"ZIC" (space) message & send to 7575

تازہ ’’فانوس‘‘ میں چھپی حامد یزدانی کی نظم

مرے لاہور (ایک کولاژ)
مرے لاہور/تم کب اپنے بوجھل کندھے اُچکائو گے/یکسر بے خیالی میں.../کرو گے بات اس ناراض ٹیلیفون سے/ بتلائو گے، امریکہ سے آئے صحافی کو/ کہ آخر لوگ کیوں اتنے خفا ہیں/خوش نما بحران سے/کیوں ملگجے مزدور بچوں کی ہنسی/ سیلاب بھر بہتی ہوئی ندی/ ابھی پکی سڑک کی خام وحشت میں بھٹکتی ہے/ ادھورے امتحان سکول کے ٹاٹوں پہ بکھرے ہیں/ وہ چوبی تختیوں سے جھولتی کالی دواتیں/سولہ کاالٹا پہاڑہ/ میز کے نیچے جھجکتے، کسمساتے حرف و معنی کے نئے رشتے/جہالت کا سبق ازبر نہیں ہوتا!/سویرا دھیرے دھیرے چھپ رہا ہے/ جون کے پہلو میں/ پبلک لائبریری کے احاطے میں/ فضا میں آکسیجن کھوجتی چڑیا کی حیرانی/ کہ لارنس گارڈن کے ڈھلتے پیڑوں کو چِڑاتی/ گورنمنٹ کالج کے اوول پر چمکتی دھوپ/ آخر ایک سی کیوں ہے!
2:
دبکتی چھائوں میں دیوار روتی ہے/کسی اخبار کے دفتر میں دبکا لاتعلق سا پر/ٹوٹے ہوئے سگنل، ربڑ جیسا سپاہی/ کاغذی بندوق، مسروقہ خبر/رہگیر جانے کیوں ہراساں ہیں!/ چہکتاتائیوان کا نوکیا/پھر دن دہاڑے چوک چوبرجی میں لٹ جاتا ہے، وہ تنخواہ گنتے ہیں/ مسلسل گنتے جاتے ہیں/ چٹختی انگلیاں جھڑنے لگی ہیں/ریز گاڑی کی طرح/ روداد جاری ہے/اسی پسماندہ چینی کی/ شکردانی سے لے کر ڈاک کے خالی لفافے تک/اڑھائی سو روپے،ماہانہ اخراجات کے گنجھل/کہ اک عددی کتھک/اب اک غزل کے تیس ماہِ نو سے ملتے ہیں/ سنا ہے ریڈیو پچاس دیتا ہے/تو جیتا کون؟/ساغر؟یا کوئی اقبال ساجد؟/چھوڑئیے یہ بعد میں سوچیں گے/پہلے، چینی والے اس لفافے کو تو تھیلے میں ذرا رکھ لیں/ وہ دیکھیں! چیونٹیاں آنے لگی ہیں۔
3:
منتخب ایواں کی چکنی سیڑھیوں سے لے کے/ سیکرٹریٹ کی سردراہداری تلک/ بیروزگاری کی چپکتی بھنبھناہٹ/ فائلوں میں رینگتے کچھ ملتجی سے/ سائلوں میں ڈھل رہی ہے/ خواہشوں کے موڑ مڑتی غیر ملکی/ گاڑیوں کی روشنی میں/شام عریاں ہے/ اکہتر اور پینسٹھ کے زمانے لد گئے...پھر بھی/ اندھیرا کیوں نہیں جاتا؟/ یہاں میلے تو ہوتے ہیں چراغاں کیوں نہیں ہوتا/ سٹاک ایکسچینج کی لپٹیں معاشی پالیسی کو بوسہ دیتی ہیں/ حقارت سے/ شکستہ پٹڑیاں، رفتہ صدی کا زنگ/ گورے، نیم گورے صاحب اور پس خوردہ آزادی کے نعرے/ یاکسلمندی؟ تھکن؟ پامال سانسیں نیلے پیلے قمقمے سے/ شیرشہ سوری کے رستے میں دراڑیں اگ رہی ہیں/ جنگِ آزادی سے رنگ خو اب تک، بس ایک نارنجی دیاسا بڑ بڑاتا، سوئے اسٹیشن کے پیچھے/ گاڑیوں کی تیز گامی سے پرے/ کچھ تار بجلی کے/ سڑک کے دونوں جانب، آرپار/ جمع ہوتے، ضرب کھاتے، بھورے کوے/ شہر بھر کی بے لباسی گن رہے ہیں/ چاہ میراں سے نفیرآباد تک/ زندہ دلوں کی یاد/ وہ اقبالؔ، دانشؔ، فیضؔ، شورشؔ، تاجورؔ، یزدانیؔ، عابدؔ اور ندیمؔ/ امروز محفل، ریڈیو مجلس، بیاض، امروز، مشرق اور فنون/ جھلملاتے عکس سارے/ عشق کے مارے، وہ پیارے کیا ہوئے؟/اب بالز اک چپ ہے/ ادب چوپال میں سمٹا ہے یا/بیٹھک کی زینت ہے/ سعادت جی!/ منیر، اشفاق، 
انجم اور جالبؔ کی نشستیں اب بھی خالی ہیں/ سراجؔ، ارشاد، خالدؔ اور ضیاؔ، جاوید تابش/ اصغرؔو امجدؔ، وسیم و طارقؔ و مختارؔ سارے یار باہر منتظر ہیں/ گیلی ریکنگ پر/ نتیجہ آنے والا ہے/ سراسیمہ ساٹی ہائوس، چائے.../چائے کا کیا ہے؟ سٹوڈنٹس اون چوائس سے بھی پی لیں گے/ مگر شیزان کے ملبے کو ڈھونڈیں کس کی بستی میں/ خجستہ مال کو شہ راہ کا طعنہ کھائے جاتا ہے/ ترانہ خطۂ لاہور کاکس پان کے کھوکھے پہ بجتا ہے/ دھنیں، سردی کی راتیں بن گئی ہیں/ پیالوں میں کھنکتی ایک آہٹ/یا کہیں امجدؔ علی کی گنگناہٹ
4 :
نیشنل سنٹر، عجائب گھر، نمائش/چھت کی رنگینی میں اُلجھے صادقینی عکس کیا جانیں/ کہ ضلعی ناظمین بہتر رہیں گے یا میئر/ اُن کو بھلا کیا فرق پڑتا ہے/ زیادہ کون چلتا ہے،ظفرؔ اقبال کی غزلیں کہ کالم خالد احمد کا؟ نیا قانون، برقعہ... اور اب/ ہر ایک منٹو آن لائن ہے/ ابھی تک سائبر کیفے میں کتنی بھیڑہے!/چیٹنگ کے رسیا پوچھتے ہیں/سالِ نو کا ریٹ کتنا ہے؟/ بھٹکتے حرف اور کیبل کا کیا جھگڑا ہے/ معلومات کا اندھا خزانہ لُٹ رہا ہے، پر لٹیرا کون ہے؟ ابکائی بدرو سے بجٹ تک پھیل جاتی ہے/ سی این این اور بی بی سی کہاں ہیں اب؟/ تھیٹر بند ہے/ لیکن مسلسل کھیل جاری ہے/ کہانی اپنا راوی ڈھونڈتی ہے/ ریت سے لپٹی پتنگوں کو ہوا ملتی نہیں/ دیکھو، یہ آندھی کی دعائیں کون کرتا ہے؟/ کہ کھڑکی 
میں پڑے کاغذ اُڑانے کو تو ٹیبل فین کافی ہے/ نشستِ شاعری برپا ہے قلعے میں/ سیاسی قیدیوں کی سسکیاں بھی داد دیتی ہیں۔
5:
خبر کی کھوڑ بھرتی میڈیا کوریج/ کچہری کی طرح کیوں لال ہے مسجد؟/ اذانیں ایک جیسی مختلف ہیں/ داتا صاحب سے سمن آباد تک/ بہرے سپیکر بانٹتے ہیں فرقہ وارانہ دھماکے یا دھمال!/ یہ آخر کون ہیں جو خانہ جنگی چھانتے ہیں جنگ سے/ اور کیش کرواتے ہیں چیک اب بھی/ لٹے قومی خزانے سے/ قیامِ امن کے، قومی ثقافت اور شرافت کے اثاثے/ عسکری کھاتوں میں پس انداز کرتے ہیں/ شمالی گھاٹیوں کی آتش بازی مری گلیوں تک آ پہنچی/ دُھواں سا پھیل جاتا ہے/ مزنگ اڈے سے ماڈل ٹائون/ نسبت روڈ سے شہ راہِ قائد تک/ کہ موٹروے پہ بھی ہے ناشناخت دھند کا ڈیرا/ درانتی سے ستاروں تک وہی چہرا/ کبھی اے کاش ناگی یہ بھی منوؔ بھائی سے پوچھے/ کہ آخر حزن کب اس شہر کے موسم کو چھوڑے گا؟/ سیاسی پوسٹر/ اور جھنڈیاں بھی جل چکیں کب کی/ سوالی ہڈیاں بھی گل چکیں کب کی/ مگر یہ کیا ضیافت ہے/ کہ اب تک ختم ہونے میں نہیں آئی۔
آج کا مطلع
روز سرِ راہ اُس کا ملنا ممکن ہے مجبوری ہو
لیکن اب تو یوں لگتا ہے جیسے بہت ضروری ہو

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں