منیر نیازی نے کہا تھا ع
کیسے کیسے لوگ ہمارے جی کو جلانے آ جاتے ہیں
ادھر میرے کئی دوست میرے جی کو تو نہیں جلاتے البتہ خبردار ضرور کرتے ہیں کہ وہاں وہاں فلاں فلاں نے آپ کے خلاف لکھا ہے۔ اور یہی ہمارا ادبی کلچر بھی بن چکا ہے کہ ایک تو اختلاف رائے کو مخالفت‘ حتیٰ کہ دشمنی سمجھا جاتا ہے اور دوسرے‘ سب کے کان بھی کھڑے ہونے لگتے ہیں اور یہ جس حد تک افسوسناک ہے اس سے کہیں زیادہ مایوس کن بھی۔ وجہ یہ کہ ہم میں نہ سچ کہنے کی توفیق ہے‘ نہ سچ سننے کی ہمت‘ کہیں بھی کوئی غلط کام ہو رہا ہو تو ہمارا رویہ بالعموم یہی ہوتا ہے کہ مجھے کیا‘ اور یہی ''مجھے کیا‘‘ میں اس خرابی کی جڑ ہے۔ اختلاف رائے سے یہ سمجھ کر پہلو تہی کی جاتی ہے کہ جواب میں ہمارے ساتھ بھی اختلاف رائے ہوگا حالانکہ یہ سب کچھ ہونا چاہیے۔
ہم میں سے ہر شخص اپنے آپ کو بے عیب سمجھتا ہے اور دوسروں کے عیب سے چشم پوشی یا بے اعتنائی اختیار کرتا ہے حالانکہ عیب تو ہم سب میں ہوتے ہیں‘ حتیٰ کہ ہر عیب ہماری عادت بن جاتا ہے۔ معاشرے کے ہر شعبے میں انحطاط کی جو کارفرمائی نظر آتی ہے‘ اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ ہم مصلحت کوشی اور منافقت سے کام لیتے ہیں‘ حالانکہ اگر غلطی کی نشاندہی نہیں کی جائے گی تو اصلاح کیسے ممکن ہوگی‘ اور اگر اصلاح نہ ہو گی تو یہ گند پھیلتا چلا جائے گا۔ زندگی کے کسی بھی شعبے کو لے لیجئے‘ سیاست ہے تو اس کا مقصد محض لوٹ مار ہے۔ اگر کوئی دکاندار ہے تو چیزوں میں ملاوٹ کرے گا یا جانتے بوجھتے ہوئے ملاوٹ شدہ چیزیں بیچے گا‘ بڑا صنعت کار ہے تو ٹیکس چوری کرے گا‘ افسر یا اہلکار ہے تو رشوت کے بغیر بات ہی نہیں سنے گا‘ شاعر یا ادیب ہے تو ہمچوما دیگرے نیست کی بیماری میں مبتلا ہوگا اور دوسروں کی چیز اپنے نام سے چھاپنے سے بھی گریز نہیں کرے گا اور سارا کام تحسین باہمی سے نکالنے کی کوشش کرے گا‘ کسی کی تعریف کرے گا تو اس امید کے ساتھ کہ اس کی بھی تعریف کی جائے۔ تنقید اس لیے نہیں کرے گا کہ جواب میں وہ بھی تنقید کی زد میں آئے گا جسے وہ اپنے لیے زہر قاتل سمجھتا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ اگر آپ کا کہا یا لکھا ہوا اختلاف رائے یا تنقید کی مار ہی برداشت نہیں کر سکتا تو آپ کو اپنے بارے میں تمام غلط فہمیوں بلکہ خوش فہمیوں سے آزاد ہو جانا چاہیے‘ چنانچہ بہتری کی صورت اگر کہیں بھی نہیں نکلتی تو اسی وجہ سے کہ ہر کسی نے منہ پر مصلحت کی پٹی باندھ رکھی ہے۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ دھوکا تو کر سکتے ہیں‘ ایک دوسرے کا حق تو مار سکتے ہیں لیکن حرف گیری کا حوصلہ نہیں رکھتے‘ اور اگر کوئی ایسا کرے بھی تو اسے مخالفت یا دشمنی کا جامہ پہنا دیتے ہیں حالانکہ بھائی چارے کے تحت بھی ہمیں ایک دوسرے کے عیبوں اور غلطیوں کا نوٹس لینا چاہیے تاکہ ایک عمومی انحطاط سے بہتری کی طرف جایا جا سکے۔ میرے ساتھ اختلاف اس لیے بھی کیا جاتا ہے کہ یہ کام میں خود بھی کرتا ہوں اور اسی لیے اس کا بُرا بھی نہیں مناتا‘ چنانچہ اختلاف کرنا نہ صرف میرا حق ہے بلکہ اس کا جواب دینا دوسروں کا بھی مسلمہ حق ہے‘ اور یہی دنیا کا چلن بھی ہے‘ چنانچہ جوابی کارروائی میں اگر بات اعتدال کی حد سے آگے بھی بڑھ جائے تو اس پر فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ بھی تقاضائے فطرت ہے اور اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا محاورہ بھی یونہی تو نہیں بن گیا۔ اگرچہ تحریر سے صاف پتہ چل رہا ہوتا ہے کہ اختلاف کہاں ذاتی‘ غیرضروری یا غلط ہے اور جواب کس حد تک مناسب طریقے سے دیا گیا ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ ادبی معاملات میں کوئی بات اور کوئی رائے بھی حتمی نہیں ہوتی‘ چنانچہ بہتے ہوئے پانی میں جو تازگی ہے اور کھڑے پانی میں بدبو دار ہونے کا جو خطرہ موجود ہوتا ہے‘ اس کا بھی تقاضا ہے کہ شعر و ادب کے پانی میں بھی ہلچل جاری رہے اور دوست گواہ ہیں کہ میں نے خود پر تنقید کو ہمیشہ خوش آمدید کہا ہے‘ وہ جتنی بھی تندوترش کیوں نہ ہو۔ اس سے مجھے خوشی اس لیے بھی ہوتی ہے کہ یہ انجماد کو توڑتی ہے!
مجھ میں ہزار عیب ہوں گے لیکن ایک تو میں ان کو چھپاتا نہیں ہوں اور دوسرے ان کی نشاندہی کو میں نے ہمیشہ خیر سے تعبیر کیا ہے۔ چنانچہ اگر کوئی آپ کے لکھے ہوئے کو قابل اعتناء سمجھتے ہوئے اس سے اختلاف بھی کرتا ہے تو وہ آپ کا محسن ہے‘ اسے آپ دشمن کیسے کہہ سکتے ہیں بلکہ میں تو اسے اپنا دوست بھی سمجھتا ہوں۔ اگر کوئی صاحب یہ سمجھتے ہوں کہ انہوں نے میرے خلاف لکھ کر کوئی حساب بیباق کیا ہے تو یہ ان کی اپنی سوچ ہے ورنہ ادب میں حسابات جاری رہتے ہیں اور کبھی بیباق نہیں ہوتے۔ اگر کسی کو میری کسی تحریر سے رنج پہنچا ہے تو اسے یہ حق حاصل ہے کہ اپنے دل کا غبار اچھی طرح سے نکال لے کہ اس سے وہ خود بھی ہلکا پھلکا ہو جائے گا اور اس میں سے میرے لیے بھی کوئی بہتری کی صورت نکل سکتی ہے۔ سو‘ ادب تو ایک قبیلہ ہے اور اس قبیلے میں رہتے ہوئے لڑائی جھگڑے بھی ہوتے ہیں‘ صلح صفائی بھی‘ جبکہ فہمائش کا ایک راستہ بھی کھلا ہوتا ہے‘ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اپنے خلاف کوئی چیز چھپی دیکھ کر میں کبھی رنجیدہ نہیں ہوا۔ اس لیے یہ رونق لگی رہنی چاہیے‘ اتھل پتھل ہوتی رہنی چاہیے کہ یہی زندگی کا ثبوت بھی ہے ورنہ خاموشی تو صرف قبرستان میں ہوتی ہے۔ ادب میں کسی کو مقدس گائے ہونے کا دعویٰ نہیں ہو سکتا‘ ہر شخص دوسرے سے کسی نہ کسی لحاظ سے بہتر ہوتا ہے۔ ہر رائے کا احترام ضروری ہے۔ وہ موافق ہو یا مخالف‘ کیونکہ کسی کو کسی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں ہے۔ اگر آپ نے کوئی تیر مارا بھی ہے تو دوسروں کی نکتہ چینی کی چھلنی سے چھنے بغیر اس پر خوش رہنے سے بڑی حماقت اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ کیا خبر کوئی بظاہر غلط آدمی صحیح بات کر رہا ہو اور کوئی صحیح آدمی غلطی پر ہو۔ اس چمن میں رنگ رنگ کے پھول ہیں اور کسی رنگ کو بلیک آئوٹ نہیں کیا جا سکتا‘ چاہے آپ کتنے بھی تیس مار خان کیوں نہ ہوں اور دوسروں کو کمتر سمجھنے والا خود کم تر بلکہ ترین ہوتا ہے۔
چنانچہ ادب میں اگر آپ کو صحت مندانہ فضا درکار ہے تو اختلاف رائے کو برداشت کرنے کا کلچر اپنانا ہوگا۔ میں نے اپنی کتاب ''لاتنقید‘‘ میں ولیم شیکسپیئر کا جو قول نقل کیا ہے اسے دہرانا ایک بار پھر ضروری ہے‘ وہ کہتا ہے کہ اگر سبھی آپ سے متفق ہیں اور کوئی بھی اختلاف نہیں کرتا تو آپ ایک بے ایمان آدمی ہیں۔ سو‘ ہم میں سے کون ہے جو بے ایمان کہلانا پسند کرے گا۔ صفائی اگر نصف ایمان ہے تو ادب کے شعبے میں اختلافِ رائے کو پورے ایمان کی حیثیت حاصل ہے اور آپ کا رویہ تو یہ ہونا چاہیے کہ ع
جو آئے آئے کہ یاں دل کشادہ رکھتے ہیں
آج کا مقطع
ہوا ہے نفع تو پوچھا نہ جا کے اس سے‘ ظفر
کہ اس دکان میں حصہ کوئی ہمارا بھی تھا