کھجور
اسلامی میوہ کہلاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ اس کے کھانے سے گُناہ جھڑ جاتے ہیں‘ اور‘ اگر آپ ذیابیطس کے مریض ہیں تو خود بھی بہت جلد جھڑ جائیں گے۔ اس کے پیڑ پر شاعری بھی کی گئی ہے مثلاً ؎
علم اک اونچی لمبی کھجور ہے
چڑھ جائے تو بیڑا پار ہے
گر پڑے تو چکنا چور ہے
کھجوریں تو اس کی اضافی پیداوار ہیں‘ اس کا اصل فائدہ یہ ہے کہ اگر کوئی آسمان سے گرے تو اس میں اٹک جاتا ہے‘ حالانکہ اس میں اٹکنے سے تو بہتر تھا کہ گرنے والا آسمان ہی پر رہتا۔ ہدایت ہے کہ کھجوریں کھاتے جائیں اور اس کی گٹھلیاں سنبھال کر رکھتے جائیں تاکہ آپ کے ختمِ قل پر پڑھ لی جائیں۔ اسے کان میں رکھیں تو یہ تھوڑی دیر میں کن کھجورا بن جاتا ہے۔
مونگ پھلی
غریب نواز میوہ ہے۔ آفتاب اقبال کی ریسرچ کے مطابق یہ چھ منزلہ بھی ہوتی ہے یعنی ایک مونگی پھلی سے چھ دانے نکلتے ہیں۔ یہ امریکی بیج ہے اور اس کا ذائقہ بھی زیادہ مزیدار نہیں ہوتا۔ بیکری والے اسے بادام کی جگہ بسکٹوں میں استعمال کرتے ہیں۔گائوں میں ہمارے ایک بزرگ ہوا کرتے تھے جہاں ہمارے ایک عزیز ہی کی چھوٹی سی دُکان بھی تھی۔ آتے جاتے وہ دکان پر رُکتے تو دکاندار انہیں ان کی پسند کی کوئی چھوٹی موٹی چیز کھانے کو دے دیتا مثلاً مرنڈہ یا ٹانگر وغیرہ۔ ایک دن وہ آئے تو دکاندار نے پوچھا‘ ''بابا جی! آج کیا کھائو گے؟‘‘
اس پر بابا جی بولے‘ ''آج تو کوئی طاقت والی چیز دو‘‘
''بابا جی! کیا دوں؟‘‘ دکاندار نے پوچھا۔
''مونگ پھلی دے دو‘‘ باجی نے جواب دیا۔
اس سے ثابت ہوا کہ یہ طاقت کا منبع بھی ہے۔
چھوہارہ
اسے کھجور کا اسم مذکر بھی کہہ سکتے ہیں۔ شادی پر جہیز وغیرہ یا کھانا نہ بھی ہو تو چھوہارہ ضرور ہوتا ہے۔ خادمِ اعلیٰ کا پسندیدہ میوہ بتایا جاتا ہے۔ منقول ہے کہ ایک بڑھیا کسی سے ملنے کے لیے گئی تو میزبان خاتون نے اس سے پوچھا‘ اماں‘ میرے لیے کیا لائی ہو۔ جس پر اماں نے اسے ایک چھوہارہ دیا جو خاتون نے منہ میں ڈال کر توڑا تو وہ کڑک کر کے ٹوٹ گیا۔ اس پر بڑھیا بولی‘ ''سارے راستے اِسے مُنہ میں ڈال کر پپولتی آئی ہوں‘ مجھ سے تو نہیں ٹوٹا‘ کم بخت اب کیسا کڑک کر کے ٹوٹ گیا ہے!‘‘
آدمی سُوکھ کر بالکل چھوہارے کی طرح ہو جاتا ہے۔ زردے کی دیگ چھوہارے کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ اسے چھوہارہ کیوں کہتے ہیں‘ اس کی وجہ اب تک سمجھ میں نہیں آئی حالانکہ نام کے ساتھ کوئی نہ کوئی نسبت ضرور ہوتی ہے جیسا کہ کراچی یں ایک بھینس کالونی ہے جہاں صرف بھینسیں رہتی ہیں‘ اور جہاں دودھ کی نہر بھی بہتی ہے‘ واللہ اعلم بالصواب۔
انجیر
اس کی شیرینی مثالی ہے‘ کبھی یہ شعر کہا تھا ؎
محبت کا تماشا وصل کی تاثیر جیسا ہے
کہ مل بیٹھے نہیں اور ذائقہ انجیر جیسا ہے
تازہ انجیر کو خشک کر کے پٹھان حضرات ایک رسّی میں پرو کر اسے بیچتے ہیں۔ انجیر نامی ایک پھوڑا بھی ہوتا ہے لیکن ظاہر ہے کہ وہ کھانے کے کام نہیں آتا۔ انجیر کی تاثیر گرم ہوتی ہے اس لیے اسے برف میں ڈال کر اور ٹھنڈا کر کے کھانا چاہیے۔ ایک اچھے بھلے پھل کو خشک کرنے کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ جبکہ اسے چبانے کے لیے مضبوط دانتوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ دانتوں سے چپک بھی جاتی ہے اس لیے بزرگ حضرات اسے کھانے سے پرہیز ہی کریں تو بہتر ہے کیونکہ اسے چباتے وقت بتیسی باہر بھی آ سکتی ہے‘ اس لیے مُشتری ہشیار باش!
چینا۔ تِل
خاصا بے ذائقہ ہوتا ہے اس لیے اسے ویسے کھانے کی بجائے ریوڑیوں کے ساتھ چپکا کر کھایا جاتا ہے۔ اس کی ایک سہولت یہ بھی ہے کہ اگر آپ سے سوال گندم کیا جائے تو آپ جواب چینا بھی دے سکتے ہیں۔ ریوڑیوں کو ریوڑیوں کی طرح بانٹا جاتا ہے‘ اس لیے ریوڑیاں خریدنے کی بجائے وہاں جانا بہتر ہو گا جہاں یہ بانٹی جا رہی ہوں۔ پتاسے کے ساتھ اس کی لڑائی قابلِ دید ہوتی ہے جیسے کہ کہا گیا ہے؎
گُڑ کی ریوڑی وے
اک دن لڑی پتاسے نال
چکوال کی ریوڑی مشہور ہے‘ لیکن اسے حاصل کرنے کے لئے چکوال جانا ضروری ہے جبکہ اصل بات یہ ہے کہ ریوڑی چینے سے نہیں بلکہ تلوں سے تیار کی جاتی ہے‘ اس لیے کہ تلوں میں تیل نہیں ہوتا اور یہ محاورہ بالکل غلط ہے کہ فلاں جگہ اتنا رش تھا کہ تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی کیونکہ جتنی بھی بھیڑ اور رش ہو‘ آپ جتنے تل چاہیں ہم وہاں رکھ کر دکھا سکتے ہیں۔ ایک تل اور بھی ہوتا ہے جو اس شعر سے ظاہر ہے ؎
اک مرے ہونٹ پہ ہے اور ترے رخسار پہ تل
تلملانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی
آج کا مقطع
سفینہ سمت بدلتا ہے اپنے آپ‘ ظفر
کوئی بتائو مرا بادباں کہاں گیا ہے