ترتیب و تدوین نوشاد کامران کی ہے اور اسے عرشیہ پبلی کیشنز دہلی نے چھاپا ہے۔ یہ احمد مشتاق کے تین مجموعوں: ''مجموعہ‘‘، ''گردِ مہتاب‘‘ اور ''اوراقِ خزانی‘‘ پر مشتمل ہے۔ اس سے پہلے یہ کلیات سنگِ میل لاہور سے بھی شائع ہو چکا ہے۔ پہلی کتاب'' مجموعہ‘‘ کا پیش لفظ نوشاد کامران کا قلمی ہے ‘جبکہ ''گردِ مہتاب‘‘ کا دیباچہ انتظار حسین نے لکھا ہے۔ تیسرے مجموعے ''اوراقِ خزانی‘‘ کے آخر پر ناصر کاظمی اور محمد سلیم الرحمن کا ایک ایک مضمون ہے۔
احمد مشتاق مجھ سے سینئر تھے اور ان کا پہلا مجموعہ کلام میرے مجموعے ''آبِ رواں‘‘ سے پہلے شائع ہو چکا تھا اور خاصا مقبول بھی رہا۔ اگر انتظار حسین‘ ناصر کاظمی اور احمد مشتاق کو اُس وقت کی ایک تکون کہیں تو کچھ ایسا غلط نہ ہوگا۔ ناصر کاظمی ‘ میرؔ کی روایت کے علم بردار تھے اور تقریباً براستہ فراق گورکھپوری ‘جبکہ احمد مشتاق بھی کم و بیش اسی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے‘ لیکن اپنی الگ اور منفرد آواز کے ساتھ پاک ٹی ہاؤس میں ان کے ساتھ ہمیشہ بیٹھنے والوں میں حنیف رامے‘ شیخ صلاح الدین اور محمد سلیم الرحمن تھے۔ فکشن کا محاذ انتظار حسین نے سنبھال رکھا تھا اور شاعری کا ناصر کاظمی اور احمد مشتاق نے۔ پاک ٹی ہاؤس میں داخل ہوتے ہی دائیں کونے میں ان کی منڈلی جمی ہوتی اور انہوں نے باقاعدہ ایک سکول آف تھاٹ کی حیثیت اختیار کر رکھی تھی اور جو ہمیشہ مرکزی پوزیشن کے حامل رہے۔ انہی کی وجہ سے ٹی ہاؤس کو ایک خصوصی مرتبہ اور اعزاز بھی حاصل رہا۔ حنیف رامے شاعر تو نہیں تھے‘ لیکن ''سویرا‘‘ اور پھر ہفتہ وار ''نصرت‘‘ میں انہوں نے خاصی رونق لگا رکھی تھی۔ یاد رہے کہ رامے صاحب نے ایک عرصے کے بعد مجھے اپنی نظموں کا مسودہ بھجوایا اور اس پر میری رائے مانگی۔ میں نے سرسری مطالعے کے بعد انہیں کہا کہ آپ کا مصوری میں بڑا نام ہے اور یہ نظمیں اُس معرکے کی چیز نہیں ؛ چنانچہ انہوں نے انہیں کتابی شکل نہ دی؛ البتہ اُن کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادے ابراہیم رامے نے انہیں کتابی شکل میں چھپوا دیا ہے۔
واضح رہے کہ یہ کلیات بھارت سے پہلے بھی شائع ہو چکا ہے۔ بھارت سے اس کی اشاعت دوم ہے۔ ہمارے کرم فرما شمس الرحمن فاروقی‘ احمد مشتاق کے خاص مداحین میں سے ہیں اور پہلا کلیات غالباً انہی کے اہتمام سے شائع ہوا تھا‘ بلکہ یہ کتاب بھی مجھے ''شب خون‘‘ کتاب گھر کے توسط سے موصول ہوئی ہے اور عزیزی محمود الحسن کی زبانی سنا بھی یہی تھا کہ یہ مجموعہ بھی فاروقی صاحب کی زیر نگرانی مرتب اور شائع ہوا ہے۔ٹائٹل پر شاعر کی تصویر اور پس سر ورق شمس الرحمن فارقی کی مختصر تحسینی رائے درج ہے۔انتظار حسین کے بقول: ''زمین کا یہاں ذکر نہیں۔ وہ تو پہلے ہی میلی ہو چکی تھی۔ آسمان رہ گیا۔ سو زمین سے اٹھتا دھواں اب اسے بھی میلا کیے دے رہا ہے اور اب میری سمجھ میں کچھ کچھ آ رہا ہے کہ مشتاق کے یہاں دریا کا ذکر کیوں بار بار آتا ہے۔ چیزوں کو پاک و صاف دیکھنے کی خواہش نے دریا میں اس کیلئے اتنی کشش‘ اتنی جاذبیت پیدا کر دی ہے۔ اس زمین پر آبِ رواں سے زیادہ پاک و صاف کونسی چیز ہو سکتی ہے‘‘۔
ناصر کاظمی کو احمد مشتاق پر کھل کر لکھنا چاہیے تھا‘ لیکن وہ ڈیڑھ صفحے میں اِدھر اُدھر کی ہانک کر فارغ ہو گئے‘ تاہم محمد سلیم الرحمن نے کسی حد تک اُس کا حق ادا کر دیا۔ لکھتے ہیں:''احمد مشتاق آئینہ فروش نہیں‘ آئینہ نما ہے۔ اس کے شعروں میں دنیا کا عکس پڑتا ہے۔ دلوں کی بے کرانی کی جھلک نظر آتی ہے۔ یہ غزلیں کہاں ہیں‘ یہ شعر کہاں سے ہیں! یہ تو کسی بہت بڑے آئینے کی ٹوٹ پھوٹ کی گواہیاں ہیں۔ دل بھی ٹوٹ جاتا ہے‘ لیکن آئینے کے پرخچوں کی طرح کبھی آسمان کو سمو لیتا ہے‘ کبھی زمین کی سیر دکھاتا ہے۔ شاید اس کام میں آئینوں کی بجائے بے داغ شیشوں کی سی شفافی اور سفاکی ہے۔ آر پار ہر شے یوں نظر آتی ہے‘ جیسے درمیان میں کچھ حائل نہیں۔ پرندے اڑتے آتے ہیں اور دل میں کہتے ہیں کہ سامنے جو ہرا بھرا گھنا درخت ہے‘ اس پر آشیاں بنائیں گے۔ آ کر شیشے سے ٹکراتے ہیں اور مرتے مرتے سوچتے ہیں کہ دنیا کتنی پُر فریب ہے۔ یہی ان شعروں کی شفافی اور سفاکی ہے کہ جہاں بات بن گئی ہے اور اکثر بن ہی جاتی ہے‘ اسے پڑھ کر دل دو نیم ہو جاتا ہے‘‘۔
میری اپنی رائے احمد مشتاق کے بارے میں کیا ہے‘ اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ میں نے اپنے کلیات کی چوتھی جلد کا انتساب اُس کے نام کیا ہے!اب میں احمد مشتاق کے صرف وہ شعر درج کر رہا ہوں‘ جو مجھے زبانی یاد ہیں:
چلتے چلتے جو تھکے پاؤں تو ہم بیٹھ گئے
نیند گٹھڑی پہ دھری‘ خواب شجر پر رکھا
جانے کس دم نکل آئے ترے رخسار کی دھوپ
دھیان ہر لحظہ ترے سایہ در پر رکھا
رو پڑا ہوں کاغذِ خالی کی صورت دیکھ کر
جن کو لکھنا تھا وہ باتیں سب زبانی ہو گئیں
رہ گیا مشتاقؔ دل میں رنجِ یادِ رفتگاں
پھول مہنگے ہو گئے‘ قبریں پرانی ہو گئیں
ہوتی ہے شام‘ آنکھوں سے آنسو رواں ہوئے
یہ وقت قیدیوں کی رہائی کا وقت ہے
یہ پانی خامشی سے بہہ رہا ہے
اسے دیکھیں کہ اس میں ڈوب جائیں
انوکھی چمک اُس کی آنکھوں میں تھی
مجھے کیا خبر تھی کہ مر جائے گا
وہ پتیوں سے بھری ٹہنیاں‘ تری باہیں
بُلا رہے ہیں شجر تیرے آستانے کے
تُو اگر پاس نہیں ہے‘ کہیں موجود تو ہے
تیرے ہونے سے بڑے کام ہمارے نکلے
آج کا مقطع
ذاکرہ ہے کوئی اور خوب رولاتی ہے ظفرؔ
مجلسیں پڑھتی ہوئی دل کے عزا خانے میں