ایک نہایت محبوب ہستی نے میرے پرسوں والے کالم کے حوالے سے کہا ہے کہ آپ اپنی شاعری کی بدتعریفی کیوں کرتے ہیں۔ میں نے کہا اس لیے کہ اپنی شاعری کی تعریف کرنا غلط سمجھتاہوں اور یہ مجھے اچھا بھی نہیں لگتا۔ انہوں نے کہا کہ اچھی بھلی شاعری کو برا کہنا بھی تو غلط ہے اور اگر آپ اپنی شاعری کی تعریف نہیں کرسکتے تو بدتعریفی بھی نہ کیا کریں۔ میں ان کی رائے کو شروع ہی سے اہمیت دیتا ہوں اور اپنے آپ کو لاجواب سا محسوس کیا کہ اصولی طور پر ان کی بات بھی ٹھیک تھی۔ میں پہلے بھی کہیں کہہ چکا ہوں کہ یہ سیلف پیروڈائزیشن کا زمانہ ہے اور میں ویسے بھی اپنی شاعری کو ایک دشمن کی نظر سے دیکھا کرتا ہوں کیونکہ اسے دوست یا مداح کی حیثیت سے دیکھنے والے بھی جب بہت ہیں تو کیا یہ بہتر نہیں کہ وہ اپنا کام کرتے رہیں اور میں اپنا؟
اسی سلسلے میں ایک تحریر ابھی ابھی میری نظر سے گزری ہے اور وہ ہے جریدہ ''تطہیر‘‘ میں ڈاکٹر غافر شہزاد کا مضمون بعنوان ''غزل کا سفر‘‘۔ ڈاکٹر غافر شہزاد خود صاحبِ کتاب شاعر بھی ہیں اور ایک جدید نقاد بھی۔ اس مضمون میں انہوں نے خاکسار کے علاوہ کسی غزل گو کا ذکر نہیں کیا۔ اس مضمون سے ایک اقتباس :
بیسویں صدی کے آخری نصف میں اکیلا ظفر اقبال ایک الگ مزاج و موضوعات کی غزل کی روایت کا جھنڈا ہاتھ میں لیے کھڑا ہے۔ وہ موضوعات کی سطح پر مختلف اور منفرد ہونے والی شاعری کی تنگ دامنی اور محدودیت کو مسترد کرتا ہوا شاعری کو محض ایک خیال اور احساس کی پیشکش کی حد تک ساتھ لے کر چلتا ہوا دکھائی دیتا ہے‘ جہاں اس کے نزدیک ایک شعر کے دو مصرعوں میں براہ راست کوئی تعلق ہونا بھی ضروری نہیں ہے‘ جہاں اُس کے نزدیک شعر میں پُوری بات کہنا دراصل شاعری کی موت قرار پاتا ہے۔ وہ اسی کو نئی شاعری قرار دیتا ہے اور نصف صدی کی ریاضت اور اُس کے پائے استقلال نے اپنی واضح کردہ اس روایت میں غزل کہنے والوں کی ایک بڑی تعداد کو متاثر کیا ہے اور اپنے ساتھ ملایا ہے۔ اس کی غزل نہ تو کلاسیکی روایت کی غزل ہے جہاں ایرانی اور عربی معاشرت سے جڑی تراکیب غزل میں شامل ہیں‘ نہ ہی موضوعات کی سطح پر وہ جدید بدلتی معاشرت کے نئے موضوعات کی پیشکش اور اُنہیں دُہرانے تک خود کو محدود رکھتا ہے۔ اس کے نام سے منسوب یہ شعر جو اس کی تعارف کردہ غزل کی روایت میں کہیں فٹ نہیں بیٹھتا انہیں اکثر پریشان رکھتا تھا ؎
ہمارا عشق ظفرؔ رہ گیا دھرے کا دھرا
کرایہ دار اچانک مکان چھوڑ گیا
مگر پھر پتہ چلا یہ صابر ظفرؔ کا شعر ہے تو انکشاف نے ہمیں سکون دیا اور ظفر اقبال کی شاعری کے بارے میں ہمارے قائم کردہ تھیسز کی توثیق ہوئی۔ ظفر اقبال کی شاعری نئے عہد کی شاعری ہے جہاں کوئی کلاسیکی روایت کی آہستگی اور سسُت روی نہیں ہے۔ جہاں محض جدید معاشرت سے جُڑے مضامین نہیں ہیں‘ جہاں شاعری موضوعات کی حد تک محدود پیشکش کا نام نہیں ہے‘ جہاں معانی کی براہ راست ترسیل لازم طور پر نہیں ہوتی۔ جہاں معانی کی کوئی ایک یا دو واضح صورتیں نہیں ہیں‘ جہاں شعر کے دونوں مصرعوں کا تعلق اتنا باریک اور غیر مرئی سا ہے کہ معانی کی کئی پرتیں کھولی جا سکتی ہیں۔ مگر یہ غزل کا مستقبل نہیں ہے۔ ظفر اقبال نئی شاعری کو نئے اور منفرد اسلوب کے ساتھ جوڑتا ہے۔ مگر غزل کی تنگ دامانی میں نئے اسلوب کو متعارف کروانے کی کتنی گنجائش موجود ہے‘ یہ سوال اپنی جگہ کھڑا ہے...‘‘
اپنی شاعری کی تحسین و تنقیص‘ دونوں حوالوں سے میرا ہاتھ تنگ نہیں ہے لیکن ایک نوجوان نقاد کا ایسا زوردار اعتراف اس لحاظ سے بھی خوش آئند ہے کہ نوجوان ابھی مجھے اپنے ہی کھاتے میں رکھتے ہیں اور کسی سینئر نقاد کی بجائے ایک نئے نقاد کا ایسا کہنا یقیناً میرے لیے باعث صد اطمینان ہے کہ میں نئے شاعروں اور نقادوں کی نظر میں ابھی پرانا نہیں ہوا ہوں!
اسی رسالے میں جدید بھارتی غزل گو جینت پرمار کی ایک غزل کا یہ شعر دیکھیے ؎
ابھی رطب ویابس میں ڈوبا ہوں میں
ہیں آبِ رواں میں ظفر ایک دو
''رطب ویابس‘‘ میرا تیسرا مجموعہ غزل تھا جو سب سے پہلے شب خون کتاب گھر الہ آباد سے جناب شمس الرحمن فاروقی کے زیراہتمام شائع ہوا۔ اس شاعر کے مطابق وہ آب رواں (میرا پہلا مجموعہ) میں تو میری کوئی خاص موجودگی کا احساس نہیں کرتے لیکن رطب ویابس میں باقاعدہ ڈوبے ہوئے ہیں۔ رطب ویابس کی غزلوں کو اینٹی غزل کا بھی نام دیا گیا تھا۔ بقول جناب سید عامر سہیل میں نے آب رواں پر خط تنسیخ نہیں کھینچا تھا بلکہ محض ایک موڑ لیاتھا کیونکہ آب رواں کی آواز میرے ساتھ آج تک چل رہی ہے اور‘ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ رطب ویابس میں جو موڑ میں نے مڑا تھا‘ نئے شاعر اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ اس کتاب کا پاکستانی ایڈیشن بعد میں شائع ہوا جس کا ٹائٹل میری پہلی دو کتابوں کی طرح حنیف رامے نے بنایا تھا۔ قصہ مختصر جو موڑ میں نے اُس وقت مُڑا تھا‘ کچھ ایسا غلط بھی نہ تھا۔ دونوں نو طبع کتابیں مجھے کراچی سے موصول ہو گئی ہیں جس سے ایک دلچسپ شرارت کا بھی انکشاف ہوا ہے جس کا سہرا پبلشر شاعر علی شاعر کے سر بندھتا ہے اور وہ یہ کہ موصوف نے کتاب بعنوان ''توفیق‘‘ کے آغاز میں خاکسار کا یہ شعر درج کیا ہے ؎
شاعری تو یہ ہے‘ ظفرؔ
باقی سب بکواس تھی
اور دوسرے مجموعے ''تاخیر‘‘ کے آغاز میں یہ شعر :
گائے جانے کا نہیں میں شوقین‘ ظفرؔ
گیت نہیں‘ میں گالی ہونا چاہتا ہوں
بیشک دونوں شعر ان کتابوں ہی سے لئے گئے ہیں کہ اکثر قافیہ ہی مضمون سجھانے یا انتخاب کرنے پر مجبور کر دیتا ہے‘ تاہم ان شعروں کا اس قدر نمایاں کرنا ہمارے ناشر دوست شاعر علی شاعر ہی کا کام ہے ع
ایں کار از تو آید و مرداں چُنیں کُنند
اور‘ اب آخر میں نعیم ضرار کے 5 شعر :
تیری خوشبو سمیت لایا ہوں
اپنے اندر سے ہو کے آیا ہوں
کوئی مشکل اگر نہ ہو درپیش
کتنی مشکل سے دن گزرتا ہے
خود بخود اُٹھ گئیں مری جانب
سب کی نظریں تمہارے آنے پر
آج دن بھر مجھے فرصت نہ ملی
آج کرنے کو کوئی کام نہ تھا
یہ سڑک کب کی جا رہی ہے کہیں
پھر بھی موجود ہے وہیں کی وہیں
آج کا مطلع
بھرے دریائوں کی یکسر روانی روکنے والے
مرے ہمسائے ماں جائے یہ پانی روکنے والے