اب پیچھے مڑ کر دیکھنے کا وقت نہیں رہا: نواز شریف
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''اب پیچھے مڑ کر دیکھنے کا وقت نہیں رہا‘‘ کیونکہ پیچھے بہت بھیانک تصویر ہے جس میں کرپشن‘ منی لانڈرنگ اور لاتعداد اثاثے بنانے کے مقدمات ہی نظر آتے ہیں جنہیں دیکھ کر اب واقعی گھبراہٹ ہونے لگتی ہے کہ یہ اتنا کچھ کیسے ہو گیا جس سے سارا ماضی بھرا پڑا ہے اور لگتا ہے کہ یہ سارا کچھ کسی آٹو میٹک طریقے ہی سے ہو گیا ہے ورنہ انسانی سطح پر اتنے انبار اکٹھے کر لینا نہ تو ممکن ہے اور نہ ہی سمجھ میں آتا ہے‘ اس لیے پیچھے کے بجائے اب آگے ہی دیکھنا پڑے گا اور اگلا منظراس سے بھی زیادہ مہیب اور مایوس کن نظر آ رہا ہے۔ آپ اگلے روز لندن میں ایک پارٹی اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔
ہنسو یا رو دو‘ ہمارا مینڈیٹ تسلیم کرو: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''ہنسو یا رو دو‘ ہمارا مینڈیٹ تسلیم کرو‘‘ کیونکہ ہنسنا یا رونا ہمارا مینڈیٹ تسلیم کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے اور یہ کام دونوں صورتوں میں ہو سکتا ہے جبکہ یہ ہمیں اچھی طرح سے معلوم ہے کہ پیپلز پارٹی نارمل رہ کر ہمارا مینڈیٹ تسلیم نہیں کر سکتی کیونکہ ایسا ہونے سے یا تو اس کی ہنسی چھوٹ جائے گی یا وہ زار و قطار رونا شروع کر دے گی جبکہ رونے کی واحد وجہ تو یہ ہوگی کہ پوری مشینری کے برسرکار ہونے کے باوجود ہم الیکشن جیت گئے جبکہ ہنسنے کے لیے کسی وجہ کا ہونا ضروری نہیں ہوتا۔ آپ اگلے روز کراچی میں جلسۂ تشکر سے خطاب کر رہے تھے۔
مہنگائی اور سیاسی عدم استحکام تحریک
انصاف کی وجہ سے ہے: مریم اورنگزیب
وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''مہنگائی اور سیاسی عدم استحکام تحریک انصاف کی وجہ سے ہے‘‘ بلکہ ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ معاشرے میں پھیلنے والی ہر برائی کی بنیادی وجہ بھی تحریک انصاف ہی ہے اور ہم خود کی طرح اس ملک اور معاشرے کو بھی برائیوں سے دور کرنا چاہتے ہیں‘ اس لیے تحریک انصاف والوں کو گرفتار کرنے‘ نااہل قرار دلوانے اور سزا یاب کروانے کی بھی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں تاکہ معاشرہ ہماری طرف سے مکمل طور پر مطمئن ہو جائے۔ آپ اگلے روز عمران خان کے بیان پر ردِعمل کا اظہار کر رہی تھیں۔
شریفوں نے اتنا عرصہ حکومت کی‘ آج
اکیلے جا کر سبزی نہیں خرید سکتے: پرویز الٰہی
وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے کہا ہے کہ ''شریفوں نے اتنا عرصہ حکومت کی‘ آج اکیلے جا کر سبزی نہیں خرید سکتے‘‘ اس لیے سبزی خریدنے کا اس قدر اہم کام خود کرنے کے بجائے نوکروں چاکروں سے کراتے ہیں‘ ورنہ انہیں آٹے دال کے ساتھ سبزیوں کا بھاؤ بھی اچھی طرح معلوم ہو جاتا جبکہ ان کے مقابلے میں مَیں خود سبزی خریدنے کے لیے جاتا ہوں‘ اگرچہ میرے ساتھ محافظ اور ڈرائیور وغیرہ بھی ہوتے ہیں تاہم سبزی میں خود ہی خریدتا ہوں اور انہیں میرے کام میں مداخلت کی اجازت نہیں ہے جبکہ ویسے بھی دکاندار مجھے دیکھ کر ریٹ کم لگاتے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں ارفع ٹوئن ٹاورز کے سنگِ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
سوائے ایک شخص کے پورا ملک
حکومت میں شامل ہے: احسن اقبال
وفاقی وزیر منصوبہ بندی چودھری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''سوائے ایک شخص کے پورا ملک حکومت میں شامل ہے‘‘ کیونکہ اُس شخص کے ساتھ صرف عوام ہیں اور ہم چونکہ راہِ راست پر ہیں‘ اس لیے عوام کو کوئی اہمیت نہیں دیتے اور اہلِ تجارت اور سرمایہ دار لوگ سارے کے سارے حکومت میں شامل ہیں اور کوئی صاحبِ حیثیت شخص ایسا نہیں ہے جو اپنے آپ کو حکومت میں شامل نہ سمجھتا ہو اور عمران بالکل اکیلا ہو چکا ہے کیونکہ عوام خود اس کے لیے دردِ سر کی حیثیت رکھتے ہیں جبکہ ہمارے سر درد سمیت ہر چیز سے خالی ہیں۔ آپ اگلے روز مہران یونیورسٹی کی ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں ڈاکٹر ابرار احمد کی نظم:
بہت یاد آتے ہیں
چھوٹے ہو جانے والے کپڑے
فراموش کردہ تعلق اور پرانی چوٹوں کے نشان
سرد راتوں میں ٹھٹھرتے ہوئے ریتلے میدان
پہلے پہل کی چاندنی میں
ڈھولک کی سنگت میں گائے ہوئے کچھ گیت
اور نیم تاریک رہداریوں میں جگمگاتے لمس
دوستوں کی ڈینگیں
فراغت اور قہقہوں سے لدی کرسیاں
کھیل کے میدان‘تنور پر پانی کا چھڑکاؤ
گندم کی خوشبو اور مہربان آنکھیں
بہت یاد آتے ہیںدسویں کے تعزیے
مٹی اور عرقِ گلاب سے مہکے سیاہ لباس
مستقبل کے دھندلے خاکے‘رخصت کی ماتمی شام
کہیں کہیں جلتے اداس لیمپ‘سر پٹختی ہوا میں ہلتے ہوئے
اور رات کی بھاری خامشی میں دور ہوتی ہوئی ٹاپوں کی آواز
بہت یاد آتے ہیں بڑھے ہوئے بال
منکوں کی مالا ‘سر منڈل کی تان‘پرانی کتابیں
وقت بے وقت کیے ہوئے غلط فیصلے
پہلے سفر کی صعوبت‘دریا کے پل پر پھنسی ٹریفک
اور ریل کی سیٹی ‘وادی کا سینہ چیرتی ہوئی
کچھ مکان اور دروازے
اور جب یہ دروازے بند ہوئے
آہستہ آہستہ اترتے ہوئے اضمحلال کی دھند میں
بہت یاد آتے ہیں دور کے آسمان اور پرندے
ایک اَن دیکھی دنیا اور اس پر بنا ہوا
عشق پیچاں کی بیلوں میں لپٹا ہوا
چھوٹی سرخ اینٹوں والا گھر
آتش دان کے پاس کیتلی سے اٹھتی بھاپ
چمپی مخروطی انگلیاں ‘مضراب کو چھیڑتی ہوئیں
ایک روشن جسم آنکھیں ملتا ہوا
یادوں اور خوابوں کے یہ چھوٹے چھوٹے دیے
جلتے اور بجھتے رہتے ہیں‘ بجھتے اور جلتے رہتے ہیں
اس روشنیوں بھرے شہر کی سرد مہر‘ تاریک رات میں !
آج کا مقطع
جو نئی طرز و روش مجھ کو دکھاتے ہو ظفرؔ
یہ تو میری جان سب کچھ ہے مرا دیکھا ہوا