عمران صاحب‘ آپ کو ڈیل ملے گی
اور نہ ہی ڈھیل: مریم اورنگزیب
وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''عمران صاحب‘ آپ کو ڈیل ملے گی اور نہ ہی ڈھیل‘‘ کیونکہ جنہیں یہ چیزیں ملنا تھیں‘ انہیں مل چکی ہیں‘ اُنہیں ایک جگہ سے ڈیل ملی تو دوسری جگہ سے ڈھیل کیونکہ دونوں کے ماخذ مختلف ہیں اور اگر وہ دونوں چیزیں مکمل طور پر حاصل کر چکے ہیں تو باقی کیا رہ گیا ہے جس کی عمران توقع کر رہے ہیں اور الیکشن الیکشن بھی پکارا چلا جا رہاہے لیکن یاد رکھیں کہ انہیں وہ سہولت بھی نہیں ملے گی کیونکہ جب تک نئی حلقہ بندی نہیں ہو جاتی‘ الیکشن کیسے ہو سکتے ہیں اور جس کے لیے ویسے بھی ایک طویل مدت درکار ہے‘ اس لیے بہتر ہے کہ اسی تنخواہ پر کام کرتے رہیں حالانکہ اب یہ آپ کے کرنے کا کام بھی نہیں رہا۔ آپ اگلے روز سابق وزیراعظم عمران خان کے بیان پر اپنے ردِعمل کا اظہار کر رہی تھیں۔
ہم جمہوریت پر حملہ روکیں گے: قمر زمان کائرہ
وزیراعظم کے مشیر برائے آزاد کشمیر وگلگت بلتستان اور پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ''ہم جمہوریت پر حملہ روکیں گے‘‘ کیونکہ جو جمہوریت ہمارے ہاں رائج ہے اور اراکینِ اسمبلی جس طرح سے منتخب ہوتے ہیں اور جس طرح اقتدار حاصل کیا جاتا ہے اور اس سے یار لوگوں کو جو بھاگ لگتے ہیں اس کا تقاضا اب اور کیا ہو سکتا ہے کہ اس پر ہر طرح کے حملے کو ناکام بنایا جائے اور اس سلسلے میں ذرا سی بھی کوتاہی اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے جبکہ اس عجیب الخلقت چیز کو بچانے میں ہی ہم سب کی عافیت ہے اور ہم یہ کفرانِ نعمت کبھی نہیں ہونے دیں گے۔ آپ اگلے روز لاہور کے صدر اسلم گل کی طرف سے دیے گئے ناشتے میں شریک تھے۔
میں نے اپنا ساتھی ڈھونڈ لیا: ریحام خان
ریحام خان نے کہا ہے کہ ''میں نے اپنا ساتھی ڈھونڈ لیا‘‘ اور اسی کو ''جویندہ یابندہ‘‘ کہتے ہیں‘ تاہم اس کے لیے جو دوڑ دھوپ کرنا پڑی وہ ایک الگ داستان ہے بلکہ میں تو اخبار میں تلاشِ گم شدہ کا اشتہار بھی دینے والی تھی کہ اگر وہ رابطہ کرے گا تو اسے کچھ نہیں کہا جائے گا جبکہ اس کے لیے سب سے بڑی سہولت اور یہ کشش بھی موجود تھی کہ یہ بندھن تھوڑے عرصے ہی کے لیے ہوگا جیسا کہ ریکارڈ سے ظاہر ہے‘ تاہم بالآخر میں اسے تسلی اور یقین دلانے میں کامیاب ہو گئی ہوں کہ یہ آزمائش زیادہ طویل نہیں ہوگی۔ آپ اگلے روز ویب سائٹ پر اپنی شادی کی تصویر شیئر کرتے ہوئے اپنے مداحوں کو اس سے آگاہ کر رہی تھیں۔
والدین شادی کیلئے لڑکیوں پر دباؤ نہ ڈالیں: حنا الطاف
معروف اداکارہ حنا الطاف نے کہا ہے کہ ''والدین شادی کے لیے لڑکیوں پر دباؤ نہ ڈالیں‘‘ کیونکہ دباؤ کے تحت کیا گیا کوئی بھی کام پائیدار نہیں ہوتا جبکہ لڑکیوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ بالآخر انہیں شادی کر لینی چاہئے کیونکہ اگر اس سوچ بچار کے دوران آدھی سے زیادہ عمر بھی گزر جائے تو وہ اس کی ذمہ دار بھی خود ہوتی ہیں کیونکہ ان کے ذمہ دار ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہئے‘ اس لیے لڑکیوں کو ان کے اس پیدائشی حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا جبکہ انہیں یہ بھی حق حاصل ہونا چاہیے کہ انہیں کب تک شادی شدہ ہونا ہے لہٰذا جن والدین کے لیے اپنی لڑکیوں کی کوئی اہمیت ہے‘ انہیں ان باتوں کا خود ہی خیال رکھنا چاہئے۔ آپ اگلے روز ایک انٹرویو میں اپنی آراء کا اظہار کر رہی تھیں۔
اداکاری میں آئی تو میرا خوب مذاق اڑایا گیا: دیپکا
بالی وڈ اداکارہ دیپکا پڈوکون نے کہا ہے کہ ''اداکاری میں آئی تو میرا خوب مذاق اڑایا گیا‘‘ حالانکہ یہ مذاق اگر میری اداکاری کو دیکھ کر اڑایا جاتا تو زیادہ مناسب تھا کیونکہ قبل از وقت اندازے لگانا مناسب نہیں ہوتا چاہے وہ درست ہی کیوں نہ ہوں جبکہ میرا بھی خیال تھا کہ اگر شکل اچھی ہو تو اداکاری کا فن کچھ زیادہ اہمیت نہیں رکھتا اور رفتہ رفتہ بندہ اداکاری بھی سیکھ ہی جاتا ہے کیونکہ سیکھنے کی اہمیت یہ ہے کہ آدمی ساری عمر سیکھتا ہی رہتا ہے اور میں بھی اسی پر عمل کر رہی ہوں جبکہ اس سکھلائی میں آدھی عمر ویسے بھی گزر چکی ہے لیکن میں اپنے عزم پر پوری مستقل مزاجی سے قائم ہوں۔ آپ اگلے روز ممبئی میں ایک انٹرویو میں اظہارِ خیال کر رہی تھیں۔
اور‘ اب آخر میں ڈاکٹر ابرار احمد کی نظم:
مجھے جانے دو
شام کو پرندے ‘ درختوں پراور مسافر
کسی سرائے میں اترتے ہیں
آنسو آنکھوں کواور یادیں دلوں کو چھوڑ دیتی ہیں
گھر سے نکلنے والاایک دن لوٹا دیا جاتا ہے
مچھلیاں اپنے اصل پانیوں کو واپس جاتی ہیں
ریت پر پھینک کر تماشا مت دیکھو مجھے جانے دو
ماربل کے چکنے فرش پہیوں اور رفتار کے چکر سے
خوش حالی اور آسائش کے دھوکے سے
ٹھوس لکڑی کی میخوں لگی قید
آہنی دروازوں‘کشادہ سڑکوں پر نپی تلی
چہل قدمیوں سے رات بھر
میں دیے جلاتا ہوں‘ ان قبروں پر
جو میرے دل میں بنتی جا رہی ہیں
اور دن بھرآنکھوں میں چراغ لیے
ایک ایسی رات میں پھرتا رہتا ہوں
جس کے کنارے معدوم نہیں ہوتے
میں دیکھتا نہیں ہوںہنستا روتا نہیں
کام ‘ کام نہیں فراغت ‘ فراغت نہیں
میں ‘ میں نہیں کوئی سایہ ہے
جو میرے ساتھ گھبرایا پھرتا ہے
تارکول کی سڑکوں پرتیز جلتی روشنیوں
لوگوں اور موٹروں سے بھری شاہراہوں پر
دور کہیں ہوا چلتی ہے پتوں کو اڑاتی ہوئی
سرد چولہے کے پاس لالٹین کی لو تھرتھراتی ہے
کھڑکیاں کھلنے اور بند ہونے کی آوازیں آتی ہیں
کسی اور آسمان پر بجلی چمکتی ہے
جو نہ جانے کن زمینوں کو روشن کرتی
کن دلوں کو ڈراتی ہے
ایک جانی‘ انجانی بارش مجھے اپنی جانب بلاتی ہے
مسلسل ‘ لگاتار‘ موسلا دھار
کسی اور طرف کے لوگوں کی جانب
کہیں اور کی اینٹوں کی ہمیشگی کی طرف
ان دروازوں تک
جو میری دستک کے انتظار میں ہیں
مجھے جانے دو
آج کا مطلع
یہاں سب سے الگ سب سے جدا ہونا تھا مجھ کو
مگر کیا ہو گیا ہوں اور کیا ہونا تھا مجھ کو