تختِ لاہور کی لڑائی سب کو
لے ڈوبے گی: بلاول بھٹو
چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''تختِ لاہور کی لڑائی سب کو لے ڈوبے گی‘‘ کیونکہ یہاں سے اگر ہماری جماعت کا صفایا ہو گیا تو سمجھیے کہ باقی سب بھی ڈوب گئے کیونکہ لوگ ہماری خدمات کو یکسر بھول گئے ہیں کہ کس طرح ہم نے انفرادی معیشت کو سہارا دیا اور جب ملکی معیشت کو سہارا دینے کا وقت آیا تو میعاد ہی ختم ہو چکی تھی جبکہ اب ہم نے اس خدمت کا آغاز پنجاب ہی سے کرنا تھا لیکن قبل از وقت الیکشن کروا کر ہمارے اس منصوبے پر بھی پانی پھیر دیا گیا ہے۔ آپ اگلے روز لاڑکانہ میں ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے موقع پر خطاب کر رہے تھے۔
ججز کے خلاف چارج شیٹ اور
ریفرنس دائر ہونا چاہیے: نواز شریف
سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''ججز کے خلاف چارج شیٹ ریفرنس دائر ہونا چاہئے‘‘ کیونکہ سب کو اچھی طرح سے معلوم تھا کہ ہم ابھی الیکشن کیلئے تیار نہیں ہیں، نیز اس سے سزا معافی اور وطن واپسی کے امکانات بھی کم سے کم ہو گئے ہیں اور ہمارے لوگوں نے فیصلہ قبول نہ کرنے کے جو بیانات دیے ہیں‘ ان کو بھی در خورِ اعتنا نہیں سمجھا گیا جو کہ بے اعتنائی کی انتہا ہے جبکہ ہم میں اب اتنی سکت بھی باقی نہیں کہ تاریخ ہی کو دہرا دیں اور ایک بار پھر دیگیں پکوا کر اسلام آباد لے جائیں۔ آپ اگلے روز لندن میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
مریم نواز چاہتی ہیں کہ شہبازشریف نااہل
ہو کر سیاسی شہید بن جائیں: فواد چودھری
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر فواد چودھری نے کہا ہے کہ ''مریم نواز چاہتی ہیں کہ شہبازشریف سیاسی شہید بن جائیں‘‘ جبکہ سیاسی شہید ہونا کچھ کم فضیلت کی بات نہیں ہے اور اس سے زیادہ عزت افزائی اور کیا ہو سکتی ہے جبکہ اس سے پچھلی کارگزاریاں بھی دھل جاتی ہیں اور نااہلی کے بعد مجبوراً انہیں وزیراعظم بننا پڑے گا جسے وہ طوعاًو کرہاً قبول کر لیں گی۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
بلاول بھائی! آپ کے منہ سے
مارشل لاء کا لفظ اچھا نہیں لگتا: علی محمد خان
سابق وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور اور تحریک انصاف کے رہنما علی محمد خان نے کہا ہے کہ ''بلاول بھائی! آپ کے منہ سے مارشل لا کا لفظ اچھا نہیں لگتا‘‘ کیونکہ آپ ہی کی حکومت نے سابق چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کو ایوانِ صدر سے اکیس توپوں کی سلامی دے کر رخصت کیا تھا اور آپ کی پارٹی کے بانی نے بھی اپنی سیاست کا آغاز اسی دور سے کیا تھا، نیز این آر او معاہدہ بھی ایک غیر جمہوری حکومت کے ساتھ ہی طے پایا تھا، جبکہ آپ ایک طرف آئین کو بنانے کا کریڈٹ لیتے ہیں اور دوسری طرف آئین ہی کی شقوں کو ماننے سے انکاری ہیں‘ لہٰذا یہ بیان جمہوریت کے حق میں نہیں بلکہ اس کے خلاف سمجھا جائے گا، سو ضروری ہے کہ کھل کر بیان دیں اور ڈھکے چھپے الفاظ استعمال کرنے سے گریز کریں۔ آپ اگلے روز سینیٹر فیصل جاوید کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں احمد ذوہیب کی شاعری:
دل مجھ سے ملے گا کہ نظر مجھ سے ملے گی
جس دن تو سرِ راہ گزر مجھ سے ملے گی
پوچھیں ہیں سبھی لوگ تری خیر خبر کا
معلوم ہے سب کو‘ یہ خبر مجھ سے ملے گی
ایسے ہی ترے ذہن میں ڈر بیٹھ گیا ہے
کھا تو نہیں جائوں گا اگر مجھ سے ملے گی
میں دشت نوردی کی نشانی کے لیے ہوں
چھالے نہ ملے‘ گردِ سفر مجھ سے ملے گی
اک بار اسے جا کے مرا نام بتائو
ناراض تو ہے مجھ سے‘ مگر مجھ سے ملے گی
٭......٭......٭
بکھرتے خواب کو چوما بھی اور دعا بھی دی
سمے نے دل کے کھلونے کو پھر سے چابی دی
مرے خیال کے پیکر کو اس حکومت نے
نہ صرف آگ لگائی اسے ہوا بھی دی
حضورِ عشق مرے ساتھ یہ رویہ کیوں؟
جوانی آپ نے مانگی تھی میں نے لا بھی دی
اسے بھی آپ ضروری سمجھنے والے نہیں
جو بات دل میں ہے میں نے اگر بتا بھی دی
سخن وروں میں یہی تو ہے انفراد مرا
نئی ردیف اٹھائی اگر‘ نبھا بھی دی
آج کا مطلع
لہر کی طرح کنارے سے اچھل جانا ہے
دیکھتے دیکھتے ہاتھوں سے نکل جانا ہے