خواتین کے خلاف تشدد انسانی حقوق
کی خلاف ورزی ہے: وزیراعظم
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''خواتین کے خلاف تشدد انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے‘‘ تاہم ملکی خزانے اور وسائل کا ضیاع عوام کے حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے کیونکہ ایک تو یہ معمولی بات ہے اور دوسرا اس کے بغیر گزارا بھی نہیں ہے کیونکہ اگر سیاست میں یہ کچھ نہ کیا جائے تو سیاست اور اقتدار میں آنے کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے‘ نیز ایسے الزامات پر اپنی بے گناہی کے لیے دھیلوں اور پائیوں کی بار بار قسم بھی کھائی جا سکتی ہے جبکہ مقدمات کی پیشیوں کے لیے تاریخیں دینے میں نظام انصاف بھی نہایت فیاضی سے کام لیتا ہے۔ آپ اگلے روز خواتین پر تشدد کے عالمی دن پر ٹویٹ کے ذریعے اظہارِ خیال کر رہے تھے۔
امپورٹڈ حکومت نے تباہی کے تمام
ریکارڈ توڑ دیے: شوکت ترین
سابق وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ ''امپورٹڈ حکومت نے تباہی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے‘‘ حالانکہ توڑ پھوڑ کوئی اچھی چیز نہیں ہے کیونکہ ٹوٹی ہوئی چیز آسانی سے جڑتی بھی نہیں ہے کیونکہ ایک بنا بنایا ریکارڈ بھی دل کی طرح ہوتا ہے کہ جس طرح ٹوٹا ہوا دل دوبارہ جوڑنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا اس طرح ریکارڈ بھی ایک نہایت نازک چیز ہوتی ہے‘ اگرچہ اس تباہی میں مقدور بھر حصہ ہمارا بھی ہو سکتا ہے لیکن ہم نے اس کا کوئی ریکارڈ نہیں توڑا اور نہ ہی کوئی نیا ریکارڈ قائم کرنے کی کوشش کی کیونکہ ہم نئے نئے تھے اور ابھی تو سارا کام سیکھ ہی رہے تھے کہ ہماری حکومت ختم کر کے ہمارا یہ منصوبہ بھی ساتھ ہی ختم کر دیا گیا۔ آپ اگلے روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
ماحول کو نقصان پہنچانے والے ایندھن
کا استعمال ختم کرنا ہوگا: بلاول بھٹو
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''ماحول کو نقصان پہنچانے والے ایندھن کا استعمال ختم کرنا ہوگا‘‘ البتہ ماحول کو نقصان پہنچانے والی کرپشن کو ختم نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ سیاستدانوں کے خون میں باقاعدہ شامل ہو چکی ہے اور جس سے اسے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا حالانکہ ہم نے اسے ختم کرنے کے لیے بھرپور کوششیں کی ہیں لیکن اب تھک ہار کر اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا ہے اور اسے ایک ٹھوس حقیقت کے طور پر تسلیم بھی کر لیا ہے۔ آپ اگلے روز ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دے رہے تھے۔
وزیراعلیٰ پنجاب عمران خان کے
ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہیں: مونس الٰہی
سابق وفاقی وزیر چودھری مونس الٰہی نے کہا ہے کہ ''وزیراعلیٰ پنجاب عمران خان کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہیں‘‘ حالانکہ انہیں اس سے منع بھی کیا گیا کہ اُن کی صحت انہیں یوں ڈٹ کر کھڑے رہنے کی اجازت نہیں دیتی‘ نیز ان کی عمر کا تقاضا بھی ہے کہ اس سے پرہیز کریں اور کبھی کبھار بیٹھ بھی جایا کریں لیکن وہ کہتے ہیں کہ چونکہ ڈٹ کر بیٹھا نہیں جا سکتا اس لیے وہ ڈٹ کر کھڑے رہنا ہی پسند کرتے ہیں۔ آپ اگلے روز وزیر دفاع کے پرویز الٰہی کے بارے بیان پر اپنے ردِعمل کا اظہار کر رہے تھے۔
ملک کا نظام چلانے کے لیے نیب
کا ادارہ ختم کرنا ہوگا: خاقان عباسی
سابق وزیراعظم اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ''ملک کا نظام چلانے کے لیے نیب کا ادارہ ختم کرنا ہوگا‘‘ کیونکہ اس کے قانون میں ترمیم کے بعد بھی ہمارے اکثر مقاصد پورے نہیں ہوئے اور ہمارے قائد کے خلاف بھی سزائیں اور مقدمات جوں کے توں ہیں اور وہ ایک سے دوسرے ملک میں دھکے کھاتے پھرتے ہیں اور ہم سے بجا طور ناراض بھی ہیں کہ ہم میں سے زیادہ تر نے اپنے اُلو سیدھے کر لیے لیکن اُن کی حالتِ زار پر توجہ ہی نہیں کی‘ لہٰذا ہم جب تک اُن سے سرخرو نہیں ہوتے‘ ہمارا ہونا نہ ہونا ایک برابر ہے اور جب تک نیب کو ختم نہ کیا جائے اس کے تحت دی گئی سزاؤں کو ختم نہیں کیا جا سکتا اور نسخۂ کیمیا بھی یہی ہے۔ آپ اگلے روز احتساب عدالت میں پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں ڈاکٹر ابرار احمد کی نظم:
رات آتی ہے
دریچوں میں‘ گزر گاہوں میں
شہر پر شور کے دروازوں میں
اور آنکھوں کے نہاں خانوں میں
جیسے خوابوں کا دھواں اڑتا ہے
رات آتی ہے تو نیندوں میں کہیں
دیکھے‘ اَن دیکھے دیے جلتے ہیں
کسی مدفون زمانے کے کناروں سے ابھر آتی ہے
چہرۂ خاک پہ جھک آتی ہے‘ سایہ بن کر
خوابِ موجود کی تعبیرِ گزشتہ بن کر
رات آتی ہے تو ہم دیکھتے ہیں
کتنے دِن بیت گئے‘ کتنی رتیں ہیں باقی
اس سے ملنے کی‘ بچھڑ جانے کی
دل میں اب کیسے نشاں جلتے ہیں
آنکھ میں کتنے مناظر ہیں ابھی تک زندہ
کیا کسی یاد کی مٹی ابھی اڑتی ہے کہیں سانسوں میں؟
کیسے امکان ہیں‘ کیسے دکھ ہیں‘عمر دو روزہ میں
کیا کچھ نہیں کر پائے ہیں ہم
گریہ کرتی ہوئی آوازوں کا مسکن ہے یہ رات!
نیند اڑتی ہے تو ہم کہتے ہیں اے سیاہ پوش بتا!
ختم ہو پائے گا کب تنگیٔ کون و مکاں میں یہ بھٹکنے کا سفر
رات ہنستی ہے‘ رلاتی ہے ہمیں
ہم یہ کہتے ہیں کہ اے رات‘ ستاروں بھری رات!
اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں جلیں گے کب تک
کب تلک ہم کو میسّر ہے ابھی
ہم کلامی کی یہ فرصت‘ یہ خموشی‘ یہ سکوں
کب تلک خواب جنوں؟
دل میں موہوم ابد کی یہ صدائیں کب تک
کفِ افسوس ملیں گے کب تک؟
رات بڑھتی ہے‘ لبھاتی ہے ہمیں
اور کوئی لوری سناتی ہے ہمیں
اور ہم میلے تکیوں میں‘ لحافوں میں دبک جاتے ہیں
بھیگی آنکھوں سے اسے دیکھتے ہیں
دیکھتے دیکھتے سو جاتے ہیں
آج کا مقطع
اک دور کے سفر پہ روانہ بھی ہوں ظفرؔ
سست الوجود گھر میں پڑا بھی ہوا ہوں میں