"ZIC" (space) message & send to 7575

محمد رسول اللہﷺ… مستشرقین کے خیالات کا تجزیہ

میں اردو سائنس بورڈ کا منصب سنبھالنے کے بعد لاہور کا باسی بن گیا‘ ورنہ گورنمنٹ کالج لاہور اور پاک ٹی ہائوس کے راستے سے اوکاڑہ کچہری جا نکلا تھا۔ یوں دو سے زائد عشروں تک شاعری اور کالم نویسی کا دال دلیا ہوتا رہا جو مفصل سے بعدازاں بھی جاری رہا۔ اپنے آبائی شہر اوکاڑہ کی علمی اور ثقافتی زندگی سے آگاہی اسلم طاہرالقادری صاحب ایڈووکیٹ کے ذریعے سے گاہے ہوتی رہتی ہے۔ حال ہی میں موصوف نے پروفیسر محمد اکرم طاہر کی تحریر کردہ کتاب ''محمد رسول اللہﷺ... مستشرقین کے خیالات کا تجزیہ‘‘ مطالعہ اور تبصرہ کے لیے ارسال کی ہے جو ادارہ معارف اسلامی منصورہ لاہور نے شائع کی اور اس کی قیمت 375 روپے رکھی ہے۔ یہ اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن ہے۔
میں بالعموم ایسے نازک موضوعات پر کچھ لکھنے کے بارے میں حد درجہ محتاط رہتا ہوں‘ مگر تاریخ کی سب سے بڑی شخصیت محمد رسول اللہﷺ پر کسی بھی نئے اور انوکھے انداز میں لکھی گئی تصنیف ہمیشہ ایک خوش آئند خبر کا درجہ رکھے گی۔ ویسے ریکارڈ کو درست رکھنے کے لیے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ 80ء کے عشرے میں مائیکل ہارٹ کی مشہور کتاب تاریخ کی سو موثر ترین شخصیات سامنے آئی تو اس کا مثبت اور بھرپور تعارف مولانا کوثر نیازی مرحوم نے ایک مؤقر قومی روزنامہ کے ذریعے قارئین تک پہنچایا۔ اس کتاب کے بارے میں کچھ منفی باتیں بھی پھیلائی جا رہی تھیں؛ تاہم اس کتاب کے مصنف کا پیغمبرِ اسلامﷺ کو تاریخ کی مؤثر ترین شخصیت قرار دینا بھی دراصل آپؐ کی لازوال عظمت کا کھلا اعتراف ہے۔
یہی وہ دور تھا جب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے چیلنج کے انداز میں کہا تھا ''حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواری تو یکے بعد دیگرے عین وقت پر ان کا ساتھ چھوڑ گئے لیکن پیغمبر اسلامﷺ کے صحابہ نے مسلسل غزوات میں جانثاری اور جانفروشی کی لازوال داستانیں رقم کیں‘‘۔
مستشرقین کی صدیوں پر محیط قلمی کاوشوں کے منفی پہلوئوں کا ذکر کرتے ہوئے مصنف نے لکھا ہے: ''آج بھی اہلِ مغرب کے لیے بہترین راہ یہی ہے کہ وہ اپنے آپ کو بھی علمی و فکری احتساب کے لیے پیش کریں اور تہذیبی نرگسیت کے دائرے سے باہر نکلیں۔ المیہ یہ ہے کہ حد سے زیادہ مادہ پرستی‘ آزاد جنسی اختلاط اور منشیات کے بے محابا استعمال نے مغربی اور یورپی معاشرے کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ معروف تجزیہ نگار اور سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کی خواہرِ نسبتی لورین بُوتھ نے مغربی طرزِ زندگی سے اپنی بیزاری کی یہی وجوہ بتائی ہیں۔ ظلم یہ ہے کہ اس کے قبولِ اسلام کے واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے مغربی پریس نے انکشاف کیا کہ یہ شروع سے ہی شدت پسند تھی‘ اسی لیے تو مشرقِ وسطیٰ کے دورے کرتی اور فلسطینی مسلمانوں کی کہانیاں لکھتی تھی۔ مشہور برطانوی صحافی یوآنے ریڈلے کئی ماہ تک افغانستان کے طالبان کی قید میں رہی۔ آزادی کے بعد اس نے قرآنِ حکیم کا مطالعہ کیا اور دولتِ ایمان سے سرفراز ہوئی۔ مغربی پریس میں کہا گیا کہ یہ سب کچھ ''سٹاک ہوم سنڈروم‘‘ کا کیا دھرا ہے‘ جس میں قیدی اپنے داروغہ جیل سے محبت کرنے لگتا ہے‘‘۔
کتاب میں ایک مقام پر سرسری طور پر ایک لطیفے کو پڑھ کر میں چونک گیا۔ بھلا ایک سنجیدہ کتاب میں اور وہ بھی سیرت پر‘ کسی لطیفے کی گنجائش کہاں نکل سکتی ہے۔ خیال تھا کہ یہ حصہ کتاب کے فنی نقائص میں سے ایک ہو سکتا ہے لیکن سیاق و سباق پڑھنے کے بعد یہ تاثر زائل ہو گیا۔ سب سے پہلے پس منظر جان لینا چاہیے پیغمبر اسلامﷺ پر نازل ہونے والی وحی کے ''دنیوی مآخذ‘‘ کی تلاش میں مستشرقین بعض اوقات بہت دور کی کوڑی لاتے ہیں۔ بات اس وقت بہت مضحکہ خیز بن جاتی ہے جب ایک ہی سانس میں باہم متضاد باتیں پڑھنے اور سننے کو ملتی ہیں۔ فری لینڈ ایبٹ نے اپنی کتاب''اسلام اور پاکستان‘‘ میں لکھا ہے: ''بعض لوگ کہتے ہیں محمدﷺ کا ایک یہودی اتالیق تھا جو کہ درست بات ہو سکتی ہے۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ عیسائی راہبوں سے واقف بلکہ متاثر تھے‘ یہ خیال بھی درست ہو سکتا ہے۔ کچھ اور لوگوں کا کہنا ہے کہ جس تجارتی معاشرے میں آپ رہتے تھے اس سے آپ نے مختلف مذاہب کا ایک متنوع تصور اخذ کیا۔ یہ بات بھی اپنی جگہ صحیح ہو سکتی ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ آپ نے خود کسی طبع زاد بات کا دعویٰ نہیں کیا‘‘۔
فری لینڈ ایبٹ نے اس بحث سے جو نتیجہ اخذ کیا ہے‘ اس بات سے قطع نظر اگر یہ پوچھا جائے کہ یہ تینوں باتیں بیک وقت کیسے صحیح ہیں تو جواب یہی ہونا چاہیے،'' ہاں یہ بات بھی درست ہے‘‘۔ اسی مناسبت سے مُلّا نصیرالدین کا مشہور لطیفہ بھی درج کیا گیا ہے کہ مُلا کے پاس ایک آدمی نے کسی کی شکایت کی۔ ملا نے جھٹ سے کہا: ''تم درست کہتے ہو‘‘۔ اس کے بعد مخالف فریق آیا اور اس نے اپنا موقف پیش کر دیا۔ ملا نے اسے بھی کہا: ''تم بھی درست کہتے ہو‘‘۔ ملا کی بیوی نے سٹپٹا کر کہا: ''آخر یہ دونوں اشخاص بیک وقت کیسے حق پر ہو سکتے ہیں؟‘‘ مُلا نصیرالدین نے فوراً جواب دیا: ''بے شک تم بھی درست کہتی ہو‘‘۔ ظاہر ہے علمی تحقیق کے نام پر غیر سنجیدہ طرز فکر کا جواب ایک خندہ استہزاء کے سوا کیا ہو سکتا ہے۔
ہمارے ہاں عام روایت یہ رہی ہے کہ مستشرقین کے سارے کام کو ہی دریا بُرد کر دینے کی بات کی جاتی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ بادلِ نخواستہ ہی سہی‘ مستشرقین کے ہاں بعض اوقات کام کی باتیں بھی مل جاتی ہیں۔ مصنف نے اس پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے: فنِ سیرت نگاری ایک مستقل فن ہے اور دوسرے علوم و فنون کی طرح اس میں ترقی اور ارتقا کے بہت امکانات پوشیدہ ہیں۔ نیز کسی بھی علم کی ترقی کے لیے نئے نئے سوالات کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ مستشرقین کو جہاں اس بات کا کریڈٹ ملنا چاہیے کہ ان کی وجہ سے بہت سے عظیم اسلامی مصادر اور مآخذ دریافت ہوئے اور انہیں جدید
اسلوب کی روشنی میں پیش کیا گیا‘ وہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ انہوں نے بعض نئے سوالات اٹھائے ہیں جن کا جواب جدید مسلمان علما و محققین کے ذمے ہے۔ ان سوالات کے جواب میں سیرت پاک کے بہت سے نادر گوشے دست یاب ہو سکتے ہیں جن پر متقدمین کی نظر نہیں گئی‘ ہجرتِ حبشہ ایک ایسا ہی موضوع ہے۔ دوسری بات جو کم اہم نہیں ہے یہ ہے کہ ہمارے متقدمین کے تیارکردہ دینی لٹریچر میں غالباً نادانستہ طور پر کہیں کہیں ایسی روایات بھی مل جاتی ہیں جن سے بدطینت مستشرقین کو اسلام اور پیغمبر اسلامؐ کے خلاف ہرزہ سرائی کا موقع مل جاتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمِ اسلام کی چیدہ شخصیات پر مشتمل کوئی اعلیٰ مجلس موجود ہو جو ایسی تمام روایات کو دینی اور علمی سطح پر مسترد کرنے کا حوصلہ رکھتی ہو۔ عملاً صورت حال یہ ہے کہ راوی اگر ثقہ ہو تو رطب و یابس‘ ہر نوع کی روایات کو قبولِ عام حاصل ہو جاتا ہے‘ خواہ اس کی زد کہیں بھی پڑ رہی ہو۔ ہمارے روایت پرست علماء کا رویہ اس ضعیف الاعتقاد خاتون کا سا ہوتا ہے‘ جس کو کسی نے ازراہ تفنن کہہ دیا کہ تم بیوہ ہو چکی ہو تو وہ رو رو کر ہلکان ہو گئی‘ حتیٰ کہ اپنے خاوند کے سامنے بھی اس نے یہی رٹ لگائے رکھی کہ میرا سہاگ لٹ گیا ہے۔ خاوند نے تنگ آ کر کہا: میرے ہوتے ہوئے تم بیوہ کیسے ہو سکتی ہو‘ جس پر عورت بولی کہ وہ تو ٹھیک ہے لیکن جس شخص نے مجھے یہ خبر دی ہے وہ راوی بہت معتبر ہے۔
آج کا مطلع
آثار کوئی چاند چمکنے کے بہت ہیں
اسباب ابھی دل کے دھڑکنے کے بہت ہیں

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں