"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں ، متن اور تازہ غزل

ریکارڈ بارشوں اور سیلاب کا
مقابلہ تنہا نہیں کر سکتے: شہباز شریف
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''ہم ریکارڈ بارشوں اور سیلاب کا مقابلہ تنہا نہیں کر سکتے‘‘ کیونکہ ایک ہی کام ہے جسے ہم زیادہ خوش اسلوبی سے تنہا کر سکتے ہیں اور جس میں ہمارا کوئی ثانی آج تک پیدا نہیں ہوا، ماسوائے ہمارے کچھ اتحادیوں کے جو اس فن میں ہماری طرح یدطولیٰ رکھتے ہیں کیونکہ ان کا طریق کار ذرا مختلف ہے اور زیادہ کارگر بھی، حالانکہ اس ادنیٰ ایجاد کا سہرا ہمارے ہی سر بندھتا ہے کیونکہ ان کا زیادہ زور بے نامی پر تھا لیکن ہم ساتھ ساتھ غریب پروری بھی کر رہے تھے جن میں پاپڑ فروش، فالودہ والے، چپڑاسی، ڈرائیور اور مالی وغیرہ شامل تھے جن کی ہم نے کایا ہی بدل دی تھی بیشک وہ زبانی طور پر ہی تھی۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔
ہواؤں کا رُخ بتا رہا ہے کہ آنے والا
وقت پی ٹی آئی کا ہے: ہمایوں اختر
سابق وفاقی وزیراور پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما ہمایوں اختر نے کہا ہے کہ ''ہواؤں کا رُخ بتا رہا ہے کہ آنے والا وقت پی ٹی آئی کا ہے‘‘ اور یہ بات مجھے ہواؤں نے خود بتائی ہے جن کے ساتھ میری بات چیت جاری رہتی ہے اور یہ انکشاف انہوں نے میرے ہوائی قلعے بنانے کے دوران کیا تھا جسے سُن کر چہرے کی ہوائیاں اُڑ گئی تھیں کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کیونکہ موجودہ ہواؤں کا رُخ تو دوسری طرف ہے؛ تاہم یہ نہ سمجھا جائے کہ یہ ہوائی کسی دشمن نے اُڑائی ہے جبکہ میں اس وقت ہوا کے گھوڑے پر بھی سوار تھا؛ اگرچہ میرا ہاتھ باگ پر نہ پاؤں رکاب میں تھا۔ آپ اگلے روز پارٹی رہنماؤں اور متحرک کارکنوں سے خطاب کر رہے تھے۔
اُمید ہے شہباز شریف ملک کو عمران کے
پیدا کردہ بحران سے نکالیں گے: نواز شریف
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ'' امید ہے کہ شہباز شریف ملک کو عمران خان کے پیدا کردہ بحران سے نکالیں گے‘‘ بلکہ اس سے بھی پہلے انہیں میرے اور اپنے پیدا کردہ بحران سے ملک کو نکالنا چاہیے کیونکہ تاریخی اور تدریجی مراحل کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے اور یہ وہی تاریخ ہے جو سنہری لفظوں سے لکھی جائے گی جبکہ میرا نمبر خان صاحب سے بھی پہلا ہے اور یہ کام انہیں مجھ سے شروع کرناچاہیے جبکہ عمران خان کا نمبر ہم سب کے بعد میں آتا ہے لیکن جو حکومت ابھی تک میری نااہلی ختم نہیں کرا سکی وہ ملک کو بحران سے کیا نکالے گا، اگرچہ یہ کام بھی صرف میں ہی کر سکتا ہوں کیونکہ مجھے بحران کی ساری پیچیدگیوں کا بخوبی علم ہے۔ آپ اگلے روز لندن سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
پی پی سیلاب زدگان کی آڑ میں
مال اکٹھا کر رہی ہے: علی زیدی
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما علی زیدی نے کہا ہے کہ ''پی پی سیلاب زدگان کی آڑ میں مال اکٹھا کر رہی ہے‘‘ اور ایک طرح سے ملک کی خدمت ہی کر رہی ہے کیونکہ بکھرا ہوا مال قطعی طور پر غیر محفوظ ہوتا ہے جسے اکٹھا کر کے ہی بچایا جا سکتا ہے، اور یہ پارٹی شروع ہی سے فلاحِ عامہ کا یہ کام کرنے میں مصروف ہے اور اسے امانت کے طور پر اپنے پاس ہی رکھ رہی ہے تاکہ ملکی ضروریات پوری کی جا سکیں جن میں سیاسی ضروریات بھی شامل ہیں کیونکہ سیاست دانوں کی حفاظت بھی اتنی ہی ضروری ہے اور اس طرح سیاست اور مال دونوں کو محفوظ کیا جا رہا ہے۔ آپ اگلے روز کراچی سے ایک وڈیو بیان جاری کررہے تھے۔
حکومت کی تمام پالیسیوں کا محور
عوام کی فلاح و بہبود ہے: گورنر پنجاب
گورنر پنجاب بلیغ الرحمن نے کہا ہے کہ ''حکومت کی تمام پالیسیوں کا محور عوام کی فلاح و بہبود ہے‘‘ اگرچہ فلاح و بہبود کے بجائے عوام کی حالت روز بروز پتلی سے مزید پتلی ہوتی جا رہی ہے جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ تمام پالیسیاں اپنے محور کے گرد گھوم کر اور چکر کاٹ کاٹ کر بے حال ہو چکی ہیں جس نے عوام کو بھی چکرا کر رکھ دیا ہے اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ پالیسیوں کی اس محور سے جان چھڑائی جائے تاکہ پالیسیوں کو قدرے دم لینے کا موقع ملے کیونکہ یہ محور گھومنے کے ساتھ ساتھ گھماتا بھی ہے‘ اس لیے وقت کی ضرورت ہے کہ پالیسیوں کو اس محور سے آزاد کر دیا جائے۔ آپ اگلے روزگورنر ہائوس میں ایک وفد سے ملاقات کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں یہ تازہ غزل:
حصّہ وہاں اپنا کوئی ڈالا ہی نہیں تھا
اُس نے ابھی محفل سے نکالا ہی نہیں تھا
دراصل ترے فرش میں تھی ہی کشش اتنی
گرتے ہوئے خود کو جو سنبھالا ہی نہیں تھا
شرمندہ ہیں جس پیڑ کی ہم چھاؤں میں بیٹھے
ہم نے کسی صورت اسے پالا ہی نہیں تھا
دراصل تو وہ جان ہی چھڑوانی تھی اس نے
ورنہ کوئی اس نے مجھے ٹالا ہی نہیں تھا
کوشش تھی کوئی خود سے جدا ہونے کی ہی کچھ
اُس لہر نے کچھ مجھ کو اچھالا ہی نہیں تھا
ویسے تو وہ تھی ساری کہانی ہی مرے گرد
اور اس میں کوئی میرا حوالہ ہی نہیں تھا
نغمہ کوئی تھا ہی نہیں وہ سننے کے قابل
منظر وہ کوئی دیکھنے والا ہی نہیں تھا
پھیکا ہی رہا خوانِ سخن سامنے اس کے
شامل جو کوئی مرچ مسالا ہی نہیں تھا
ڈھونڈا کیے چابی جو ظفرؔ اُس کی ہم اک عمر
دروازے پہ اُس کے کوئی تالا ہی نہیں تھا
آج کا مطلع
کچھ دنوں سے جو طبیعت مری یکسو کم ہے
دل ہے بھرپور مگر آنکھ میں آنسو کم ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں