کُشتی لڑنا: اس کیلئے باقاعدہ پہلوان ہونا ضروری ہے اور چاروں شانے چت ہونے تک اس کا فیصلہ نہیں ہو سکتا ہے اور اس کا مطلب ہے کہ دونوں پہلوان چت ہو جائیں ‘کیونکہ ایک پہلوان کے صرف دو ہی شانے ہوتے ہیں۔ پہلوان‘ اگر دھوبی ہو تو اس کے جیتنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں ‘کیونکہ وہ دھوبی پٹرا مار سکتا ہے۔ دونوں پہلوان پہلے گرز سے ایک دوسرے پر حملہ آور ہوتے ہیں اور اگر بچ جائیں تو کشتی کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے۔ فری سٹائل کشتی میں صرف ''ہورا مکّی‘‘ سے کام لیا جاتا ہے۔
الیکشن لڑنا: اس کا مقصد اور مرکز صرف دھاندلی کرنا ہوتا ہے‘ جو امیدوار زیادہ دھاندلی بروئے کار لے آئے‘ وہی کامیاب قرار پاتا ہے‘ جس میں اوپر کا اشارہ اور کارگزاری بھی شامل ہوتی ہے۔ ہارا ہوا امیدوار دوبارہ گنتی کی درخواست دیتا ہے اور جب تک مقابل میدان چھوڑ کر بھاگ نہ جائے ‘یہ درخواستیں اور گنتی جاری رہتی ہے۔ الیکشن کے دوران بریانی کی گہما گہمی بھی جاری رہتی ہے۔الغرض الیکشن میں آخری فتح حاصل ہونے پر مٹھائیاں تقسیم ہوتی ہیں اور ہوائی فائرنگ کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔
دوبدو لڑنا: کبھی یہ شعر کہا تھا ؎
دوبدو ہو کر لڑے گا جس گھڑی جانیں گے ہم
دور کی ان دھمکیوں سے کس طرح مانیں گے ہم
کیونکہ بعض اوقات‘ بلکہ اکثر اوقات دھمکی سے بھی کام چل جاتا ہے‘ کیونکہ ایک فریق انتہائی لاغر ہوتا ہے اور اپنی شکست ِ فاتحانہ پر ہی خوش رہتا ہے اور اندر اندر شرمندہ بھی رہتا ہے۔
نہتے لڑنا: اس کے لیے آدمی کا مومن ہونا ضروری ہے‘ کیونکہ وہ بے تیغ بھی لڑ سکتا ہے اور زیادہ تر بد دُعائوں اورلعن طعن سے کام لیتا ہے اور اکثر اوقات اس لڑائی میں کام آ جاتا ہے‘ یعنی ع
کامیابی میری سب ناکام رہ جانے میں ہے
تاہم وہ حوصلہ نہیں ہارتا اور کسی غیبی امداد کا منتظر ہوتا ہے؛ حالانکہ اسے چاہیے کہ لڑنے سے پہلے کسی چھوٹے موٹے ہتھیار ہی کا بندوبست کر لے اور اس وقت تک لڑائی کو ملتوی کر لے جب تک اسے کوئی ہتھیار دستیاب نہ ہوجائے۔
بٹیر لڑانا: اس کے لیے بٹیر کو آٹھ دس روز تک بھوکا رکھنا ضروری ہے‘ تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ لڑ سکے اور اگر وہ آدھا تیتر اور آدھا بٹیر ہو تو لڑانے والا پہلے یہ طے کر لے کہ اس نے اسے تیتر سے لڑانا ہے یا بٹیر سے ‘ورنہ کسی ایسے بٹیر کا بندوبست کرے‘ جو صرف بٹیر ہو‘ تا کہ اسے کسی بٹیرے سے لڑایا جا سکے۔ ہارے ہوئے بٹیر کو فوری طور پر ذبح کر لیا جاتا ہے‘ تا کہ وہ اسی حالت میں حرام نہ ہو جائے۔ شوقین لوگ بٹیر کو ہر وقت ہاتھ میں رکھتے ہیں ‘تا کہ ظاہر ہو سکے کہ وہ واقعی صاحبِ بٹیر ہیں!
مرغے لڑانا: اس لڑائی میں صرف وہی مرغا کامیاب رہتا ہے‘ جو بانگ بھی دے سکتا ہو۔ ایک صاحب نے ریسٹورنٹ میں جا کر مرغِ مسلم کا آرڈر دیا۔ جب وہ آیا تو مرغے کی ایک ٹانگ غائب تھی۔
''اس کی دوسری ٹا نگ کدھر ہے؟‘‘ اس نے بیرے سے پوچھا۔
جناب دراصل یہ ایک اور مرغے سے لڑ پڑا تھا‘ جس میں اس کی ایک ٹانگ ضائع ہو گئی‘‘ بیرا بولا۔
''میرے لیے وہ مرغا لائو ‘جو اس لڑائی میں فتحیاب ہوا تھا‘‘ اس صاحب نے نیا آرڈر دیا۔
پیچ لڑانا: خاصی مزیدار چیز ہے ‘لیکن سارا مزہ اس وقت کرکرا ہو جاتا ہے جب پتنگ بازی پر پابندی ہو اور آپ پتنگ اڑاتے پکڑے جائیں‘ بیشک پیچ لڑانے کی نوبت نہ ہی آئی ہو اور آپ اکیلے پتنگ اڑا رہے ہوں۔ اتنے پیچ لڑانے کی بجائے پتنگ لڑانا کتنا زیادہ مناسب ہے ‘کیونکہ اس میں پیچ تو کیا‘ پیچ کس بھی نہیں ہوتا۔ یہ فضول کام ہے‘ کیونکہ ضروری نہیں کہ کٹی ہوئی پتنگ آپ کے ہاتھ بھی آئے۔
آنکھیں لڑانا: اگرچہ یہ آنکھیں خاصی امن پسند واقع ہوئی ہیں‘ اس لیے آنکھ لڑانے کی بجائے آنکھ لگانا زیادہ مناسب ہوگا‘ تاہم سو جانا بھی آنکھ لگنے یا لگانے کے برابر ہے۔ اس لیے نیند میں وہ کام نہیں ہو سکتا ‘جو آپ جاگ کر کرنا چاہتے ہوں؛ اگرچہ اس مقصد کے لیے سونا بھی ممکن ہے ‘یعنی ؎
امیدِ وصل میں سو جائیں ہم اگر‘ تو ظفرؔ
ہماری خواب سرا میں پتنگ اڑتی ہے
ڈانگ سوٹے دستیاب ہیں
لڑائی وغیرہ کے لیے ہمارے ہاں ہر طرح کے ڈانگ سوٹے بازار سے با رعایت خرید فرمائیں‘ اگر کسی کی بھینس پر نظر ہو اور اسے اپنانا چاہتے ہوں تو ہماری فروخت کردہ لاٹھی کو آزما کر دیکھیں۔ چارپائی کے نیچے پھیرنے کے لیے مخصوص ڈانگ بھی مل سکتی ہے۔ بغرض لڑائی استعمال کرنے کے طریقے بھی بتائے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں لکیر پیٹنے کے لیے مخصوص سوٹا بھی دستیاب ہے۔
اور اب آخر میں اقتدارؔ جاوید کی غزل
اِک آدھ پل مرے آزار کا تماشا ہے
جو اصل میں ہے لگاتار کا تماشا ہے
ہے یُوں تو منطقہ حارہ وجود میں دائم
کہیں کہیں گُل و گلزار کا تماشا ہے
جہان خلق کیے جا رہے ہیں چاروں طرف
ذرا سا طبع گرفتار کا تماشا ہے
ہے جمع دید کی خاطر یہاں مژہ پہ مژہ
کہ ایک دیدۂ خُونبار کا تماشا ہے
فریب ہے یہ خریدار کے گزرنے تک
گرفتِ کوچہ و بازار کا تماشا ہے
تماشا گاہیں عقب میں ہزار ہیں ایسی
یہ آبشار کی اک دھار کا تماشا ہے
جمی ہوئی ہے تماشائی کی نظر جاویدؔ
کہ بارِ آخر میں آثار کا تماشا ہے
آج کا مقطع
گزر گئی تھی مجھے کچل کر ظفرؔ کوئی شے
وگرنہ میں تو کہیں کنارے پہ جا رہا تھا