"ZIC" (space) message & send to 7575

سفرنامہ مقبوضہ ہندوستان اور دو کتابیں

دُور دراز کا مسلمان تو جامع مسجد کا امام کیا کہتا ہے جو کچھ وہ کہے بس وہی کرو۔ مسجد سے نکل کر جب میں بازار میں آیا تو ایک گھنٹہ گزر جانے کے باوجود دو مسلمان وہیں کے وہیں پان والے کی دکان کے سامنے گپ شپ میں مصروف تھے‘ یہ محض اتفاق تھا کہ جاتے اور اب آتے وقت میرا دھیان ان لوگوں کی طرف گیا۔ اتنا وقت مل جاتا ہے وہں کھڑے کھڑے لوگوں کو باتیں کرنے کا۔ کام کاج کا حرج تو ہوتا ہو گا۔ کیا معلوم وہ کسی کام دھندے ہی کے نہ رہے ہوں۔ شکل صورت، وضع قطع سے تو ایسے نہ لگتے تھے۔ جامع مسجد کو دکانداروں نے گھیرے میں لے رکھا ہے۔ سُنا ہے پہلے تو سیڑھیوں پر کبابیوں کے اڈے لگے رہتے تھے۔ یہی شاہد احمد دہلوی کے مضامین میں پڑھا ہی تھا لیکن اب اونچی آہنی جالی والی دیوار کھینچ کر سب کو پیچھے ہٹا کر سبزہ زار کا اضافہ بھی کر دیا گیا ہے۔ اس کے باوجود پیدل چلنے والوں کی راہ میں دکانیں پھر بھی حائل ہیں‘ قبضہ بدستور ہے جہاں بہت معمولی گھریلو استعمال کی چیزیں اور کھلونے فروخت ہوتے ہیں۔ کمزور قوت خرید کا پتا اسی سے ملتا ہے۔ دلّی کے چٹخارے مشہور ہیں اور وہ جگہ جگہ عام ہیں اور مسلمان کی شان اب بھی یہی ہے کہ داستان امیر حمزہ ٹھیلے والوں نے سجا رکھی ہیں‘ بکتی ہوں گی تبھی تو۔ ایک جیب کترے کو پٹتے دیکھا۔ ایک رکشہ والے نے دو روپے مانگے‘ سواری نے آئو دیکھا نہ تائو مغلظات بکتا چلا گیا۔ ڈیڑھ کے دو مانگ رہا ہے۔ ایک خاص گالی جو اُس لونڈے نے بکی میں سمجھ بھی نہ پایا اور ہمت کر کے پوچھ بھی نہ سکا۔ رکشہ والوں کو کریدنے کی کوشش کی تو بولا خدا جانے کیا انٹ 
شنٹ کہے جا رہا ہے‘ نہیں بیٹھنا نہ بیٹھو‘ گالی کیوں بکتا ہے۔ مسجد کے زیر سایہ تیس چالیس آزادہ رو چوسر اور تاش وغیرہ سے جم کر شغل فرماتے ہوئے پائے گئے۔ دوپہر کے کھانے کا سلسلہ ہی میں نے مدت سے ناقص قوت ہاضمہ کی وجہ سے ترک کر رکھا ہے۔ اطمینان سے مسجد اور اس کے ارد گرد کی سیر کی گئی۔ کوئی ڈھائی تین بجے اپنے مستقر پر آیا تو تینوں بزرگ جھپٹ پڑے‘ میاں تم کہاں چلے گئے تھے۔ میرا جواب مختصر اور سیدھا سا تھا‘ آپ نے میرا انتظار نہ کیا‘ میں کیوں کرتا۔ بات چبھتی ہوئی بھی تھی اس لیے آگے نہ بڑھی۔ صبح سے شام ہونے کو آئی تھی کنور صاحب کا کوئی اتہ نہ پتہ‘ نہ یہ لوگ فون کر سکے۔ میں نے مشورہ بھی دیا ان کے بیمار والد کی بیمار پُرسی کے لیے چلنا چاہیے۔ شام کے سائے ڈھل گئے‘ تاریکی چھانے لگی اور کوئی نہ آیا تو رنگ آنے لگے جانے لگے، بے لُطفی کے آثار ہویدا ہوئے۔ ہمارے متین صدیقی صاحب موٹر لے آئے اور ہمیں کلب لے گئے۔ کچھ لوگ سڑک کے اس پار پریس کلب میں شغل فرما رہے تھے، لہٰذا ہم بھی مشاعرہ گاہ سے پہلے وہاں لے جائے گئے۔ صادقین کی تصویریں بارہا دیکھ چکا تھا‘ ساغر بدست ملے۔ پہچان میں نے جگن ناتھ آزاد کو بھی لیا۔ نام لینا تھا کہ لپٹ گئے۔ ارے آپ سے تو برسوں مراسلت رہی ہے۔ اور بھی کچھ لوگ تھے۔ گلزار دہلوی زشتی‘ عزیزہ وارثی اور جانے کون کون۔ سبھی بدمست۔ ہمارے رئیس اور اختر فیروز بھی جُت گئے۔ تصویریں اُترنے لگیں‘ تصویریں اُتارنے والے نے دو ایک تصویریں اتار کر گلزار سے کہا آپ ذرا یہاں سے ہٹ جائیں۔ اس پر گلزار بھڑک اٹھے۔ کڑک 
کر کہا: یہ کیا بدتمیزی ہے، آپ میری تصویر شامل نہ کیجئے گا لیکن میں یہاں سے نہیں اُٹھوں گا۔ معلوم شُد کہ گلزار دہلوی اور کنور مہندر سنگھ بیدی سحرؔ میں ایک فاصلہ ہے، معاصرانہ چشمک اور بات ہے، یہاں تو اختلافات کی ایک بے حد وسیع و عریض خلیج تھی جسے پاٹنے کے لیے ایک عمر چاہیے۔ فوٹو گرافر سید فدا علی کنور صاحب کے مداح اور معتقد رہے ہوں گے بلکہ تھے بھی اور ہیں بھی۔ گفتگو اور تقریر میں تو کنور صاحب کا جواب نہیں‘ شعر گوئی میں کیا عجب گلزار اور کنور صاحب کا معاملہ برابر ہو۔ میں کسی موازنہ انیس و دبیر کا کبھی قائل نہیں رہا۔ کسی کو کسی پر ترجیح دینے کی ضرورت نہیں سمجھتا۔ غالبؔ‘ میرؔ‘ مومنؔ کو چھوڑیے آفتاب و ماہتاب‘ نہایت غیر معروف شعرا کے ہاں کیسے کیسے تیر و نشتر نکل آتے ہیں۔ وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ فی الواقعہ ہر ایک کا اپنا اپنا مقام اور مرتبہ ہے۔ کون بڑا کون چھوٹا ہے یہ کیا کہا جا سکتا ہے۔ ہم تو بھٹائیؒ اور خواجہ فریدؒ، وارث شاہؒ، بلھے شاہؒ‘ سچلؒ‘ خوشحال خاںؒ سبھی کے مرید ہیں۔ گلزار دہلوی اور سحرؔ کی شاعرانہ عظمتوں کے جھگڑے ہوں گے۔ ایک جنگ اخلاقی بھی دیکھی گئی۔ گلزار صاحب کنور مہندر سنگھ بیدی سحرؔ کا احترام و ادب بظاہر بہت ملحوظ رکھتے ہیں۔ خوب خوب قصیدے‘ لیکن لونڈے لپاڑوں کی چھپن جھپٹی اور کھینچا تانی ایک مستقل موضوع بنی رہتی ہے۔ بڑی سنجیدگی سے کنور صاحب کا فرمانا، بتائیے فلاں دوست کے محبوب پر اس گلزار نے ہاتھ ڈال دیا، لطف دے گیا۔ دونوں بزرگ ایک دوسرے کے راستے کاٹتے رہتے ہیں۔ یہ بہرحال زندگی کے لوازمات میں سے ہے، یہ نہ ہو تو یہ روز و شب کے پیٹ کے جھمیلے عذاب جاں بن جائیں گے۔ گلزار دہلوی زشنی سے لوگ باگ اس لیے بھی شاکی ہیں کہ بولتے بہت ہیں‘ آ جائیں تو دو ڈیڑھ گھنٹوں سے پہلے ٹلنے کا نام نہیں لیتے۔ بولے چلے جاتے ہیں‘ بولے چلے جاتے ہیں‘ آدمی عاجز آ جاتا ہے۔ روزنامہ قومی آواز کے موہن چراغی بہت جلے ہوئے تھے۔ دو گھنٹے دماغ چاٹ کر ابھی گئے ہیں گلزار دہلوی۔ یہ سب کچھ ہے لیکن دلی میں گلزار کا ایک مقام ہے۔
بات پریس کلب کی ہو رہی تھی۔ پینے پلانے کی ہو رہی تھی۔ جگن ناتھ آزاد کے تھیلے میں ایک بوتل احتیاطاً موجود تھی‘ چُرائی ہوئی نہیں خریدی ہوئی بوتل۔ تھوڑی دیر میں بلاوا آ گیا۔ مشاعرہ گاہ میں سامعین کی تعداد برائے نام تھی۔ بیدی صاحب کا بار بار یہ اعلان کرنا کہ شاعر حضرات تشریف لا چکے ہیں اب آپ بھی آ جائیے۔ بہت پی پلا چکے‘ یہ اعلان کچھ اثر نہیں دکھا رہا تھا۔ بہرحال باضابطہ کارروائی شروع کر دی گئی۔ بیدی صاحب بلاوا یہی دیتے رہے انشاء اللہ خالی کرسیاں آہستہ آہستہ بھر جائیں گی۔ میں اور محمود صاحب اگلی صف میں براج گئے، بلکہ یہ کہنے میں زیادہ لطف ہے کہ صفِ اوّل کے مہمان نکلے...
بخدمت جناب حضرت رئیس امروہوی
یہ مرتّبہ سید انیس شاہ جیلانی ہے جسے فکشن ہائوس لاہور نے چھاپا اور اس کی قیمت 500 روپے رکھی ہے۔ یہ ان خطوط کا مجموعہ ہے جو مشاہیر کی طرف سے رئیس امروہوی کو لکھے گئے۔ مکتوب نگاران میں احمد ندیم قاسمی‘ ابن انشا‘ احسان دانش‘ ایم اسلم‘ پطرس بخاری‘ جون ایلیا‘ جوش ملیح آبادی‘ حفیظ جالندھری‘ حکیم محمد سعید‘ رشید احمد صدیقی‘ زیڈ اے بخاری‘ سید احتشام حسین‘ عبدالحمید عدم‘ سید ضمیر جعفری‘ شورش کاشمیری‘ عبدالسلام خورشید‘ عبادت بریلوی‘ غلام رسول مہر‘ کمال امروہوی‘ مصطفی زیدی‘ مینا کماری‘ ماہر القادری‘ نیاز فتح پوری‘ نظیر صدیقی‘ نیّر واسطی‘ وزیر آغا‘ نثار احمد فاروقی‘ ماجد الباقری‘ مُلا واحدی‘ عبیداللہ علیم اور دیگران شامل ہیں۔ اس کتاب کے ذریعے گویا ان سب سے ملاقات ہو جاتی ہے۔ ضخامت 469 صفحات اور ٹائٹل پر رئیس امروہوی کی تصویر ہے۔
ثمینہ راجہ کے خط
یہ ان خطوط کا مجموعہ ہے جو شاعرہ ثمینہ راجہ نے سید انیس شاہ جیلانی کو لکھے۔ موصوف خود بھی ایک جگہ لکھ چکے ہیں کہ مراسلت ان کی ایک مرغوب ہابی ہے۔ یہ کتاب بھی فکشن ہائوس ہی نے چھاپی اور اس کی قیمت 500 روپے رکھی ہے۔ انتساب اس طرح سے ہے:
راجہ مجید مرحوم کو ثمینہ راجہ کی لکھت پڑھت زہر لگتی تھی اور یہ کچھ بیجا بھی نہ تھا‘ نتائج زمان ملک کی شکل میں ظاہر ہوئے جس نے ثمینہ کی زندگی اجیرن کر دی۔
ٹائٹل پر ثمینہ راجہ کی رنگین تصویر ہے۔ ضخامت 272 صفحات، کتاب دلچسپ ہے۔
آج کا مطلع
محبت کر ہی بیٹھے ہیں تو پھر اظہار کیا کرتے
اُسے بھی اس پریشانی سے اب دوچار کیا کرتے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں