پاکستان ترک عوام کو کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا: وزیراعظم
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''پاکستان ترک عوام کو کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا‘‘ جبکہ ہم نے اپنے عوام کو اس لیے تنہا چھوڑ رکھا ہے کہ وہ خیر سے اپنے پاؤں پر کھڑے ہو چکے ہیں اور کسی کے محتاج نہیں ہیں۔ خدا دشمن کو بھی کسی کا محتاج نہ کرے ۔ وہ کسی کو بھی اپنے قریب نہیں پھٹکنے دیتے کیونکہ وہ کسی پر اعتماد نہیں کرتے کہ انہیں پہلے ہی بہت ہاتھ لگے ہوئے ہیں اور وہ پکے مومن بھی ہیں‘ اس لیے ایک ہی سوراخ سے دوسری بار ڈسے جانے پر تیار نہیں ہوتے۔ آپ اگلے روز امدادی سامان کی روانگی کے موقع پر گفتگو کر رہے تھے۔
دھمکیاں‘ بلیک میلنگ اور تشدد ہمارا
راستہ نہیں روک سکتے: شاہ محمود
پاکستان تحریک انصاف کے وائس پریذیڈنٹ اور سابقہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ''دھمکیاں‘ بلیک میلنگ اور تشدد ہمارا راستہ نہیں روک سکتے‘‘ کیونکہ یہ اکیسویں بلکہ بائیسویں صدی ہے اور سائنس سمیت علوم و فنون اس قدر ترقی کر چکے ہیں کہ راستہ روکنے کے پرانے طریقے اب کارآمد نہیں رہے اور نئے سے نئے طریقے ایجاد ہو چکے ہیں اور ہینگ اور پھٹکڑی بھی نہیں لگانا پڑتی اور آن کی آن میں راستہ روکا جا سکتا ہے۔ اس لیے حکومت کو دقیانوسی طریقے ترک کرکے اور جدید ذرائع استعمال کرکے نیک مقصد حاصل کرنا چاہیے‘ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اس بار پاکستان کے دوستوں
نے ہمارا ساتھ نہیں دیا: خرم دستگیر
وفاقی وزیر توانائی خرم دستگیر نے کہا ہے کہ ''اس بار پاکستان کے دوستوں نے ہمارا ساتھ نہیں دیا‘‘ حالانکہ پاکستان اپنے دوستوں ہی کے تعاون سے گزر اوقات کرتا چلا آ رہا ہے اور یہ سخت ناانصافی ہے کہ عرصۂ دراز تک ہمیں اپنے بھروسے پر لگائے رکھنے کے بعد اب آنکھیں پھیر لی ہیں اور اب یہ کہتے ہیں کہ آپ کو تو مانگنے کی عادت ہی پڑ چکی ہے حالانکہ کون نہیں جانتا کہ عادت سے بڑی مجبوری اور کوئی نہیں ہو سکتی اور اب اتنا وقت ضائع ہو چکا ہے کہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کا بھی کوئی امکان نظر نہیں رہا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
حکومت سے نجات تک چین
سے نہیں بیٹھیں گے: یاسمین راشد
پاکستان تحریک انصاف کی سینٹرل پنجاب کی صدر ڈاکٹر یاسمین راشد نے کہا ہے کہ ''ہم حکومت سے نجات تک چین سے نہیں بیٹھیں گے‘‘ کیونکہ اگر یہ کرنا چاہیں بھی تو نہیں کر سکیں گے کیونکہ حکومت ہمیں ویسے ہی چین سے بیٹھنے نہیں دے گی جس طرح ہم حکومت میں تھے تو اپوزیشن کو چین سے بیٹھنے نہیں دیا تھا جبکہ سیاست میں یہ ضروری بھی ہے کیونکہ چین سے بیٹھنے کی وجہ سے آدمی سست الوجود ہو جاتا ہے جو کہ انسانی صحت کیلئے بہت نقصان دہ ثابت ہوتا ہے جبکہ مخالف حکومت گرانے کے بعد ویسے بھی چین سے بیٹھنے کا موقع مل جاتا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں پارٹی رہنماؤں کے اجلاس سے خطاب کر رہی تھیں۔
سرمایہ کار ہمیں جھوٹا سمجھتے ہیں: قیصر احمد شیخ
وزیراعظم کے معاونِ خصوصی قیصر احمد شیخ نے کہا ہے کہ ''سرمایہ کار ہمیں جھوٹا سمجھتے ہیں‘‘ اور یہ سراسر اُن کی سمجھ کا پھیر ہے کہ کوئی بھی ہمیں سچا نہیں سمجھتا‘ اگرچہ سیاست کی بنیاد ہی جھوٹ پر قائم ہے کیونکہ ویسے بھی‘ بقول شخصے ہر جھوٹے بیان کو سیاسی کہہ کر سب کی غلط فہمی دور کی جا سکتی ہے اور چونکہ سچی بات سب کو کڑوی لگتی ہے اس لیے ہم ہمیشہ میٹھی باتوں ہی سے کام لیتے ہیں اور جھوٹ کے چونکہ پاؤں نہیں ہوتے اس لیے ویسے بھی وہ اگر چاہے بھی تو زیادہ دور تک نہیں جا سکتا‘ خاص طور پر سفید جھوٹ۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک ٹی وی چینل سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں ڈاکٹر ابرار احمد:
وچ مرزا یار پھرے
لکھ... نیند نہیں آتی اور خواب نظر آتے ہیں
کروٹ لیں تو عمریں ٹوٹ جاتی ہیں
بارشوں میں بھیگے ہوئے دل نچڑ جاتے ہیں
اور وقت کی دلدل میں دنیائیں ڈوب جاتی ہیں
لکھ...موت کے پچھواڑے سے شہر آواز دیتا ہے
سڑکیں اکھڑ رہی ہیں
اور غلیظ پانیوں میں سانپ بہہ رہے ہیں
مغلظات میں لفظوں کی تہذیب ہے
اور تہذیب میں سورماؤں کا نطفہ ہے
جابر پٹھوں کا تناؤ ہے‘متلی سے عالم کو ثبات ہے
لکھ...
آنکھیں پھیلی ہوئی پتلیوں میں منظر انڈیل رہی ہیں
لوگ مر جاتے ہیں
اور ان کے گلے سڑے جسموں سے دھرتی جھومتی ہے
لاشوں کی ہمسائیگی میں‘ان کی بند آنکھوں
اور نکلی ہوئی زبانوں سے گرتی رطوبت کے
زہر آلود چھینٹوں میں وحشی صداؤں کا گرداب ہوتا ہے
لکھ... کھلے دہانوں میں جہنم کی آگ ہے
اور گدلی انتڑیوں میں کیچ کھولتا ہے
سجی ہوئی میزوں پرحریص معدے الٹ جاتے ہیں
ماتھوں پر دعائیں داغ بن جاتی ہیں
اور آہنی دانتوں میں دل چبا دیے جاتے ہیں
باتوں کی آگ سے ہونٹ سیاہ ہو جاتے ہیں
زخمی ہاتھوں سے پوریں جھڑ جاتی ہیں
بستروں پر بغل گیر تنفس بو چھوڑ دیتا ہے
کھوپڑیوں میں علوم کے کیڑے
کلبلاتے رہ جاتے ہیں
کوکھ کے اندھیرے‘ کبھی ساتھ نہیں چھوڑتے
لکھ...آنکھیں پھوڑ دی جائیں گی
اعضا اکھاڑ دیے جائیں گے
عمارتیں سروں پر آ گریں‘دھرتی پھٹ جائے
اور آسمان کو الٹا لٹکا دیا جائے
اور لکھ...اور لکھ...
گلیاں ہو جان سنجیاں وچ مرزا یار پھرے
آج کا مقطع
ٹھیک ہے کوئی مدد کو نہیں پہنچا لیکن
یہ بھی سچ ہے کہ ظفرؔ ہم بھی پکارے نہیں تھے