یہاں کی تازہ ترین خبر یہ ہے کہ سٹرس کے پودوں پر لگنے والے پھل چنے کے دانے کے برابر ہو گئے ہیں۔ عام چنا نہیں بلکہ کابلی یعنی بڑا چنا‘ جو آلو چھولے میں استعمال ہوتا ہے اور جس کی اپنی ایک تاریخی اہمیت بھی ہے۔ امرتسر سے ہجرت کر کے آئے ہوئے یہاں ایک صاحب ہوا کرتے تھے‘ جن کا نام یعنی لقب تو کچھ اور تھا‘ لیکن خوفِ فسادِ خلق سے انہیں سب حاجی ''ح‘‘ کہا کرتے تھے۔ ایک بار وہ فٹ پاتھ پر آلو چھولے کی ریڑھی لگائے ہوئے تھے کہ ایک دیرینہ آشنا کا وہاں سے گزر ہوا جس نے پوچھا‘ حاجی‘ کیا حال ہے اور آج کل کیا کر رہے ہو تو وہ بولے: ''آلو چھولے بیچتا ہوں‘‘۔
''کچھ بچ رہتا ہے؟‘‘ دوست نے پوچھا‘ تو ستم ظریف نے جواب دیا: ''ہاں‘ آدھا سودا بچ رہتا ہے!‘‘
ایک اور صاحب کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ لکشمی چوک سے آلو چھولے کھا کر پی سی ہوٹل کے سامنے کھڑے ہو کر خلال کیا کرتے تھے!
مزید اطلاع ہو کہ ان کا رنگ گہرا سبز ہے‘ یعنی پتوں سے بھی زیادہ گُوڑھا سبز‘ اور خدا کی قدرت دیکھیے کہ اسی گہری سبز رنگت نے آہستہ آہستہ پیلی اور پھر گہری نارنجی ہوتے جانا ہے‘ اندر قاشیں بنتی جانا ہیں اور قاشوں میں رس بھرتے جانا ہے‘ جس کا جوس دنیا کے لذیذ اور مفرح ترین مشروبات میں شمار ہوتا ہے۔ اس پھل کا ایک اضافی لطف پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ یہ پھل پک کر اور پودوں پر لگے ایک عجیب ہی منظر پیش کرتا ہے! حتیٰ کہ انہیں توڑ کر کھانے کی نسبت دیکھتے رہنے میں زیادہ مزہ آتا ہے۔
ایک اور ایسی ہی سرگرمی ہمارے پڑوس میں بھی جاری ہے جو کہ پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ ایک گھر تعمیر ہو رہا ہے اور فطرت کی تعمیر کی سرانجام دی ہوئی مندرجہ بالا تعمیر کی طرح‘ اس کی رفتار بھی کم و بیش وہی ہے۔ زمین ہموار ہوتی ہے‘ دیواریں کھڑی کی جاتی ہیں‘ کمرے بنتے ہیں‘ چھتیں ڈالی جاتی ہیں‘ دروازے کھڑکیاں لگتی ہیں‘ فرش بنتا ہے اور آخر میں یہ دیواریں پینٹ کی جاتی ہیں‘ جس طرح اللہ میاں آخری مرحلے پر پھل کو پینٹ کرتے ہیں۔
سُرخاب نے آج پھر جلوہ گری کی ہے اور وہ اس طرح سے کہ دونوں ''جی‘‘ الگ الگ بانس کی ٹہنی پر بیٹھے نظر آئے۔ کوئی ساڑھے پانچ بجے ہوں گے اور واک کے بعد میں ہلکی پھلکی ایکسرسائز شروع کرنے ہی لگا تھا کہ اس جوڑے پر نظر پڑی۔ دونوں ''جی‘‘ کچھ دیر بعد وہیں غائب بھی ہو گئے۔
خلافِ معمول تین پرندے مزید دیکھے یا سُنے۔ ایک تو بلبل تھی‘ جسے علامہ اقبال نے اپنی نظم میں مذکر باندھا تھا یعنی ؎
ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا
بُلبُل تھا کوئی اُداس بیٹھا
حالانکہ اس سے پہلے ایک استاد اسے مونث بھی باندھ چکے تھے‘ یعنی ؎
گلشن میں آگ لگ رہی تھی رنگِ گل سے میر
بُلبُل پُکاری دیکھ کے صاحب پرے پرے
اقبال ویسے بھی اہل زبان نہیں تھے اور یاروں نے ان کے کلام میں کئی غلطیاں بھی نکال رکھی ہیں؛ تاہم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جو پرندہ نظم کہتے وقت علامہ نے دیکھا تھا نر ہو‘ مادہ نہ ہو‘ یعنی شاعر نے پہلے اس کی تذکیر و تانیث کے حوالے سے تسلی کر لی ہو۔
بُلبُل ہوتی تو عام چڑیا جتنی ہی ہے‘ اور رنگ رُوپ بھی بُھوسلا نہیں بلکہ ہلکا سلیٹی‘ لیکن اس کی اصل نشانی اس کی دُم کے نیچے کا سُرخ نشان ہے اور اسی وجہ سے اسے گلدُم کہتے ہیںِ۔ یہ وصف بندر میں بھی دستیاب ہے لیکن اسے گلدُم نہیں کہا جاتا‘ جو سراسر زیادتی ہے۔ اس کے علاوہ کوئل کی آواز تھی جو ہمارے کہیں پڑوس ہی سے آ رہی تھی۔ اس کی آواز کی تو شعراء نے بھی بڑی تعریف کی ہے؛ اگرچہ کوّے کی طرح ہوتی کالی کلوٹی ہی ہے؛ چنانچہ یہ دو آوازیں ہی نکالتی ہے یعنی ایک نارمل اور دوسری حسبِ ضرورت ذرا تیکھی۔ شاید اپنے سپائوس کو بلانے یا اس کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ایسا کرتی ہو یا کرتا ہو!
علاوہ ازیں قریب و دور سے قمری کی آواز آئی‘ جسے ہمارے ہاں ٹیٹرو بھی کہتے ہیں۔ خاکستری رنگ کی ہوتی ہے تقریباً بُلبُل کے رنگ جیسی‘ یعنی بقول غالب ؎
قمری کف خاکستر و بُلبُل قفسِ رنگ
اے نالہ نشانِ جگر سوختہ کیا ہے
یہ فاختہ کا پاکٹ ایڈیشن ہے جو اب تقریباً ناپید ہے کیونکہ یار لوگوں نے اسے جال کے ذریعے پکڑ پکڑ کر اور ہوٹلوں کو بیچ بیچ کر اس کا کم و بیش بیج میں مار دیا ہے جو وہاں بٹیر کہہ کر سرو کی جاتی تھیں۔ اس کا ناس مارنا شاید اس لیے ضروری تھا کہ اسے امن کی فاختہ کہا جاتا تھا‘ کیونکہ اب امن و آشتی قوم نے اپنے ذمے لے رکھی ہے!
اور‘ اب آخر میں ایس ایم ایس پر موصول ہونے والا اظہر عباس ہاشمی کا یہ نہایت خوبصورت شعر‘ بھیجنے والے کا نام درج نہیں تھا ؎
نہ اُس نے ہاتھ لگایا نہ ہم سے باتیں کیں
پڑے پڑے یُونہی خُود میں خراب ہو گئے ہم
پہلے خیال آیا کہ یہ ہمارے نیاز مند اظہر عباس کا شعر ہے جو شیخوپورہ میں ہوتے ہیں‘ لیکن اس وقت تک وہ ہاشمی نہیں تھے‘ شاید اب ہو گئے ہوں‘ تاہم اگر ایسا ہوتا تو وہ اس کی اطلاع ضرور دیتے۔ موصوف کے دو شعر سنئے ؎
یاد کا زہر دل میں پھیل گیا
دیر کر دی اُسے بُھلانے میں
بچھڑ کر تُجھ سے رویا تو نہیں میں
ذرا آواز بھاری ہو گئی ہے
البتہ اگر یہ ہاشمی صاحب کوئی اور ہوں تو براہ کرم اپنا اتا پتا بھی بتائیں اور اپنے مزید اشعار بھی ارسال کریں تاکہ بُہتوں کا بھلا ہو سکے۔
آج کا مقطع
جیسی بھی ہے یہ شاعری اچھی بری‘ ظفر
سچ پوچھے تو آپ کی شہرت زیادہ ہے