کوئی سوا دو سو صفحات کو محیط یہ کتاب بُک کارنر جہلم نے چھاپی اور اس کی قیمت 600 روپے رکھی ہے۔ کتاب میں کسی دیباچے یا سرورق کی تحریر کا تکلف روا نہیں رکھا گیا‘ انتساب ایک اور سینئر نظم گو انوار فطرت کے نام ہے۔ دیدہ زیب ٹائٹل عالیہ مرزا نے بنایا ہے جبکہ پس سرورق مصنف کی تصویر حفیظ طاہر کی بنائی ہوئی ہے۔ پس سرورق اندراجات کے مطابق شاعر کے مندرجہ ذیل مجموعے شائع ہو چکے ہیں :
پانی میں گم خواب (نظمیں)
محرابچی سو گیا ہے (نظمیں)
ملبے سے ملی چیزیں (نظمیں)
تیسرے قدم کا خمیازہ (نظمیں)
زردپتوں کی شال (مختصر نظمیں)
ڈریمز لاسٹ اِن واٹر (نظموں کے انگریزی تراجم)
اے مین آئوٹ سائیڈ ہسٹری (نظموں کے انگریزی تراجم)
ناصر غزل بھی لکھتے ہیں لیکن ان کا مجموعہ ابھی تک شائع نہیں ہوا۔ شاید انہوں نے اسے قابل اعتنا ہی نہ سمجھا ہو‘ اگرچہ بالعموم چھوٹی بحر میں انہوں نے خاصی تعداد میں عمدہ غزلیں بھی کہہ رکھی ہیں۔
یہ نثری نظمیں ہیں۔ انہیں نثمیں بھی کہا گیا ہے‘ نیز نثری کا پھندنا لگانے کی بجائے انہیں محض نظمیں کہنا زیادہ مستحسن ہے کیونکہ نظم بالعموم اسی شکل میں لکھی جا رہی ہے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ مصرعے توڑ توڑ کر لکھنے کی بجائے اسے پیراگراف کی شکل میں کیوں نہ پیش کیا جائے۔ مثلاً جیسی افتخار جالب کی بعض نظمیں ہیں۔ نظم موزوں ہو یا نثری‘ ایک فیشن کے طور پر بھی لکھی جا رہی ہے اور تنوع پسند قاری غزل کے ساتھ ہی ایک نئے ذائقے کے طور پر بھی اس کا استقبال کر رہا ہے۔ نثری نظم کو نسبتاً آسان سمجھ کر بھی اختیار کیا جاتا ہے کیونکہ یہ وزن کی پابندیوں سے آزاد ہے‘ حالانکہ واقعتاً ایسا نہیں ہے۔ نثری نظم کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اسے دوچار بلکہ ایک آدھ کو چھوڑ کر کوئی بڑا یا جینوئن شاعر دستیاب نہیں ہوا ہے جو شعر یا غزل کہتے کہتے نظم کی طرف آئے ہیں۔ اگر اُن کی غزل کمزور تھی تو نظم اس سے بھی زیادہ کمزور ہے۔ نظم کا دوسرا المیہ یہ ہے کہ اسے جان بوجھ کر پراسرار بلکہ بے معنی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے جس کا سبب عجز بیانی ہی ہو سکتا ہے۔ نظم کا زوردار ہونا اس لیے بھی ضروری ہے کہ یہ وزن کی نغمگی جو کہ شاعری کا خصوصی زیور ہے‘ سے محروم ہوتی ہے چنانچہ نثری نظم کے لیے شاعر کا ایک مضبوط نثر نگار ہونا بھی ضروری ہے ورنہ نظم ایک کم اثر بیانیہ ہو کر رہ جاتی ہے۔ آج کل عمومی رواج یہ ہے کہ نظم میں کسی بڑے واقعے یا سانحے کا ذکر کر کے ہی اس کا کام تمام کر دیا جاتا ہے جس میں کوئی تاثر یا لطفِ بیان نام کی کوئی شے نہیں ہوتی جبکہ غزل اورینٹیڈقاری ایک خشک بیانیے سے متاثر نہیں ہو سکتا۔ نظم ہو یا نثر‘ کوئی بھی تحریر اپنے آپ کو پڑھواتی ہے اور قاری کو ساتھ لے کر چلنے کے علاوہ اُسے محظوظ بھی کرتی ہے کیونکہ وہ ایک خشک اور بے مزا بیانیہ پڑھنے کے لیے نظم کی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔
اس سلسلے کی دوسری اہم بات یہ ہے کہ نظم کو زیادہ سے زیادہ مختصر ہونا چاہیے تاکہ قاری نے نظم سے اگر شاد کام یا بور ہونا ہے تو جلد از جلد ہو جائے‘ اُسے اس مقصد کے لیے پچیس تیس مصرعوں بلکہ سطروں کی نظم نہ پڑھنی پڑے۔ ایک زمانے میں جریدہ ''اسمبل‘‘ کے ایڈیٹر علی محمد فرشی نے بہت عمدہ مختصر نظمیں لکھی تھیں جس کی مثال دی جایا کرتی تھی اور یہ اس لیے ضروری ہے کہ موجودہ زمانے میں قاری کے پاس طویل نظم پڑھنے کا وقت ہی نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ عرصہ دراز سے ہمارے ہاں مثنوی نہیں لکھی جا رہی حتیٰ کہ شکوہ جواب شکوہ ٹائپ کی بھی کوئی چیز نہیں لکھی جا رہی‘ چنانچہ کافی عرصے سے آئوٹ سٹینڈنگ نظمیں بہت کم نظر سے گزری ہیں کہ ایسی اکثر نظموںکو ان کی طوالت کھا گئی۔
فیشن کی بات اور ہے ورنہ نثری نظم ابھی تک صحیح معنوں میں غزل چھوڑ‘ موزوں نظم کی بھی جگہ نہیں لے سکی ہے‘ میں نثری کا مخالف ہرگز نہیں بلکہ میں نے تو اسے مستقبل کی شاعری قرار دے رکھا ہے البتہ میں اس کی بہتری اور ترویج و ترقی کا بھی دعاگو ہوں نظم کے اختصار کی بات ہو رہی تھی تو ناصر کی ایک نظم کی آخری سطور دیکھیے :
پانی بادلوں کو
اور بادل بارشوں کے ذریعے
ساری باتیں زمین کو بتا دیتے ہیں
زمین رازوں کا جنگل ہے
جس میں ہر روز چوری ہو جاتی ہے
انسان اپنے ہی رازوں کو
کاٹ کاٹ کر بیچتا رہتا ہے
حتیٰ کہ ایک دن زمین درختوں سے‘
انسان رازوں سے
اور‘ نائو مسافروں سے خالی ہو جاتی ہے
'نائو پانی کی موت سے ڈرتی ہے‘ کے عنوان سے اس نظم کی مندرجہ بالا آخری سطریں ہیں جو بجائے خود ایک مکمل نظم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ نظم اگر بہت زوردار نہ ہو تو قاری اُسے بیچ میں ہی چھوڑنے پر مجبور ہو سکتا ہے‘ جس طرح کمزور اور فضول سا مطلع پڑھ کر آپ ساری غزل ہی سے درگزر کرتے ہیں۔ ایک اور نظم دیکھیے‘ عنوان ہے ''پونیا‘‘
مجھے مت پہنو
میں تمہاری مٹی جیسا شفاف نہیں
تمہاری محبت کا سینہ سڈول ہے
اور ٹانگیں لمبی اور بازو پھیلے ہوئے
میں چھانٹی کا مال تمہارے بدن پر پورا نہیں آئونگا
کہیں نہ کہیں سے چھوٹا پڑ جائوں گا!! ......(باقی کل)
آج کا مقطع
رُکی تو ساتھ ہی بجھتا گیا دماغ‘ ظفرؔ
عجب چراغ ہے‘ جلتا نہیں ہوا کے بغیر