''آتے ہیں غیب سے‘‘ ہمارے دوست انور شعور کی غزلوں کا پانچواں مجموعہ ہے جو ہمارے ایک اور دوست شاعر علی شاعر نے اپنے ادارے رنگِ ادب پبلی کیشنز (کراچی) سے چھاپا اور قیمت 500 روپے رکھی ہے۔ انتساب شہلا رُقیّہ کے نام ہے۔ فاضلانہ دیباچہ ہمارے ایک اور محترم دوست ڈاکٹر تحسین فراقی نے لکھا ہے۔ شعورؔ کا کلیات بھی کچھ عرصہ پہلے شائع ہو چکا ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ کتاب کسی دوسرے کلیات کی بھی خوشخبری دے رہی ہے۔ وماتو فیقی اِلّا باللہ۔ اس مجموعہ میں کل 115 غزلیں ہیں اور گیٹ اَپ نہایت عمدہ۔
شاعر پر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اس کی کسی نئی کتاب پر رائے دینا قطعاً غیر ضروری ہو جاتا ہے اور بات بالکل رسمی سی لگتی ہے کیونکہ وہ اپنا راستہ منتخب کر کے اُس پر رواں دواں رہتا ہے۔ میں خود موصوف کی شاعری پر ایک سے زیادہ بار اپنی ناقص رائے دے چکا ہوں‘ سو نہ انور شعور کی شاعری بدلی ہے نہ میری رائے کیونکہ شاعر کا کھلا ڈلا اور رواں دواں انداز‘ جسے شاید سہل ممتنع بھی کہا جا سکتا ہے چنانچہ نہ اس کی زندگی کے معمولات میں فرق آیا ہے نہ اس کی شاعری میں۔ کبھی ثقہ اور فلسفیانہ موضوعات کے چکر میں نہیں پڑا۔ اس کے موضوعات اس کے اردگرد ہی سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں وہ شعروں میں ڈھالتا اور بے تکلفی سے بیاں کر دیتا ہے حتیٰ کہ کوئی بھی دوسرا شاعر اس پر رشک کر سکتا ہے کہ یہ موضوعات تو اُس کے بھی اپنے ہیں لیکن اس کی توجہ سے محروم ہیں۔ بس ایسا لگتا ہے کہ وہ شعر نہیں کہہ رہا، آپ سے‘ یا اپنے آپ سے باتیں کر رہا ہے۔ چنانچہ ایسی شاعری پر ''نقادانہ‘‘ انداز میں گفتگو بھی نہیں کی جا سکتی۔
محبّی ڈاکٹر تحسین فراقی‘ جو ایک ذہین و زیرک نقاد بھی ہیں، انہوں نے اس شاعری کا احوال کھل کر بیان کر دیا ہے اور اس میں سے خوب در خوب نکات نکالے ہیں حالانکہ یہ شاعری ایسی ہے کہ اس پر کسی رائے زنی کی کچھ ایسی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ یہ اپنا آپ خود ہی بیان کرتی چلی جاتی ہے اور کہیں کسی اشکال کا سامنا نہیں کرنا پڑتا‘ تاہم آسان بات بھی خاصے اُستادانہ انداز میں کرتے ہیں کہ شعر کا مزہ بھی قائم رہے کیونکہ اصل بات شعر کا بن جانا ہے اور شعر کو 'شعر‘ بنا دینے کے فن سے شعورؔ خوب اچھی طرح سے واقف ہیں۔ حتیٰ کہ شعر کچھ ضرورت سے زیادہ شاعرانہ بنانے کا بھی تردد نہیں کرتے کہ وہ عام بول چال کے زیادہ قریب رہا ہے۔ اپنے پیش لفظ میں ناشر شاعر علی شاعر نے بالکل بجا تحریر کیا ہے کہ ان کا کلام گنجلک پن‘ دقت پسندی اور لفاظی سے عاری ہے۔
میں نے اس کتاب میں سے اپنے ڈھب کے بھی کچھ شعر نکالے ہیں جو آپ کو بھی یقینا پسند آئیں گے‘ ملاحظہ ہوں :
چل پھر کے اِدھر اور اُدھر دیکھ لیا جائے
کیسا ہے یہ شہر ایک نظر دیکھ لیا جائے
............
ابھی گئے ہیں جو موصوف بے غرض مل کر
وہ عنقریب ہمیں کوئی کام بھیجیں گے
چھوڑا تھا یہیں اُس نے ہمیں مُنتظر اپنا
ہم اُٹھ کے یہاں سے کہیں جا بھی نہیں سکتے
............
باری ابھی دُور ہے ہماری
ہم ایک بڑی قطار میں ہیں
کر دیا رُخصت اُنہیں ہنستے ہوئے
اے شعورؔ اب بیٹھ کر آنسو بہائو
............
جس بزم میں وہ چہرہ دکھائی نہیں دیتا
اُس بزم میں ہوتے نہیں ہم‘ ہوتے ہوئے بھی
............
آ نکلتے ہیں اکثر ہمارے یہاں
وہ کہیں اور ہوتے ہواتے ہوئے
............
آخری فیصلہ ہوتا ہے کسی اور جگہ
لوگ یہ بات سمجھ لیں تو عدالت میں نہ جائیں
............
کاش ہو جائے اُس سے ملاقات جلد
دل میں رہتی نہیں آرزو دیر تک
............
ممکن نہیں عشق اب دوبارہ
یہ واقعہ ہو چکا ہوا ہے
............
کیا کہوں کارکردگی اپنی
صرف تعمیلِ حکم کی گئی ہے
............
ہم یہاں یا وہاں نہیں جاتے
بیٹھے بیٹھے کہاں نہیں جاتے
جو ہمارے یہاں نہ آئیں شعورؔ
ہم بھی اُن کے یہاں نہیں جاتے
اب کچھ چھیڑ چھاڑ بھی ہو جائے۔ صفحہ 177 پر درج غزل کا شعر ؎
یہ ہمیں اور وہ تمہیں حاصل
غم ہمارا‘ طرب تمہاری ہے
اس کا مطلب ہے کہ ہم بھی ''طرب‘‘ کو مؤنث باندھ سکتے ہیں!
صفحہ 185 پر درج غزل کا ایک شعر ہے :
ہم تمہیں دیکھ چکے ہیں لیکن
نجانے کہاں‘ کب دیکھ چکے ہیں
اس میں لفظ ''تمہیں‘‘ میں سے ہ‘ ی‘ اور نون غنّہ غائب ہو گئے ہیں۔ یہ اس طرح بھی ہو سکتا تھا :
دیکھ چکے ہیں تمہیں ہم لیکن
صفحہ 199 پر شعر ہے :
کیا ہم نے بچوں کی خاطر نباہ
کئی بار گھر میں فضیتے ہوئے
اس میں فضیحتے کی 'ح‘ غائب ہو گئی ہے۔
آپ نے ایک جگہ ''کافر‘‘ کو بروزن ظاہر اورطائر یعنی بالفتح کی بجائے بالکسر باندھا ہے۔ شاید یہ بھی صحیح ہو۔
........................
آج کا مقطع
جو لوحِ خواب پہ تحریرِ آرزو تھی‘ ظفرؔ
پڑے پڑے ہی لہُو کی لکیر ہو گئی ہے