'' بک ہوم‘‘ لاہور نے ''روداد انجمن‘‘ کے نام سے ایک نہایت دلچسپ کتاب چھاپی ہے جو انجمن ترقی پسند مصنفین شاخ بمبئی کے 1946-47ء کے اجلاسوں کی روداد کی شکل میں نامور صحافی اور ادیب حمید اختر نے اس کے سیکرٹری کی حیثیت سے رقم کی۔ فی الحال اس کے صرف ایک اجلاس کی کارروائی سے کچھ اقتباسات پیش خدمت ہیں ، جو 11مئی کی کارروائی سے لیے گئے ہیں۔
جیون ہائوس11مئی،انجمن ترقی پسند مصنفین کا امروزہ جلسہ ایک بڑا اہم جلسہ تھا۔ دو ڈھائی ماہ کے بعد جنرل سیکرٹری سجاد ظہیر صاحب واپس آئے تھے۔ اس جلسہ میں غزل پر مباحثہ ہونے والا تھا اور اس میں غزل کے مخالف اور حامی شعرا اور ادیبوں میں سے جوش ملیح آبادی ، ساغر نظامی، ڈائریکٹر بخاری، علی سردار جعفری، سجاد ظہیر، ظ۔ انصاری، مجروح سلطانپوری وغیرہ نے اس بحث میں نمایاں حصہ لیا۔غزل کے حامیوں میں ڈائریکٹر بخاری،مجروح سلطانپوری اور ظ۔ انصاری نے اپنے خیالات ظاہر کیے۔ مخالفت میں جوش ملیح آبادی اورسردار جعفری بولے ...
مجروح سلطانپوری کے بعد جوش ملیح آبادی کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا، اب تک نفس غزل پر روشنی ڈالی گئی۔ اردو کی اور باتوں کا ذکر کیاگیا ہے۔ غزل کی تعریف ہے '' گفتگو کردن بازناں ‘‘ یعنی عورتوں سے میٹھی میٹھی باتیں کرنا غزل کہلاتا ہے۔ غزل میں یہ بھی ضروری ہے کہ ایک سے دوسرا
شعر مختلف ہونا چاہیے۔ یہاں جو مسلسل غزل کا ذکر کیا گیا ہے وہ درست نہیں۔ اس لیے کہ فن نے ایسی غزلوں پر قطعہ کی مہر لگائی ہے۔ غزل تو وہی ہے جس کا ہر شعر دوسرے سے مختلف ہو۔ یعنی مطلع میں انتظارِ معشوق رہا ہے۔ حسن مطلع میں وصل کے مزے لوٹے جارہے ہیں۔ اگلے شعر میں شیخ سے '' جو تم پیزار‘‘ ہورہی ہے۔ جوش صاحب نے اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے اپنے مخصوص لہجے میں کہا ، غزل ایک قسم کی خوردہ اندیشی اور خوردہ گوئی ہے جیسے ہار مونیم پر انگلیاں رکھ کر مختلف آوازیں نکالی جاتی ہیں اسی طرح غزل بھی ہارمونیم بازی ہے۔ انہوں نے کہا ، نطق خیال کا داعی ہوتا ہے۔ بے ضرورت بولنے والوں کو لوگ بکواس کہتے ہیں۔ اسی طرح شعر بھی اس وقت ہونا چاہیے جب دل میں کوئی جذبہ کوئی خیال ذہن میں ہو لیکن غزل گو یونہی شعر کہتے رہتے ہیں۔ میرا دعویٰ ہے کہ غزل گو عاشق ، عاشق بالکل نہیں ہوتے۔ ان کا عشق مصنوعی ہوتا ہے بلکہ ان کا معشوق اب تک پیدا ہی نہیں ہوا ۔جس معشوق پر ان کا ولی دکنی مرا تھا، یہ بھی اب تک اس پر مرے جارہے ہیں۔ اس کے علاوہ ہر جذبے کی ایک عمر ہوتی ہے مگر مشاق شاعر ایک وقت میں بیس یا تیس شعر کہہ لیتے ہیں جو مختلف خیالات اور جذبات کا اظہار کرتے ہیں حالانکہ
ایک وقت میں انسان پر مرکب جذبات کااظہار نہیں ہوتا۔ اس سلسلے میں بعض لوگ کہتے ہیں کہ غزل گو شاعر واقعات کو سٹور میں رکھتے ہیں۔ ضرورت پڑنے پر قافیے کی ٹارچ لے کر سٹور میں گھس جاتے ہیں اور وہاں سے جس چیز کی ضرورت ہو نکال لیتے ہیں مگر '' بیمار کردیا‘‘ وغیرہ جھوٹی نگینہ سازی ہے۔ قافیے اور ردیف کو ٹکرانے سے کبھی خوشبو پیدا نہیں ہوتی، اکثر بدبو پیدا ہوتی ہے۔انہوں نے سلسلۂ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اب ذرا غزل گوئوں کے معشوق کو بھی ملاحظہ فرما لیجیے۔ ان کو آج تک ایک بھی باوفا معشوق نہیں ملا حالانکہ مختلف قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ اچھے ، برے، باوفا، مگر یا تو ہمارے غزل گو دوست چھانٹ کر ایسے شجرۂ نسب والے معشوق تلاش کرتے ہیں جن کے خاندان میں وفاداری کا رواج نہیں ہوتا،یا خود اتنے بدصورت ہوتے ہیں کہ ان پر کوئی عورت عاشق نہیں ہوتی۔ پھر بیچاروں کو رقیب روسیاہ ہمیشہ پیٹتا رہتا ہے۔ کبھی سننے میں آیا کہ کسی عاشق نے رقیب کو مارا ہو؟
انہوں نے کہا کہ فانی جو بہت بڑے غزل گو سمجھے جاتے ہیں، ان سے غزل پر ایک روز گفتگو ہورہی تھی ۔ میں نے کہا بڑی مصیبت ہے جوتے میں کیل نکل آیا ہے اور بھئی آٹا بہت مہنگا ہو گیا ہے۔ بے موسم بارش ہورہی ہے۔ کس قدر گرمی پڑرہی ہے... فانی حیران ہوکر بولے، کیا ہوا تمہیں ؟ میں نے کہا غزل فرما رہا ہوں۔ بس یہی غیر مربوط خیالات غزل کہلاتے ہیں۔
آخر میں جوش صاحب نے کہا، میرؔ صاحب کو دیکھ لیجیے۔ ان کا دیوان ایک ریگستان ہے۔ چلتے چلتے راستے میں کیچڑ ملے گا۔ غلاظتیں آئیں گی، کھائیاں اور کھڈ ملیں گے۔ اسی طرح دس ہزار میل کی مسافت طے کر لیجیے، تب کہیں جاکر ایک پھول ملے گا۔ تقریر ختم کرتے ہوئے کہا ،غزل بالکل غیر فطری چیز ہے اور یہ خوردہ گوئی اور خوردہ اندیشی فوراً ختم ہونی چاہیے۔
ڈاکٹر صفدر آہ سیتاپوری کی باری آئی تو انہوں نے کہا کہ غزل کے متعلق '' بازناں گفتگو کردن‘‘ کہنا ایک غلط فہمی ہے۔ اس کی ایک خصوصیت یہ تھی چونکہ عورتوں سے جو گفتگو ہوتی ہے وہ مسلسل لیکچر نہیں ہوتا۔ کچھ چٹکلے اور لطیفے بھی ہوتے ہیں، چنانچہ اس خصوصیت سے غزل کا نام رکھا گیا ہے۔ غزل میں فلسفہ ، تصوف ، عرفان... سبھی کچھ ملتا ہے اور یہ سب خیالات عورتوں سے گفتگو کرنے میں تھوڑے آتے ہیں چنانچہ انہی خیالاتِ پریشاں کی خصوصیت سے غزل نام رکھا گیا ۔ اس کے علاوہ کئی دوسرے اصحاب نے بھی غزل کے دفاع میں کافی کہا لیکن جوش صاحب کی باتوں کا توڑ کوئی بھی پیش نہ کرسکا۔
طوالت کی وجہ سے ساری رپورٹ پیش نہیں کی جاسکتی، تاہم اس کتاب میں آپ کی ملاقات سربرآور دہ شاعروں اور ادیبوں سے ہوتی ہے اور فرداً فرداً ان کے خیالات سے بھی آگاہی ہوتی ہے، خاص طور یہ کہ تقسیم ملک سے پہلے اور اس وقت ادبی مکالمے کا کیا رنگ تھا،کتاب کی قیمت 400روپے ہے۔یاد رہے کہ گوجوش صاحب ایک نظم گو شاعر تھے لیکن اتنا مخالف ہونے کے باوجود انہوں نے متعدد غزلیں بھی کہہ رکھی ہیں...!
اگر غزل کے متعلق جوش صاحب کے نظریات کو تسلیم بھی کرلیا جائے تو ان کی کتاب '' یادوں کی برات‘‘ کو بھی ان کا دیوان غزل قرار دینا پڑے گا۔
آج کا مقطع
ظفرؔ ویسے تو میں بیزار ہی پھرتا ہوں سڑکوں پر
مگر پھر بھی کسی شے کی طلب گاری میں رہتا ہوں