یہ ایک انتہائی دلچسپ کتاب ہے جس کی تحسین ہم کافی پہلے بھی کر چکے ہیں اور اب ہمارے پاس نہیں تھی‘ چنانچہ شاہ صاحب سے دوبارہ منگوائی ہے جو ان کا ذاتی اور اکلوتا نسخہ ہے اور عاریتاً دیا ہے۔ اسے دوبارہ شائع ہونا چاہیے۔ فکشن ہائوس کو اس طرف توجہ دینی چاہیے جو ان کی کتابیں پہلے بھی چھاپ چکے ہیں بلکہ یہ کتاب بھی انہی سے دستیاب ہو سکتی ہے جو کہ مبارک اردو لائبریری محمد آباد تحصیل صادق آباد نے چھاپی اور اس کی قیمت 150 روپے رکھی گئی۔ صادق آباد میں جو زبان بولی جاتی ہے وہ ایک طرح سے سرائیکی اور سندھی کا مکسچر ہے۔ مصنف کچھ اتنے پڑھے لکھے بھی نہیں ہیں لیکن اتنی اعلیٰ اور عمدہ اردو آپ کو بہت کم کہیں نظر آئے گی۔ انداز بیاں سونے پر سہاگہ ہے۔ یہ سفرنامہ ان دنوں کی داستان ہے جب مصنف اپنے بے تکلف گہرے دوست اور معروف اور سینئر شاعر رئیس امروہوی کے ہمراہ بھارت کی سیر کے لئے گئے تھے اور کم و بیش ایک ماہ وہاں بسر کر کے آئے تھے۔ سو اس میں لطفِ سخن کے ساتھ ساتھ بعض دلچسپ اطلاعات بھی دستیاب ہوتی ہیں جو قارئین کے لیے بالکل نئی بھی ہوں گی۔ اس کتاب میں سے چند اقتباسات :
سفر کرنے کے ہر ایک کے، ہم سب جانتے ہیں کہ اپنے اپنے طریقے ہیں۔ مثلاً میں ہوں۔ موٹر نہ ہو تو بس میں قاعدے قرینے سے سوار ہونے کو جی چاہتا ہے۔ ہجومِ عاشقاں میں گھس پڑنا اور گتھم گتھا ہو جانا مجھے نہیں آتا۔ قطار بنانے کا حق اپنے یہاں جانتے تو سب ہیں، بناتے کبھی نہیں۔ لہٰذا ایک دو بسیں تو یونہی ہاتھ سے نکل جاتی ہیں۔
تیسری چوتھی بس میں سوار بھی ہو گئے تو اب کرسیوں پر لپک کے، ٹانگ اڑا کے کسی کو لتاڑ بلکہ پچھاڑ کر قبضہ جمانا بھی ایک پہلوانی ہے۔ میں ایک نحیف الجثہ، زور آزمائی کون کرے۔ یہی حال ریل گاڑی میں ہوتا ہے۔ تین تین گھنٹے کھڑے کھڑے گزر گئے۔ پائوں پسارے نیم دراز مسافروں کو تکتے رہنا۔ کسی نے کونے کھدرے میں اٹک جانے کی دعوت دے دی تو فبہا،بہ صورت دیگر کبھی ایک اور کبھی دوسری ٹانگ پربگلابنے رہیے‘ یہ تو ہمارے اچھو میاں ہیں‘ بس ہو یا ریل‘ لڑ جھگڑ کر، سوتوں کو جگا کر دھرنا دے ہی بیٹھتے ہیں۔ کہنا یہ ہے کہ ہمیں تو اپنے ہی زور بازو اور دست کرامت سے سفر کے جملہ چھوٹے بڑے مراحل طے کرنا پڑتے ہیں۔ (صفحہ 52)
منیجر نے کمرہ خالی کیا‘قلم اٹھایا ہی تھا کہ بسٹ دوبارہ آیا اور بتایا کہ آپ کے ساتھیوں کے کمرے میں تو شور محشر چونک اٹھا ہے۔ مشاعرہ برپا ہے۔ چلو چل کے دیکھنا چاہیے۔ کیا دیکھتے ہیں‘ گلزار دہلوی‘ زتشی لہک لہک کر شراب کی شان اور اردو کے مان میں رباعیات پڑھ نہیں برسا رہے ہیں۔ رئیس صاحب اور اختر فیروز خوب پی کر سوئے تھے ۔ جگائے گئے تو براحال۔ بالکل ادھ موئے جھول رہے ہیں‘ واہ واہ سبحان اللہ کا شور بھی مچاتے جاتے ہیں اور تینوں لپٹ چمٹ بھی رہے ہیں بلکہ گلزار جو خود بھی چڑھائے ہوئے ہیں‘ لمبی زبان نکال کر جوش محبت میں مہمانوں کو ایک طرح سے چاٹ بھی رہے ہیں...(صفحہ 54 )
ایک نوعمر شاعر پرویزکاکوروی شعر پڑھ کر جانے لگے تو کنور صاحب نے فرمایا‘ یہ صاحبزادے یہی غزل آج سے چند برس پہلے جب ان کی مسیں بھی نہ بھیگی تھیں، لکھنو میں اسی طرح بھائی سجاد شعر سنیے گا، بھائی محمود شعر سنیے گا، کہہ کر سنا رہا تھا تو میں نے کہا بیٹے تمہاری عمر ہی کیا ہے، تم تو کہہ سکتے ہو‘ بہن یہ شعر سنیے۔ باجی یہ شعر سنیے تمہیں کوئی کچھ نہ کہے گا اور اس وقت تو کنور صاحب بے تکلفی کی تمام حدیں توڑ گئے جب مشاعرے میں موجود ہلال سوہاروی اور ہلال رامپوری کی باری آئی۔ فرمایا، اس وقت ہمارے درمیان دو ہلالی ہیں‘ اب یہ تو وہی بتا سکتے ہیں کہ کون حرامی اور کون حلالی ہے۔ اب یہ خود فیصلہ کریں کہ کون پہلے پڑھے گا اور کون بعد میں۔ اگر خواتین شاعرات سے کہا جائے جو کم عمر ہو وہ پہلے پڑھے تو یہ تینوں کی تینوں آ جائیں گی (صفحہ 78 )
فکر تونسوی نے دیکھیے میری بیاض میں کیا لکھا ہے : میں جس گائوں میں پیدا ہوا وہاں میرے پیدا ہونے کی کوئی خاص ضرورت نہیں تھی کیونکہ اس گائوں میں پہلے ہی بچوں کی خاصی بڑی تعداد موجود تھی حتیٰ کہ بلیاں اور بکریاں بھی بچے پیدا کر دیا کرتیں۔جس دن میری پیدائش ہوئی اسی دن ہمارے گھر کی بکری نے بھی ایک بچے کو جنم دیا اور پھر میں نے دیکھا کہ میں اور بکری کا بچہ دونوں اسی بکری کا ہی دودھ پیا کرتے تھے۔ (صفحہ 161)
درگاہ صابری دریا گنج دہلی کے سالانہ عرس کی محفل سماع تھی جس میں مولوی صاحب بھی بارعب اور پر وقار انداز میں سب سے آگے تشریف فرما تھے۔ ایک قوال جس کا نام بخشا تھا نے فارسی کلام پڑھنا شروع کیا‘ ان کے کلام کا پہلا شعر یہ تھا ؎
صبا بسوئے مدینہ رُوکن، زیں دعاگو، سلام برخواں
بگِردِ شاہِ رسلؐ بگردد زسمتِ ذرہّ پیام برخواں
اس شعر پر مولانا کو کیفیت طاری ہو گئی اور قوال کو تقریباً ایک گھنٹہ تک اس سے آگے نہ بڑھنے دیا۔ قوال بھی اسی شعر پر تکرار کرتا رہا۔ جتنے پیسے پاس تھے، ایک ایک کر کے سب دے ڈالے‘ پیسے ختم ہو گئے تو سر سے ترکی ٹوپی اتار کر دے دی۔ پھر جسم سے واسکٹ اتار کر دے دی اور پھر کرتہ بھی اتار کر دے دیا۔ جب کیفیت ختم ہوئی تو بنیان اور پاجامے میں گھر لوٹے تو بیوی نے اس حال میں دیکھ کر دریافت کیا کہ کپڑے کیا ہوئے؟ آپ نے کہا قوال کو دے دیئے۔ مولوی صاحب کے اس جواب پر بیوی نے جل کر کہا، پاجامہ بھی دے آتے۔ پھر کچھ عرصہ کے بعد یہ سوچ کر کہ بیوی ان کی ہم مذاق نہیں ہے‘ اُسے طلاق دے دی (صفحہ 21)
ہندو مسلم شادیوں کا ذکر بھی آیا۔ ایک صاحب کا نام لیے بغیر بتایا کہ بیٹی نے ان سے کہا، میرے پسندیدہ نوجوان میں سبھی خصوصیتیں ہیں۔ خوبصورت ہے، پڑھا لکھا ہے، شریف ہے، مالدار ہے، اور کیا چاہیے۔ باپ نے کہا مسلمان نہیں ہے۔ لڑکی نے پلٹ کر کہا، اچھا تو میں مسلمان ہوں یہ تو مجھے آپ نے بتایا۔ میں نے اس گھر میں کوئی مسلمانوں والی بات نہیں دیکھی۔ ذاکر حسین کا بھی یہی حال تھا۔ نواسی کی پشت پناہی کی حالانکہ باپ خلاف تھا۔ اپنے بدصورت سیکرٹری سے شادی کر دی۔ خیر طلاق بھی ہو گئی اور دوسری کا تو مسلمان ہو گیا تھا۔ بس سیکولرازم کا بھوت تھا ان پر۔ میں دل ہی دل میں سوچتا رہا یہی حشر رشید احمد صدیقی کا ہوا لیکن وہ بیچارے تو سیکولرازم کے مریض نہیں تھے۔ ان کی بیٹی سلمی ہی خبیث الفطرت ثابت ہوئی۔ پاکستان بھی پچھلے دنوں آ چکی ہیں۔ اپنے دولہا کرشن چندر کے نام اور عنوان سے کہیں متعارف نہیں کرائی گئیں۔ رشید احمد صدیقی کی افسانہ نگار بیٹی اپنے منہ سے بھی کہیں نہیں پھوٹیں (صفحہ 236 )
آج کا مطلع
ملا تو منزلِ جاں میں اتارنے نہ دیا
وہ کھو گیا تو کسی نے پکارنے نہ دیا