میرے پاس تو یہاں اخبار آتا ہی تاخیر سے ہے‘ تاہم کراچی سے جناب عزیز خاں نے نشاندہی کی ہے کہ کالم بعنوان''ایک نظریاتی کارکن کی سرگزشت‘‘ میں مصنف رانا محمد اظہر کا نام چھپنے سے رہ گیا ہے جس کا ان کے ساتھ ساتھ مجھے بھی بے حد افسوس ہے۔ کالم میں گنجائش ہی اتنی تھی ورنہ رانا صاحب پر تو ایک پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے جبکہ خود مجھے بھی ان کے ساتھ کام کرنے کی سعادت حاصل رہی ہے اور وہ اس طرح کہ جب لاہور میں تاسیسی اجلاس کے بعد اوکاڑہ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی تو اس کے لیے رانا صاحب شہر کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے اور خاکسار اس کا سینئر وائس پریذیڈنٹ۔
اُس وقت اوکاڑہ میں نظریاتی لوگ تو میرے سمیت کم ہی تھے اور زیادہ تر نیم نظریاتی ہی سمجھ لیں کیونکہ جو کٹّر نظریاتی نہیں بھی تھے وہ سٹیٹس کو کے مخالف اوربھٹو صاحب کی طلسماتی شخصیت‘ اسلامی سوشلزم‘ مساوات اورروٹی کپڑا اور مکان جیسے نعروں سے متاثر تھے‘ ورنہ رانا صاحب کے علاوہ دو چار ہی ایسے حضرات تھے جنہیں صحیح معنوں میں نظریاتی کہا جا سکتا ہے جن میں کامریڈ عبدالسلام‘ سلیم باغی اور حشمت لودھی بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ حتیٰ کہ 1970ء کے انتخابات میں جن لوگوں کو ٹکٹ دیے گئے ان میں سے ایک بھی
اس معیار پر پورا نہیں اترتا تھا جبکہ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے ٹکٹ یافتگان حاجی محمد صادق‘ رائے میاں خاں کھرل‘ حاجی محمد یار خاں لاشاری‘ رانا اکرام رباّنی اور شیخ محمد ریاض‘ جو اوکاڑہ شہر کے لیے صدر منتخب ہوئے تھے سمیت کوئی بھی نظریاتی کہلانے کا حقدار نہ تھا۔ ایک سٹڈی سرکل بھی قائم تھا جس میں پروفیسر سلیم باغی سوشلزم پر لیکچر دیا کرتے تھے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ مندرجہ بالا حضرات جو پارٹی ٹکٹ پر کامیابی سے ہمکنار ہوئے تھے‘رانا اکرام ربانی کے سوا بعد میں کبھی اسمبلی کا منہ نہ دیکھ سکے بلکہ اس میں نیا خون شامل ہوتا گیا جس میں رائو سکندر اقبال کا نام بطور خاص شامل ہے جو دوبار منتخب ہوئے اور دونوں بار وفاقی وزیر کا قلمدان حاصل کیا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ دوسری بار رائو صاحب کامیاب تو پارٹی ٹکٹ پر ہوئے لیکن بعد میں جنرل مشرف کے کہنے پر ق لیگ میں شامل ہو گئے اپنے گروپ کے ساتھ۔ چنانچہ اس کے بعد انہوں نے جو الیکشن لڑا ‘اس میں ایک نہایت غیر معروف شخصیت نے انہیں ہزاروں کی لیڈ سے ہرا دیا! البتہ چونکہ سابقہ کلاس فیلو ہونے کی بنا پر جنرل صاحب کے منظورِ نظر تھے‘ اس لیے اپنے عہد میں وافر فنڈز حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور شہر میں متعدد یادگار کام بھی کروا گئے۔
رانا صاحب جو آج کل ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں‘ خاموش طبع ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سنجیدہ طبیعت کے بھی مالک تھے۔ مثلاً میں نے انہیں کُھل کر ہنستے ہوئے نہیں دیکھا۔ قریبی گائوں میں رہائش تھی جہاں وہ کچھ رقبے کے بھی مالک تھے۔ گائوں سے بائیسکل پر آتے جسے ان کا ملازم چلا کر لایا کرتا۔1977ء کے الیکشن میں انہیں شہر سے صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ بھی دیا گیا اور وہ کامیاب بھی ہو گئے لیکن وہ اسمبلی تھوڑے دن ہی قائم رہ سکی اور دوبارہ الیکشن کا ڈول ڈالا گیا لیکن جنرل ضیاء الحق نے چھابا ہی اُلٹا دیا۔
پارٹی میں‘ جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ہے‘ نظریاتی کارکنوں کی تعداد آٹے میں نمک ہی کے برابر تھی جن میں سے کامریڈ عبدالسلام‘ پارٹی میں تو شامل نہیں تھے مگر اس کے بہی خواہ اور مشیر ضرور تھے ۔ تاہم یہ بات انتہائی افسوس کے ساتھ نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ پارٹی میں سوشلزم کی گاڑی چند قدم بھی آگے نہ چل سکی جس کی سب سے بڑی وجہ یہ رہی کہ پارٹی نے مرکز میں ہی رجعتی رویّہ اختیار کر لیا تھا اور جے اے رحیم وغیرہ جیسے نظریاتی لوگ ایک ایک کر کے پارٹی کو خیر باد کہہ گئے‘ حتیٰ کہ خود بھٹو صاحب آخری دنوں میں پینترہ بدل کر قریشیوں‘ کھوسوں اور نوابزادوں کے پہلو میں جا بیٹھے جن کے خلاف پارٹی نے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ یہ شعر اُسی زمانے کا ہے ؎
ہم نے جدوجہد کرنی تھی ظفر جن کے خلاف
وہ سبھی آ کر ہماری صف میں شامل ہو گئے
وہ دن اور آج کا دن‘ سوشلزم کے نام لیوائوں میں اضافے کی بجائے کمی ہی ہوتی چلی گئی حتیٰ کہ انجمن ترقی پسند مصنفین جو کسی زمانے میں دائیں بازو اور استعمار کے خلاف ایک مضبوط تحریک ہوا
کرتی تھی‘ اس کا بھی کبھی نام ہی سننے میں آتا ہے۔''سویرا ‘‘اور'' ادب لطیف‘‘ جیسے موقر رسالے جن کی پیشانی پر ''ترقی پسند ادب کا نمائندہ ‘‘جیسے الفاظ چھپے ہوا کرتے تھے‘ انہوں نے بھی چولا بدل لیا۔ مثلاً ادب‘ آرٹ اور کلچر کے نقیب ہو کر رہ گئے۔ لاہور سے اب کسی قابل ذکر بائیں بازو کے پرچے کا نام و نشان نہیں ملتا۔ زیادہ سے زیادہ ہفت روزہ ''ہم شہری‘‘ ہے یا ملتان سے سہ ماہی ادبی جریدہ ''انگارے‘‘ اپنی پیشانی اس سلوگن سے سجائے ہوئے ہے۔لاہور سمیت انجمن ترقی پسند مصنفین کے اجلاس مختلف شہروں میں اب بھی منعقد ہوتے ہیں لیکن ان میں بھی وہ زور شور نہیں ہے۔ ترقی پسند سوچ رکھنے والے شاعر‘ ادیب اب بھی موجود ہیں اور وہ اپنے ہونے کا احساس بھی کم و بیش دلاتے رہتے ہیں بلکہ میڈیا میں کٹر قسم کے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن چونکہ دائیں بازو کے علمائے کرام لبرل ازم کے لفظ سے ہی الرجک ہیں اور سیکولرازم کو لادینی اور مذہب مخالف نظریہ قرار دے دیا گیا ہے‘ اس لیے بائیں بازو کی آواز خاصی دب کر رہ گئی ہے۔
آج کا مقطع
ہیں جتنے دائرے نئی ٹی شرٹ پر، ظفرؔ
سوراخ اُسی قدر ہیں پُرانی جُراب میں