بالعموم اس درس گاہ کے اساتذہ اور طلبہ ہی کی تحریریں چھپا کرتی ہیں لیکن یہ ایک باقاعدہ جریدہ ہے جو اپنے معیار کے لحاظ سے دوسرے معیاری ادبی رسالوں سے آنکھیں چار کرتا نظر آتا ہے۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے ''راوی‘‘ کی طرح جس میں باہر کے نامور ادیب بھی مثلاً ناصر کاظمی‘ منیر نیازی‘ انجم رومانی‘ صفدر میر اور شاد امرتسری وغیرہ بھی چھپا کرتے تھے۔ بی اے کرنے کے بعد جب میں وہاں سے لا کالج پہنچا تو وہاں سے افتخار جالب کی معیت میں ایک ایسا ہی رسالہ ''میزان‘‘ نکالا جس کا سرورق حنیف رامے نے بنایا تھا۔ پھر مراکز سے دور‘ ایک چھوٹے شہر سے ایسے پرچے کا شائع ہونا بجائے خود ایک واقعہ ہے۔ اسی طرح جیسے ہمارے دوست سید اذلان شاہ ''نزول‘‘ کے نام سے گوجرہ سے ایک معیاری پرچہ نکال رہے ہیں۔ 
ایڈیٹوریل یعنی حرفِ آغاز کا آغاز علامہ کے اس مشہور شعر سے کیا گیا ہے ؎ 
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی 
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا 
پہلی دفعہ احساس ہوا کہ اس شعر میں کوئی گڑبڑ ہے۔ ذرا غور کریں تو اس میں ''آپ ہی‘‘ سراسر زائد ہے کیونکہ خودکشی کے اندر ہی ''آپ ہی‘‘ کا تلازمہ موجود ہے کہ خودکشی آپ ہی کی جاتی ہے‘ کسی دوسرے کے ذریعے نہیں۔ مثلاً مصرع اس طرح بھی ہو سکتا تھا ع 
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے دیکھنا خودکشی کرے گی 
یہ مصرعہ اس طرح بھی ہو سکتا تھا ع 
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے ہی کبھی خودکشی کرے گی 
اس سے شعر کا مذکورہ عیب دور ہو جاتا ہے‘ اگر وہ واقعی عیب ہے۔ خیر یہ تو ایک جملۂ معترضہ تھا۔ اس پرچے کو معتبر بنانے والوں میں جو نام شامل ہیں اس میں سے چند یہ ہیں‘ڈاکٹر انور سدید‘ ڈاکٹر رشید امجد‘ ڈاکٹر ناصر عباس نیر‘ خوشونت سنگھ‘ ناصر بغدادی‘ محمود احمد قاسمی‘ سمیع آہوجا‘ محمد حامد سراج‘ خالد فتح محمد‘ ڈاکٹر مرزا حامد بیگ‘ ڈاکٹر ضیاء الحسن‘ ڈاکٹر تبسم کاشمیری‘ سلیم شہزاد‘ قاسم یعقوب‘ سحر انصاری‘ انور شعور‘ صابر ظفر‘ حیدر قریشی‘ اختر رضا سلیمی‘ شہاب صفدر‘ ڈاکٹر سلیم آغا قزلباش‘ احمد عطااللہ اور دیگران۔ ایم خالد فیاض اس کے مدیر ہیں اور خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ کوئی پونے پانچ سو سے زائد صفحات پر مشتمل اس سہ ماہی کتابی سلسلے کی قیمت 500 روپے رکھی گئی ہے۔ یہ ایک سماجی ادبی جریدہ ہے‘ جس کے مشمولات سے اس کی ایک ٹھوس ادبی حیثیت کا پتہ چلتا ہے۔ جس کا اس مختصر کالم میں پوری طرح احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم اس کی خاص خاص چیزوں میں معروف اور ممتاز چیک ادیب میلان کنڈیرا کا خصوصی گوشہ ہے جس میں موصوف سے لیا گیا انٹرویو اور اس کے کئی ترجمہ شدہ افسانے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ خالد فتح محمد کا گوشہ ہے۔ اس کے تین افسانے اور اس کے فن پرور مضامین شامل کیے گئے ہیں جبکہ ایڈورڈ سعید کی کتاب کا تجزیہ ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے کیا ہے۔ علاوہ ازیں سماجی علوم پر پانچ اہم مضامین بطور خاص شامل کیے گئے ہیں۔ نوبل ادبی انعام 2013ء‘ پر اہم تحریریں ہیں۔ ''گارشیا مارکیز اور معاصر لاطینی فکشن‘‘ پر عبدالعزیز ملک کا مضمون ہے۔ حصہ مضامین وقیع ہے اور اس طرح یہ رسالہ عام ادبی جریدوں میں اپنی ایک الگ پہچان بنا رہا ہے۔ افسانوں‘ نظموں اور غزلوں کے انتخاب میں بھی سلیقے کا مظاہرہ نظر آتا ہے۔ غزلوں میں سے کچھ اشعار دیکھیے: 
نجوم ایک سے ہیں‘ آفتاب ایک سے ہیں 
تمام جاگتی آنکھوں کے خواب ایک سے ہیں 
بہار آئی تو اب ہو رہا ہے اندازہ 
ہمارے زخم‘ تمہارے گلاب ایک سے ہیں 
(سحر انصاری) 
دوستوں کی کمی نہیں‘ لیکن 
کوئی ہم سے خفا‘ کسی سے ہم 
(انور شعور) 
جہاں بھی دیکھیں وہیں تم دکھائی دیتے ہو 
کبھی ہماری بھی خلوت میں دن سے رات کرو 
(صابر ظفر) 
آتی ہے خوشی آ کے چلی جاتی ہے 
اب رنج کا احسان اٹھانے دیا جائے 
حصہ ہے مرا شہر کی تاریکی میں 
اب اک دیا مجھ کو بھی جلانے دیا جائے 
(صفدر صدیق رضی) 
پھر ایک روز رضاؔ یونہی باتوں باتوں 
اُسے میں خواب سے باہر نکال لایا تھا 
(اختر رضا سلیمی) 
کیا ہوئے لوگ پرانے جنہیں دیکھا بھی نہیں 
اے زمانے ہمیں تاخیر ہوئی آنے میں 
ہم تو کچھ اور طرح ہوتے تھے برباد عطاؔ 
اب تو کچھ اور سے حالات ہیں مے خانے میں 
(احمد عطا) 
سیدہ عطیہ کا پہلا اور تیسرا شعر خارج از وزن ہیں جبکہ شمع ملک نے اپنا تخلص بھی درست وزن میں نہیں باندھا ہوا۔ بزرگ شاعر انور سدید کے اس شعر پر کہ ؎ 
جاگتی آنکھوں سے کی اختر شماری عمر بھر 
کی ہے شجرِ بے ثمر کی آبیاری عمر بھر 
زیادہ حیرت اور افسوس ہوا جس کے دوسرے مصرعے میں موصوف نے ''شجر‘‘ کو غلط وزن میں باندھ دیا۔ آپ ماشاء اللہ اساتذہ میں شمار ہیں‘ آپ اگر یہ کچھ کریں گے تو دوسروں پر کیا اثر پڑے گا۔ قاسم یعقوب کی نظم ''غم کرتے ہیں خوش ہوتے ہیں‘‘ اچھی لگی۔ ڈاکٹر ضیاالحسن کی نظم ''حسن‘‘ دیکھیے: 
حسن تو وہی ہے جو رسائی سے باہر ہے 
تمہیں اپنے امکان خود تلاش کرنے ہیں 
اپنے وجود کے معنی اپنے اندر سے برامد کرنے ہیں 
میں تمہیں اپنے نواح میں محسوس کرتا ہوں 
نہیں معلوم کہ میں کہاں پر ختم ہوتا ہوں اور تم 
کہاں سے شروع ہوتی ہو 
فی الحال تو اندر باہر تمہی تم ہو 
سوچتا ہوں جب میں نہیں ہوں گا تم کہاں ہو گی 
تمہارا وجود میرے بغیر ادھورا ہو جائے گا یا معدوم 
میں نہیں جانتا 
آج کا مقطع 
بدلا ہے بڑی مشکل ہے، ظفرؔ 
ترتیب کو بے ترتیبی سے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں