سُرخاب کی ہجرت
پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ یہاں سرخاب کا ایک جوڑا جو چار دیواری کے ساتھ ساتھ بانس کے پردوں میں اپنا بسیرا کئے ہوئے تھا‘ یہاں سے کوچ کر گیا ۔ وجہ یہ ہوئی کہ سانپوں نے بانسوں کی جڑوں میں اپنے گھر بنا رکھے تھے جو رات کو باہر نکلتے اور جن میں سے متعدد گارڈز وغیرہ نے مار بھی دیئے ۔ چنانچہ سارے کے سارے بانسوں کو جڑ سے اکھڑوا دیا گیا کہ نہ بانس ہوگا نہ سانپوں کی بانسری ۔ اس لئے سرخابوں نے یہاں سے ہجرت کرنے میں ہی عافیت جانی ۔ تاہم چند روز پہلے ان میں سے ایک کہیں سے آیا اور گھاس پر چہل قدمی کرنے کے بعد واپس چلا گیا۔ ایک شعر اس پر یاد آگیا ہے ۔
دیکھنے آتا بھی ہے چھوڑے ہوئے اس شہر کو
یعنی اس کے بعد کیا اجڑا ہے ، کتنا رہ گیا
ممولے کا قریب سے نظارہ
کل ایک ممولہ میرے قریب میں کوئی دس فٹ کے فاصلے پر آبیٹھا اور ادھر ادھر چونچ مارنے لگا۔ اسے اتنے نزدیک سے دیکھ کر اس کے سمارٹ ہونے پر ایمان تازہ ہوا۔ یہ بیٹھا ہو یا چل پھر رہا ہو۔ اپنی دم ، جو قدرے لمبی ہوتی ہے ، اوپر نیچے ہلاتا رہتا ہے۔ اسے درخت پر بیٹھے کبھی نہیں دیکھا، گھاس ، فرش پر ٹہلتا رہتا ہے جبکہ دوسرے پرندے بھی مجھے بتا کر پیڑوں پر نہیں بیٹھتے۔ تاہم خلاف معمول وہ اکیلا تھا۔ یعنی سپائوس کے بغیر ۔شاید میاں بیوی میں لڑائی ہوگئی ہو۔ منقول ہے کہ ایک ضیافت کے دوران ایک صحافی نے بزرگ انگریز میزبان سے طویل العمری کا راز پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ شادی کے موقع پر ہم میاں بیوی میں یہ طے ہوا تھا کہ لڑائی کے وقت بات بڑھانے کی بجائے ہم میں سے ایک گھر سے باہر نکل جائے اور میں چونکہ زیادہ کھلی فضائوں میں رہا ہوں اس لئے ...
ستیہ پال آنند کے لئے افسوسناک ریمارکس
سینئر بھارتی شاعر ستیہ پال آنند کے لئے پچھلے دنوں فیس بک پر لگی پوسٹوں میں بعض دوستوں نے انہیں خاصا برا بھلا کہہ رکھا تھا کہ وہ غزل کے مخالف ہیں اسلامی شعائر کا مذاق اڑاتے رہتے ہیں وغیرہ۔ اختلاف رائے جو ادب کی جان ہے ، اپنی جگہ ، یعنی اس میں دشنام طرازی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ وہ کوئی نصف صدی سے شعر کہہ رہے ہیں ، اور ممتاز شعرا میں ایک مقام رکھتے ہیں۔ پھر ان کا تعلق ہمسایہ ملک سے ہے جس کے ساتھ ہمارا ادبی ورثہ مشترکہ چلا آرہا ہے اور اس کے شہریوں کے ساتھ محبت کا رشتہ بھی قائم ہے۔ غزل کے حوالے سے ان کے ساتھ میرا بھی اختلاف رہا ہے اور میں اس کا اظہار بھی کرتا رہا ہوں۔ تاہم ادب کو بے ادبی کے دائرے میں داخل نہیں ہونا چاہیے۔ میں اس واقعے پر شرمندہ بھی ہوں اور ستیہ پال آنند سے معذرت خواہ بھی بھی!
طالب جتوئی بنام منیر نیازی
ہمارے ایک صحافی بھائی نے اپنے کل والے کالم میں منیر نیازی کی یہ پنجابی نظم نقل کی ہے :
کس دا دوش سی کسی دا نئیں سی
ایہہ گلاں ہن کرن دیاں نئیں
ویلے لنگ گئے توبہ والے
راتاں ہوکے بھرن دیاں نئیں
جو ہویا ایہہ ہونا ای سی
تے ہونی روکیاں رکدی نئیں
اک واری جدوں شروع ہو جاوے
گل فیر ایویں مکدی نئیں
کجھ اُنج وی راہواں اوکھیاں سن
کچھ گل وچ غم دا طوق وی سی
کچھ شہر دے لوک وی ظالم سن
کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی
اس کے آخری چار مصرعے جو دراصل ایک شعر کی شکل میںہیں‘ منیر نیازی یہ شعر بڑے ذوق و شوق سے سنایا کرتے اور فرمائش کرکے بھی ان سے سنا جاتا۔ ممتاز سرائیکی شاعر طالب جتوئی کا دعویٰ تھا کہ یہ ان کا شعر ہے جو ان کے مجموعہ کلام میں اس طرح درج ہے
کجھ انج وی راہاں اوکھیاں این کجھ گل وچ غم دا طوق وی آہ
کجھ شہر دے لوک وی ظالم این ، کجھ مینوں مرن دا شوق وی آہ
اور منیر نیازی نے اس پر ہاتھ صاف کر لیا ہے ۔ وہ منیر نیازی کی زندگی میں واویلا کرتے رہے لیکن منیر نیازی خاموش رہے۔ طالب جتوئی کے بیان کی تصدیق اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ اس شعر کی بحر بھی اوپر والے اشعار سے مختلف ہے جس کا شاید منیر نیازی کو خیال نہ رہا ہو۔ دوسرے یہ کہ منیر نیاز کی نظم بعنوان '' ہونی دے حیلے ‘‘ اپنے آخر میں دو مصرعوں پر مکمل ہو جاتی ہے جس کے بعد مذکورہ آخری شعر کی ضرورت ہی باقی نہیں رہ جاتی ۔ اس پر واللہ اعلم بالصواب ہی کہہ سکتے ہیں !
اور اگر طالب جتوئی کا بیان یا دعویٰ درست بھی ہو تو منیر نیازی کو رعایتی نمبر دیتے ہوئے اسے توارد بھی کہا جاسکتا ہے ۔یا زیادہ سے زیادہ استفادہ ، کیونکہ اسے چربہ کہنا کچھ زیادہ صحیح نہ ہوگا۔ بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ہم شاعری میں وہی باتیں کرتے ہیں جو اس سے پہلے ہزاروں بار کہی جا چکی ہیں۔ بس تھوڑا سا اپنی ذات کا تڑکا لگا کر اسے ذرا مختلف کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ بقول سیف الدین مرحوم
سیف انداز بیاں رنگ بدل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں
ویسے بھی اس شعر میں جو سرائیکی کے الفاظ تھے ، منیر نیازی نے انہیں خالص پنجابی زبان میں تبدیل کرکے کم از کم اتنا اضافہ تو کیا ہے اس لئے
گر قبول افتد ہے عزّ و شرف
آج کا مقطع
شعر پھیکا ہی رہا، اس پہ، ظفرؔ
دل کا لیموں بھی نچوڑا میں نے