آج صبح صبح دیکھا تو دو کالی بلیاں نمودار ہوگئیں۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ ان میں سے ایک بلّا ہو اور ایک بلّی، یعنی میاں بیوی ہوں۔ بصورتِ دیگر ایک بلّا اور ایک اس کی دوست بھی ہو سکتی ہے، جس کے ساتھ وہ ڈیٹ مارتا پھرتا ہو۔ بہر حال، یہ دونوں تو بلّے نہیں ہو سکتے کیونکہ اگر ایک جنگل میں دو شیر نہیں رہ سکتے تو بلّی چونکہ شیر کی خالہ اور بلّا اس کا خالو ہوتا ہے، اس لیے ایک ہی جگہ پر دو بلّے مٹرگشت کرتے دکھائی نہیں دے سکتے۔
کچھ دن پہلے اوکاڑہ سے ہمارے ایڈووکیٹ اور صحافی بھائی محمد اسلم پراچہ نے فون پر بتایا تھا کہ اس دفعہ ''ماہِ نو‘‘ کا جو حبیب جالبؔ نمبر آیا ہے، اس کی قیمت 500 روپے رکھی گئی ہے اور یہاں سٹال پر جو پانچ سات پرچے آئے تھے کسی نے نہیں خریدے اور ویسے کے ویسے ہی پڑے ہوئے ہیں۔ پہلے اس کا عام شمارہ 50 روپے کا ہوتا تھا، ہم خود خریدتے اور دوستوں کو تحفے کے طور خرید کر دیتے تھے لیکن اب 500 روپے کون خرچے۔ مجھے تو ابھی پرچہ نہیں موصول ہوا اور یہ قیمت اس لیے بھی نا مناسب ہے کہ حبیب جالبؔ کوئی ایسا شاعر نہیں تھا کہ لوگ اس پر پانچ سو روپے خرچ کر دیں کیونکہ جن لوگوں کے لیے اس نے شاعری کی، ان میں اتنے پیسے خرچ کرنے کا ویسے ہی دم خم نہیں ہے۔ اشرافیہ میں سے اگر کچھ لوگ اسے خریدیں گے تو محض اپنا شیلف سجانے کے لیے!
ابھی ابھی ہمارے شاعر دوست شاہدؔ ماکلی کا میسج آیا کہ 28 نومبر کے اخبار میں جو آپ کی غزل شائع ہوئی ہے، اگر اجازت دیں تو میں اُسے اپنے پرچے ''آثار‘‘ میں چھاپ لوں! میں نے فون کر کے انہیں بتایا کہ اس کے مطلع کا مصرعِ اوّل غلط چھپ گیا ہے یعنی شروع کے دو لفظ چھپنے سے رہ گئے ہیں جبکہ مطلع اس طرح سے تھا ؎
یہیں پہ ڈھونڈیے ہم کو، یہیں پڑے ہوئے ہیں
جو کب سے آپ کے زیرِ نگیں پڑے ہوئے ہیں
انہوں نے کہا کہ میں نے بھی اندازہ لگا لیا تھا کہ شعر صحیح نہیں چھپا؛ چنانچہ میں نے اپنے طور پر مصرع اس طرح مکمل کر لیا تھا ع
کہیں نہ ڈھونڈ یے ہم کو، یہیں پڑے ہوئے ہیں
میں نے انہیں بتایا کہ اس کے ایک مصرع میں ''رسان‘‘ کی بجائے ''وسان‘‘ چھپ گیا ہے، اس کی بھی درستی کر لیں۔ بعد میں مجھے خیال آیا کہ میرے مصرع سے اُن کا لگایا ہوا مصرع بہتر تھا؛ چنانچہ میں نے اُنہیں فون کر کے بتایا کہ آپ ہی کا مصرع زیادہ بہتر تھا، وہی رکھ لیں۔ وہ مجھے سے کہیں جونیئر شاعر ہیں لیکن میں
نے ایسا کرتے ہوئے ذرا بھی جھجک محسوس نہیں کی اور اب آپ سب کو بھی بتا رہا ہوں، اس لیے کہ کسی فن پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہو سکتی۔ مجھے جو فون یا میسج آتے ہیں وہ زیادہ تر میرے لیے دعائوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ جن میں طوالتِ عمری اور عزت و توقیر میں(مزید) اضافے کی دُعا بطور خاص شامل ہوتی ہے، حالانکہ طوالتِ عمری کی دعا گھوڑے پر مزید کاٹھی ڈالنے کے مترادف ہے جبکہ جتنی ایک شریف آدمی کی عمر ہونی چاہیے میں اس سے زیادہ ہی گزار چکا ہوں۔ منقول ہے کہ ایک انگریز کی 90 ویں سالگرہ منائی جا رہی تھی تو مدعوئین میں سے ایک صحافی نے ان سے لمبی عمر کا راز پوچھا تو موصوف نے جواب دیا، ''پرہیز‘‘!
''پرہیز سے آپ کی کیا مراد ہے؟‘‘ صحافی نے وضاحت چاہی تو انہوں نے کہا
''میں نے ساری عمر شراب کو ہاتھ نہیں لگایا‘‘۔
اتنے میں ساتھ والے کمرے سے برتن توڑنے اور مغلظات بکنے کی آوازیں آنے لگیں تو صحافی نے پوچھا، یہ کیا ہے؟ تو موصوف بولے: ''یہ میرے والد صاحب ہیں، شراب پی کر اسی طرح کی حرکتیں کرتے رہتے ہیں‘‘۔ اب آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ میری لمبی عمر کا راز پرہیز ہے یا بد پرہیزی؟
اور جہاں تک عزت وغیرہ میں اضافے کا سوال ہے تو یہ اللہ کی طرف سے ہے، وہی عزت بھی دیتا ہے اور ذلت بھی، اس لیے میرا خیال ہے کہ اس کے لیے دعائیں مانگنا اس کے کام میں مداخلت کے برابر ہے ‘اگر اس نے عزت دینی ہے تو کوئی اس میں رُکاوٹ نہیں ڈال سکتا ‘جتنی بھی دعائیں مانگتے منگواتے رہیں!
اور اب خانہ پُری، یعنی بھرتی کے لیے یہ تازہ غزل:
جو دینا چاہتے ہو صدمات جانتا ہوں
ہر شے سمجھ رہا ہوں، ہر بات جانتا ہوں
حالات شہر کے تم بدلو گے کیا کہ اس کے
جو کر چکے ہو میں وہ حالات جانتا ہوں
نظروں میں ہیں، تمہارے یہ خیر خواہ سارے
دو چار ہی نہیں میں چھ سات جانتا ہوں
جو چند نیک خُو ہیں کرتا ہوں قدر اُن کی
بد ذات جو ہیں اُن کو بد ذات جانتا ہوں
کیسے اُلجھ رہے ہیں دھاگوں کے ساتھ دھاگے
کیسے گزر رہے ہیں دن رات جانتا ہوں
کیونکر گھٹی ہے عزت اس کی خبر ہے مجھ کو
کیونکر بُلند ہوں گے درجات، جانتا ہوں
جو بڑھ کے چھین لوں گا، حق ہے اُسی پہ میرا
میں مفت میں ملے کو خیرات جانتا ہوں
کیڑے نکالتے ہیں جو میری شاعری میں
میں تو اسے بھی کوئی سوغات جانتا ہوں
غالبؔ کے ساتھ میرا جھگڑا نہیں ظفرؔ کچھ
میں ہر طرح سے اپنی اوقات جانتا ہوں
آج کا مقطع
اب اس میں گردِ سفر کا قصور کیا ہے، ظفرؔ
روانہ میں ہی اگر کارواں کے بعد ہوا