خبر یہ ہے کہ کشور ناہید نے اپنی توجہ غزلوں پر مرکوز کردی ہے اور نئی پرانی غزلیں یکجا کر کے کتاب چھپوانے کا ارادہ کر لیا ہے‘ سو‘ ادیب برادری با ادب با ملاحظہ ہوشیار‘ بلکہ خبردار۔ یہ تو سب کو معلوم ہے کہ یہ لڑکی اگر اپنی آئی پر آ جائے تو کچھ بھی کر کے دکھا سکتی ہے۔ لڑکی کے لفظ پر اعتراض ہو تو واضح رہے کہ اس کے اندر ایک لڑکی ضرور موجود ہے جو اس سے شاعری سمیت سب کچھ کرواتی ہے‘ اور اگر کبھی کبھار میں اس کے لیے اداس ہو جاتا ہوں تو اس کے لڑکی ہونے میں کیا شُبہ رہ جاتا ہے۔ اس کے ساتھ محبت کا رشتہ اور تعلق بہت پرانا ہے‘ جب اس کا گھر کرشن نگر میں ہوا کرتا تھا اور جہاں شام کو صوفی تبسمؔ اور فیض احمد فیضؔ سمیت کوئی نہ کوئی شاعر ادیب آیا ہی رہتا تھا۔ میں بھی اوکاڑہ سے آ ٹپکتا۔ یوسف کامران زندہ تھا‘ ہر طرف زندگی بکھیرتا ہوا۔ انہی دنوں پی ٹی وی میں میرے ساتھ ایک شام منعقد کی گئی تھی جس کا میزبان یوسف کامران ہی تھا اور جس میں رونا لیلیٰ نے میری غزلیں گائی تھیں۔ پھر انہوں نے نیا گھر بنا لیا لیکن یوسف کو اس میں زیادہ رہنا نصیب نہ ہوا۔ میں اوکاڑہ سے تعزیت کے لیے آیا اور آنسوئوں کے ساتھ رویا۔ انتظار حسین بھی موجود تھے۔
پھر اس نے اسلام آباد کو اپنا مسکن بنا لیا اور ملاقاتیں مشاعروں تک ہی محدود ہو کر رہ گئیں۔ اور اب اس کا بھی امکان نہ ہونے کے برابر ر ہ گیا ہے کہ اب ان میں شمولیت کے لیے چلتا پرزہ ہونا بھی ضروری ہے جبکہ چلنا بھی تقریباً معدوم ہو کر رہ گیا ہے‘ نیز پرزوں کا بھی کوئی پتا نہیں کہ کون سا کب جواب دے جائے یعنی بقول غالبؔ ؎
مضمحل ہو گئے قویٰ غالبؔ
اب عناصر میں اعتدال کہاں
لیکن اس کے لیے بھی کم از کم عناصر کا ہونا تو ضروری ہے جو بھی ایسا لگتا ہے کہ رفتہ رفتہ غائب ہوتے جا رہے ہیں‘ لیکن دیوانہ بکارِ خویش ہشیار‘ جہاں جانے سے رہ نہ پائوں‘ چلا بھی جاتا ہوں یعنی ؎
بہت کچھ کر بھی سکتا ہوں اگر موقع ملے کوئی
کسی کے سامنے جیسی بھی لاچاری میں رہتا ہوں
حالانکہ یہ بھی میرا خیال ہی ہے۔ منقول ہے کہ ایک پچانوے سالہ صاحب نے ایک نوے سالہ خاتون سے شادی کرلی۔ وہ ہنی مون منانے کے لیے گئے تو تین دن انہوں نے گاڑی سے نکلنے ہی میں لگا دیئے۔ ایک اور بڑے میاں کے احوال یہ ہیں کہ انہوں نے سولہ سالہ لڑکی سے شادی کرلی۔ ان کے پوتے کو پتا چلا تو وہ پریشانی کے عالم میں بھاگا بھاگا آیا اور بولا:
''دادا جان‘ یہ آپ نے کیا کیا ہے‘ آخر موت فوت آدمی کے ساتھ ہے...‘‘
''موت فوت کا کیا ہے‘‘ دادا جان بولے، ''یہ مر گئی تو میں اور کر لوں گا!‘‘
بہرحال‘ اب اس کی زبانی یہ سن کر اطمینان ہوا کہ وہ بھی ٹھیک طور سے کچھ زیادہ چل نہیں سکتی‘ یعنی ع
متفق گردید رائے بُو علی با رائے من
کوئی نظم‘ کوئی تازہ شعر ہو جائے تو فون پر سُنا دیتی ہے اور سنانے کی فرمائش بھی۔ پچھلے دنوں جو مال اس سے منگوایا تھا‘ زیادہ تر کالم میں بھر دیا تھا جسے دیکھ کر کہا کہ میرا تو موڈ ہی آف ہو گیا ہے‘ میں تو اپنے مداحوں کو باقاعدہ انتظار کرواتی اور ترساتی ہوں‘ تم نے اتنی چیزیں اکٹھی چھاپ دیں۔ بہرحال‘ ان میں سے ایک نظم بچی تھی جو پیش خدمت ہے:
عمر یوں گزرتی ہے
ایک عمر ہوتی ہے رتجگوں کے میلے میں
آنکھ بھی نہیں لگتی‘ بات بھی ہنسی بھی‘ اور
اس ہنسی میں باتوں کا سلسلہ نہیں تھمتا
خواب بنتے رہتے ہیں‘ دن مہکتے رہتے ہیں
آئنہ بدن بن کر مسکراہٹیں جاگیں
وصل کے تصور میں سُرخ سُرخ گالوں پہ
یہ حجاب کی لہریں نام پوچھ لیتی ہیں
یاد بھی دلاتی ہیں‘ انگلیوں کی پوریں بھی
اُس کا نام لکھتی ہیں
...............
عمر سیڑھیاں چڑھ کر پھر شفق میں ڈھلتی ہے
شام میں ٹہلتی ہے‘ سانس کے تموج کو
حوصلہ دلاتی ہے‘ زندگی کے گزرے پل
نقشِ خواب تھے لیکن اب مٹے مٹے سے ہیں
انگلیوں کی پوریں بھی بے نشان لگتی ہیں
وصل کے گماں لمحے نام بھی نہیں لیتے
...............
اب ہوا کے پردے میں رات اوڑھے بیٹھی ہے
نامراد یادوں کو جو کہ بیڑیاں بن کر
ہونٹ پہ چپکتی ہیں‘ نیند گولیاں کھا کر
میرے پاس آتی ہے‘ عمر دیکھتی ہے سب
بھولنے کی کوشش میں پیر سوج جاتے ہیں
...............
وہ جو جانِ جاناں تھا‘ وہ جو محرمِ جاں تھا
اس کا وہ گھروندا بھی بے چراغ دِکھتا ہے
عمر یوں گزرتی ہے
آج کا مقطع
آسماں پر کوئی تصویر بناتا ہوں‘ ظفرؔ
کہ رہے ایک طرف اور لگے چاروں طرف