آخری سیلاب زدہ شخص کی بحالی تک
چین سے نہیں بیٹھوں گا: شہباز شریف
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''آخری سیلاب زدہ شخص کی بحالی تک چین سے نہیں بیٹھوں گا‘‘ اور اس میں کوئی مشکل بھی پیش نہیں آئے گی کیونکہ گزشتہ دور میں اس سلسلے میں کافی ریہرسل ہو چکی ہے جب مختلف مسائل کے حل کے ضمن میں چین سے نہ بیٹھنے کے دعوے کیے جاتے تھے۔ چنانچہ اس کام سے جلد از جلد فارغ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے اس بات کا پتا چلایا جائے کہ آخری سیلاب زدہ شخص کون ہے تاکہ اسے بحال کر کے چین سے بیٹھا اور دوسرے کاموں کی طرف توجہ دی جا سکے بلکہ بہتر تو یہی ہے کہ سیلاب زدگان کا آخری آدمی خود ہی حکومت سے رابطہ کر کے اپنا اور ہمارا کام آسان بنا دے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں مصطفی کمال اور قمر زمان کائرہ سمیت وفاقی کابینہ کے اراکین سے ملاقات کر رہے تھے۔
حکومت سیاسی کشیدگی کم نہیں کرا سکے گی: شیخ رشید
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اور سابق وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''حکومت سیاسی کشیدگی کم نہیں کرا سکے گی‘‘ حالانکہ ہم بھی اس سلسلے میں کافی کوشش کر رہے ہیں؛ البتہ اس ضمن میں علاج بالمثل کے طریقۂ علاج سے کام لے رہے ہیں کہ مرض کو اتنا بڑھا دیا جائے کہ وہ اپنے دباؤ سے خود ہی ختم ہو جائے اور ایسا لگتا ہے کہ اس طریقۂ علاج میں کچھ کسر باقی رہ گئی ہے؛ تاہم حکومت کا طریقۂ علاج شاید دوسرا ہے لیکن اصل میں وہ بھی یہی کچھ کر رہی ہے اور اُمید ہے کہ دونوں کی باہم مربوط کوششوں سے یہ کشیدگی جلد ہی خود بخود ختم ہو جائے گی جبکہ اس کا اصل علاج کوئی اور ہے جو کسی اور کے پاس ہے لیکن وہ بھی اسے آزمانے میں لیت و لعل سے کام لے رہا ہے۔ آپ اگلے روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
ہم نے سیاسی رنجشوں سے ملک
کا بُرا حال کر دیا: امیر مقام
مسلم لیگ نواز کے سینئر رہنما امیر مقام نے کہا ہے کہ ''ہم نے سیاسی رنجشوں سے ملک کا بُرا حال کر دیا‘‘ اگرچہ کئی افراد اپنے کارناموں سے اس کا پہلے ہی حال بُرا کر چکے تھے لیکن لگتا ہے کہ جو کسر پہلے باقی رہ گئی تھی‘ اسے بھی پورا کر دیا گیا ہے کیونکہ یہ ان کا طرئہ امتیاز ہے کہ جس کام کو شروع کرتے ہیں‘ اسے نقطۂ کمال تک پہنچا کر ہی دم لیتے ہیں اور میرا خیال ہے کہ ملک کا پہلے ہی کافی زیادہ بُرا حال ہو چکا ہے اس لیے ہمیں باقی ماندہ مسائل کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے تاکہ دنیا میں ہمارا بول بالا ہو اور جو کام بھی نیک نیتی سے کیا جاتا ہے‘ اس میں برکت بھی پڑ جاتی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں اداکار فردوس جمال کے گھر پر ان کی عیادت اور میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
پہلے احتساب‘ پھر انتخابات
کرائے جائیں: خرم نواز گنڈاپور
پاکستان عوامی تحریک کے سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈاپور نے کہا ہے کہ ''پہلے احتساب‘ پھر انتخابات کرائے جائیں‘‘ جبکہ اب تو احتساب کے سلسلے میں کافی تیز رفتاری سے کام لیا جا رہا ہے کیونکہ زیر عتاب جملہ افراد کو ایک ایک کر کے چھوڑا جا رہا ہے اور متعدد افراد کے مقدمات ہی واپس لیے جا رہے ہیں اور امید ہے کہ احتساب کا یہ سلسلہ بہت جلد اپنے منطقی انجام کو پہنچ جائے گا جبکہ اسی طرح بیرونِ ملک مقیم افراد کا احتساب مکمل کرنے کے لیے بھی مختلف طریقوں پر غور و خوض ہو رہا ہے جس کے اُمید افزا نتائج برآمد ہونے کی پوری پوری امید ہے جس کے بعد‘ اغلب گمان ہے کہ انتخابات کانٹا بھی نکل جائے گا۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
ڈیفالٹ کی باتیں کرنے والا ملک دشمن : احسن اقبال
وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقیات احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''ڈیفالٹ کی باتیں کرنے والا ملک کا دشمن ہے‘‘ کیونکہ ہونی نے اگر ہو جانا ہے تو صبر کے ساتھ اس کا انتظار کرنا چاہیے نہ کہ اس کا شور مچا مچا کر لوگوں کو پریشان کیا جائے کیونکہ یہ قدرت کے معاملات ہیں اور ان میں حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں ہے ماسوائے اس کے کہ اپنی کار گزاریوں کے ذریعے اس طرح کے حالات پیدا کر دیے جائیں اور اس لحاظ سے تو یہ کام بہت پہلے ہو جانا چاہئے تھا لیکن جیسے ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے جس پر وہ وقوع پذیر ہوتی ہے اور اس میں کسی بندے کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا‘ ویسے ہی اس کام کے ہونے‘ نہ ہونے میں بھی کوئی دخل اندازی نہیں کی جا سکتی۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں یہ تازہ غزل:
وہ رنگ تھا کہ وہیں اُڑ گیا جماتے ہی
ہمیشہ کے لیے چپ ہو گئے ہیں گاتے ہی
کوئی عجیب مسافر تھا وہ کہ میں خود بھی
بھٹک گیا ہوں جسے راستا دکھاتے ہی
اب اس کو توڑنا بھی ہو کسی طرح ممکن
ہمیں یہ لگ گئی ہے فکر گھر بناتے ہی
بہت ہی خوش تھے کہ موسم بدل رہا ہے‘ مگر
خزاں اک اور تھی برپا خزاں کے جاتے ہی
وہ بوجھ ہی تھا کچھ ایسا پڑا ہوا سر پر
اضافہ ہو گیا کیا کیا جسے گراتے ہی
ہمارے ساتھ محبت ہے آسماں کی وہی
ستارے ٹوٹنے لگتے ہیں جھلملاتے ہی
سیاہیاں مرے اندر کی ہیں یہ ہر صورت
جو بڑھ گیا ہے اندھیرا دِیا جلاتے ہی
برائے نام تھے جب تک تو سب کو راس بھی تھے
کٹائے بیٹھے ہیں سر آج سر اُٹھاتے ہی
ظفرؔ‘ نہ تھی وہ ملاقات ہی نصیبوں میں
کہ خود بھی ہو گئے غائب کسی کے آتے ہی
آج کا مقطع
اک آغازِ سفر ہے اے ظفرؔ یہ پختہ کاری بھی
ابھی تو میں نے اپنی پختگی کو خام کرنا ہے