اگلے روز میں نے جناب احمد صغیر صدیقی کے ایک شعر میں غلطی کی نشاندہی کی تھی جس کے جواب میں انہوں نے اس پر شکریہ کا میسج بھیجا ہے اور معذرت کی ہے کہ سماعت میں خلل کی وجہ سے وہ فون نہیں کر سکے ہیں۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ مجھے یہ کام جاری رکھنا چاہئے جبکہ اکثر حضرات اس کا باقاعدہ بُرا مناتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے کراچی ہی کے ایک پرچے میں پھر ایک غزل شائع ہوئی تھی جس کا ایک شعر تھا ؎
زندگی یوں بھی اندھیروں میں گزر ہی جاتی
وہ چراغ لب و رخسار بہت کام آیا
اس کے کچھ عرصے بعد صاحب موصوف کے ایک مصرعے میں یہی ترکیب دیکھنے کو ملی جس کے لئے میرا خیال ہے کہ مجھے بھی ان کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ انہوں نے میری ایک ترکیب کو پذیرائی بخشی! اگلے روز محبی شعیب بن عزیز نے ہمارے شاعر دوست محمد اظہار الحق کے اعزاز میں کھانے کا اہتمام کر رکھا تھا جن کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ میرا اظہار کے ساتھ 40 سالہ تعلق ہے۔ میرا چونکہ موصوف کے ساتھ کوئی 45 سالہ تعلق ہے اس لئے شعیب کی دعوت پر میرا جانا بھی ضروری ٹھہرا جو وہاں آفیسرز کلب میں ایم بی بی ایس یعنی بیوی بچوں سمیت فروکش تھے اور گریڈ 22 کے ریٹائرڈ افسر ہونے کی وجہ سے ان کا یہ استحقاق بھی تھا۔ وہاں اصغر ندیم سید، سعود عثمانی، حسن اور ندیم بھابھہ سے بھی ملاقات ہوئی اور اظہار سے ان کا کلام بھی سنا گیا۔
محمد اظہار الحق شاعر بے بدل تو ہیں ہی، ان کی نثر بھی اتنی ہی خوبصورت اور لا جواب ہوتی ہے۔ ''آبِ رواں‘‘ کے پہلے ایڈیشن کے ساتھ نہ کوئی دیباچہ تھا،نہ فلیپ، البتہ اس کے دوسرے یا تیسرے ایڈیشن کا فلیپ انہوں نے لکھا جبکہ اس کے ساتھ جناب محمد سلیم الرحمن کا مختصر دیباچہ بھی تھا جو بجائے خود اعلیٰ نثر کا ایک نمونہ ہے۔ چنانچہ اظہار کا لکھا ہوا وہ فلیپ میں ضرور نقل کرنا چاہتا ہوں جو اس طرح سے ہے:
''دیو سائی دنیا کا بلند ترین میدان ہے۔ میلوں لمبا اور کوسوں چوڑا، اور اگست میں یہاں پھول کھلتے ہیں۔ فرسنگ درفرسنگ ہر رنگ کے پھولوں کے قالین بچھ جاتے ہیں۔ اس میدان میں ندیاں ہیں اور جھیلیں، خوبصورت پرندے ہیں اور لہکتے ہوئے ٹیلے، ہوائوں کے تخت ہیں اور بادلوں کے محل، آسمان پر دریچے ہیں اور فضا میں ان دیکھے دریائوں کی خوشبو اور ہر طرف دلگیر آہیں... بس یہی ظفر اقبال کی شاعری ہے! اور جب وہ کہتا ہے کہ دھندلکے اور دھندلا ہٹیں اور ابر آلود تصویریں اور الجھے سیدھے مناظر اس نے ہوائوں پر لکھے ہوئے دیکھے ہیں اور دوسروں کو دکھانے چلا ہے تو اصل بات ہی یہ ہے کہ دکھانے کی اس مہم میں، جو جان جوکھوں کا کام تھا وہ سراسر کامیاب ہوا ہے۔
بہت سوں نے شعری سفر اس کے ساتھ شروع کیا اور اب وہ متروکات سخن کی طرح تاریخ ادب کا حصہ ہیں۔ بہت سے اس کے بعد آئے اور ان کا کہیں نام و نشان بھی نظر نہیں آتا لیکن ظفر اقبال پیش منظر پر اسی طرح چھایا ہوا ہے جس طرح کہ تھا۔ اس نے یکے بعد دیگرے کئی نسلوں کو متاثر کیا ہے اور کر رہا ہے اور مقدار کا یہ عالم ہے کہ اس کا کیسہ بھرا ہوا ہے۔ اس قدر کہ ہم عصر اردو شاعری میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس گئے گزرے دور میں اس نے نظامی،جامی اور خسروؔ کے خمسوں اور رومی اور بیدل کے دواوین کی یاد تازہ کر دی ہے۔
''آب رواں‘‘ پہلی محبت کی طرح ہے۔ بعد کی محبتیں جتنی بھی ہنگامہ خیز ہوں، پہلی محبت کی تازگی اور مٹھاس اور کسک جوں کی توں رہتی ہے۔ ''آبِ رواں‘‘ کے کتنے ہی اشعار ضرب المثل بن چکے ہیں۔ آغاز اور پختگی کا یہ سنگم اردو شاعری سے پیار کرنے والوں کے دلوں میں جاگزیں ہے ؎
ناچیز ہے صد مہر سلیماں مرے نزدیک
بلقیس کے ہونٹوں کا نگیں ہے مرے دل میں‘‘
کم از کم میں تو ایسی نثر نہیں لکھ سکتا۔ اس کے نقل کرنے میں بیشک خود توصیفی کا بھی پہلو نکلتا ہو لیکن یہ بھی ہے کہ ایک زمانہ گزر گیا ہے، میری کسی نے تعریف ہی نہیں کی، اور اگر کوئی دوسرا نہ کرے تو اسے خود کرنے میں کیا ہرج ہے کہ یار لوگ تو یہ کام کثرت سے کرتے ہیں۔ میں راولپنڈی میں اظہار کی جو مہمانیاں کر چکا ہوں وہ مجھے اچھی طرح سے یاد ہیں اور اس کے دیے ہوئے تحائف بھی جن میں بیرون ملک سے لائی ہوئی کانچ کی منقش پلیٹ اور بیدل کے حوالے سے میری والہانہ دل چسپی معلوم ہونے پر اس نے دیوانِ بیدل کا جو نسخہ مجھے عنایت کیا تھا اور اس پر یہ شعر کہ ؎
بہ آں گروہ کہ ازبادۂ وفامستند
سلامِ ما برسانید ہر کجا ہستند
مجھے کبھی نہیں بھولے گا ؎
زغارتِ چمنت بر بہار منت ہاست
کہ گل بدست تواز شاخ تازہ تر ماند
مجھے اگلے روز لاہور سے جناب جاوید علی کا ایک مکتوب موصول ہوا جن کا کہنا ہے کہ وہ لاہور کی الفلاح بلڈنگ میں واقع پاکستان نیشنل سنٹر میں کشور ناہید کے نائب ہوا کرتے تھے جسے کشور ناہید نے کثیر المقاصد بنا دیا تھا۔ انہوں نے گوپی چند نارنگ سے لے کر فیض احمد فیض، صوفی تبسم، اشفاق احمد اور بانو قدسیہ سمیت بیسیوں نام گنوائے ہیں جو وہاں مختلف تقاریب میں شرکت کے لئے آتے جاتے رہے۔ انہوں نے اشفاق احمد کا یہ جملہ بھی نقل کیا کہ ساڈا ظفر اقبال کما کے کھاندا اے، غالب منگ تنگ کے کھاندا سی۔ وہ لکھتے ہیں کہ کشور ناہید انتہائی سخت گیر اور نرم دل تھیں۔ یہ خوبی کہتے ہیں کہ چنگیز خان میں بھی موجود تھی۔ اقبال ساجد کے لئے کشور ناہید نے ایک امدادی فنڈ قائم کر دیا تھا اور اپنے اثر و رسوخ سے کافی رقم جمع کر لیتی تھیں۔ یہ فنڈ بینک میں جمع ہوتا تھا اور ادائیگی صرف اقبال ساجد کی بیوی کو ہوتی تھی۔ انہوں نے حبیب جالب کے اہل خانہ کے لئے بھی ایک امدادی فنڈ قائم کیا۔ اس ادارے میں شاعروں، ادیبوں کے علاوہ فنکار، کھلاڑی، علماء، گلوکار سب جمع ہوتے تھے اور یہ محفلیں کشور ناہید کے طفیل تھیں۔ سرمایہ دار وزیر اعظم نے علم و ادب کے فروغ کا یہ ادارہ بند کر دیا کیونکہ ان کی نظر میں یہ محض لغویات تھیں اور کمائی کا ذریعہ نہ تھا۔ وہ اس ادارے میں گزارے ہوئے طویل عرصے پر شاید ایک کتاب بھی لکھیں۔
آج کا مقطع
مجھ سے چھڑوائے مرے سارے اصول اس نے ظفرؔ
کتنا چالاک تھا، مارا مجھے تنہا کر کے