چنانچہ شاعری دو جمع دو تین یا پانچ تو ہو سکتی ہے‘ چار نہیں کیونکہ اس کے اعدادو شمار ہی مختلف ہیں۔ یعنی شعر ماورائے شعر بھی ہو سکتا ہے۔ یہی لاشعر کا مطلب بھی ہے کہ وہ شعر نہ ہوتے ہوئے بھی شعر ہو۔ اگرچہ لاشعر کی یہ تعریف بھی کی گئی ہے کہ شعر کہتے وقت جو کچھ بچ رہتا ہو اور جو کسی اگلے شعر میں کام آ سکتا ہو‘ لاشعر کہلاتا ہے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ شعر اور شاعر کے درمیان کوئی تعلق ہی باقی نہیں رہ جاتا کہ شعر قائم بالذات بھی ہے اور یہ ایک ایسا طلسم کدہ بھی ہے کہ خود شاعر کو حیران اور پریشان کردینے کی قدرت رکھتا ہے۔ اور جہاں تک شعر‘ شاعر کی مکمل گرفت اور سپردگی میں ہوتا ہے وہاں خود شاعر بھی شعر کی سپردگی میں آ سکتا ہے۔ غالبؔ جب کہتا ہے کہ ؎
سخنِ سادہ دلم را نہ فریبد غالبؔ
نکتۂ چند ز پیچیدہ بیانے بہ من آر
تو یہ غالبؔ کے اندازِ بیاں کی ایک مجبوری بھی تھی لیکن یہاں بات پیچیدہ بیانی سے آگے کی ہے کیونکہ شعر تو خود سراسر ایک پیچیدگی ہوتا ہے‘ حتیٰ کہ یہی اس کی خوبصورتی بھی بن جاتی ہے اور پیچیدہ بیانی کی ضرورت اور گنجائش ہی باقی نہیں رہ جاتی؛ چنانچہ ضروری ہے کہ شعر کی اس پیچیدگی کو باقی رہنے دیا جائے جو شعر بناتے وقت اس میں خودبخود ہی در آئی ہو۔ اور یہ سلسلہ یہاں تک دراز ہوتا ہے کہ شعر بظاہر شعر لگتا ہی نہیں؛ چنانچہ شعر کی اندرونی اور بیرونی دونوں صورتیں قابلِ غور ہیں اور ایک نہایت دلچسپ مطالعہ بھی۔
یہ بات شاعر کے لیے کئی طرح سے مددگار ہو سکتی ہے کہ خیال کے گھوڑے دوڑانے کی بجائے الفاظ کی باگیں ڈھیلی چھوڑ دی جائیں کہ خیال کو تو بہرصورت آنا ہی ہے کیونکہ وہ الفاظ کے تابع ہے اور معنی ان میں سے فوارے کی طرح پھوٹ بہنے کے لیے تیار ہوتے ہیں‘ اور جو متضاد اور متخالف بھی ہو سکتے ہیں اور خودبخود ہی ایک کرشماتی صورتِ حال پیدا کر دیتے ہیں‘ اس لیے معنی آفرینی کا تردد بھی نہیں کرنا پڑتا بلکہ ان کے اندر جو بھی الٹے سیدھے معانی آ رہے ہوں‘ انہیں تھوڑا ترتیب دینے کی ضرورت ہوتی ہے؛ اگرچہ بے ترتیبی کی ایک اپنی ترتیب ہوتی ہے اور اس کے لیے تردد بھی کرنا پڑتا ہے‘ مثلاً ؎
بدلا ہے بڑی مشکل سے ظفرؔ
ترتیب کو بے ترتیبی سے
اور سب سے پہلے شاعر کو شعر کہنے کی آزادی حاصل ہونی چاہیے اور یہ آزادی وہ کسی سے مانگتا نہیں بلکہ اپنے لیے خود مہیا کرتا ہے تاکہ وہ ہر طرح کا شعر کہہ سکے‘ یہ سوچے بغیر کہ لوگ کیا کہیں گے کیونکہ اگر آپ لوگوں کی پسند و ناپسند کا خیال رکھنے لگ جائیں تو پھر آپ شاعری کر چکے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں ان باتوں کا خیال اور لحاظ رکھتا ہوں۔ اکثر اوقات نہیں بھی رکھتا یا رکھ سکتا۔ لیکن میں ان کی اہمیت اور ضرورت کو بہرحال سمجھتا ہوں اور حتی الامکان انہیں بروئے کار بھی لانے کی کوشش کرتا ہوں لیکن یہ معاملات بیشتر میرے اختیار سے باہر بھی نکل جاتے ہیں کیونکہ آپ ہمیشہ ایک ہی طرح کا طرزِ عمل اختیار نہیں کر سکتے۔
سو‘ میں اس سلسلے میں مغز کھپائی کرتا رہتا ہوں۔ یہ میرے کام بھی آتی ہے اور بعض اوقات میرا کام خراب بھی کرتی ہے لیکن میں یہ خطرہ مول لیتا ہوں اور خطرہ مول لیے بغیر آپ شاید ہی کچھ کر سکتے ہوں جبکہ شعر کے حیرت خانے میں جب آپ داخل ہوتے ہیں تو آپ کے سامنے بہت سے آپشن کھلے ہوتے ہیں۔ اور یہ آپ کی افتادِ طبع پر منحصر ہے کہ آپ کون سا آپشن بروئے کار لاتے ہیں کیونکہ شعر کو لوگوں کے سامنے پیش بھی کرنا ہوتا ہے‘ اس بات کی پروا کیے بغیر کہ وہ کیا کہیں گے؛ تاہم شاعر اور قاری کے درمیان ایک طرح کی مفاہمت ضرور موجود ہوتی ہے‘ اور وہ بھی صرف ایک حد تک۔
سو‘ خیال اور معنی کی گزرگاہ سے یہ آگے کی منزل ہے جس کا سفر بجائے خود حاصل سفر ہے۔ یہ آپ کو اندر سے تبدیل کرتا ہے اور شعر کی صورت میں آپ کے قاری کو بھی‘ کیونکہ شعر اگر قاری کے سر پر سے بھی گزر جائے تو وہ اسے دوبارہ غور کرنے کی دعوت دیتا ہے اور قاری اس میں سے لطف اندوز ہونے کی کوئی نہ کوئی صورت نکال ہی لیتا ہے کہ شعر کے معنی پر اس کی صورت کا بہرحال غلبہ ہوتا ہے کہ بظاہر الفاظ کا ایک جھرمٹ یا جمگھٹا بجائے خود معانی کا ایک جہان اپنے اندر رکھتا ہے اور قاری کو تلاش بھی اسی کی ہوتی ہے۔
حق تو یہ ہے کہ غزل کی ایک جدید مابعد الطبیعات وضع کی جائے تاکہ اسے اس یبوست اور کہولت سے چھٹکارا دلایا جا سکے جس کی دلدل میں یہ دھنسی نظر آتی ہے‘ حتیٰ کہ شاعری محض شاعری کی پیروڈی ہو کر رہ گئی ہے۔ اور اگر یہ واقعی ضرورت ہے تو یہ اس ایجاد کی ماں بن کر بھی دکھادے گی‘ ورنہ جو اِکا دُکا کوششیں اِدھر اُدھر نظر آتی ہیں اور کوئی چمکدار شعر دکھائی دے جاتا ہے‘ وہ اس بیماری کا شافی و کافی علاج نہیں ہو سکتا کہ اس تصویر کے لیے نسبتاً ایک بڑا بُرش درکار ہوگا کہ یہاں مِنی ایچر کی جگہ میورال کی ضرورت ہے۔
واضح رہے کہ یہ دردِ سر میرا ہی نہیں ہے بلکہ ہر اس شاعر کا ہے جو موجودہ صورت حال سے غیر مطمئن ہے اور بے چین بھی کیونکہ اپنے کلام کا اُسے قاری سے رسپانس ملے نہ ملے‘ خود اپنی طرف سے یہ اسے دستیاب نہیں ہوتا کیونکہ اپنی شاعری کا سب سے بڑا اور پہلا نقاد شاعر خود ہوتا ہے۔ اور اگر وہ اپنے اضطراب کو ظاہر نہ بھی کرے تو یہ اس کے اندر ضرور موجود رہتا ہے کیونکہ جو کام وہ کر رہا ہوتا ہے اُس کی دلی اور جائز خواہش یہ بھی ہوتی ہے کہ اس کا نہ صرف کوئی جواز ہو بلکہ اسے صحیح لوگوں کی طرف سے صحیح تحسین بھی میسر آ سکے۔
چنانچہ یہ ایک فضا ہے جسے نئے سرے سے بنانے کی ضرورت ہے اور اسے کوئی بھی درد مند دل رکھنے والا بنا سکتا ہے اور چونکہ یہ ایک نہایت جینوئن مسئلہ ہے‘ اس لیے ظاہر ہے کہ کسی نہ کسی کے ہاتھوں اسے حل بھی ہونا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ ذمہ داری نوجوان شعراء کی ہے کیونکہ اس کے لیے بہرحال تازہ خون کی ضرورت ہے‘ اور یہ مسئلہ بھی زیادہ تر انہی کا ہے کیونکہ ان کو اپنا آپ بھرپور طور پر ابھی بروئے کار لانا ہے اور یقینا وہ اس بارے سوچتے بھی ہوں گے‘ اس لیے یہ سورج کسی وقت بھی اور کسی طرف سے بھی طلوع ہو سکتا ہے اور میں اس ضمن میں ہرگز مایوس نہیں ہوں کہ یہ کام ایک نہ ایک دن ہونا ہی ہے!
آج کا مطلع
شور تھا جس کا بہت وہ انقلاب آیا نہیں
پختگی دیکھو انہیں پھر بھی حجاب آیا نہیں