ملک کے معاشی حالات بہت جلد
بہتر ہو جائیں گے: وزیراعظم
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''ملک کے معاشی حالات بہت جلد بہتر ہو جائیں گے‘‘ لیکن اگر ہمارے اپنے معاشی حالات بہتر نہیں ہوتے تو کیا فائدہ ‘حالانکہ میاں نواز شریف نے ہمیں اقتدار سنبھالنے سے منع کیا تھا کیونکہ انہیں خزانے اور سرکاری وسائل سے پوری واقفیت حاصل تھی لیکن میرا موقف تھا کہ ایک ضمنی الیکشن پر جو اتنی فضول خرچی کی گئی تھی اور کروڑوں روپے اراکینِ اسمبلی میں تقسیم کیے گئے تھے اس کی وجہ سے ہماری معیشت کی کمر ٹوٹ چکی ہے لہٰذا اس کی تلافی کے لیے حکومت سنبھالنا بے حد ضروری ہو گیا ہے لیکن وہ مقصد بھی حاصل نہ ہوا۔ آپ اگلے روز ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
عمران خان خلل ڈالنے والی سیاست
کو ترک کریں: خرم دستگیر
وفاقی وزیر توانائی خرم دستگیر نے کہا ہے کہ ''عمران خان خلل ڈالنے والی سیاست کو ترک کریں‘‘ کیونکہ یہ ہمارا کام ہے اور ہم اسے کافی حد تک کر بھی چکے ہیں اور جس میں مزید کچھ گنجائش بھی نہیں ہے‘ نیز عمران اپنی ناتجربہ کاری کی وجہ سے اس میں کامیاب بھی نہیں ہو سکتے جبکہ سالہا سال کا تجربہ ہمارے کام آ رہا ہے اس لیے ہم سے یہ کام باقاعدہ سیکھنے کے بجائے اگر وہ ہماری حرکات و سکنات ہی کو بغور دیکھتے رہیں تو انہیں اس کی کافی سمجھ آ سکتی ہے جبکہ اصولی طور پر بھی جو کام آدمی کو نہ آتا ہو اس میں ہاتھ نہیں ڈالنا چاہیے۔ آپ اگلے روز ایک انٹرویو میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
مذکرات میں جو طے ہوگا اتحادیوں
سے منظوری لینا ہوگی: رانا ثنا
وفاقی وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ خاں نے کہا ہے کہ ''مذکرات میں جو طے ہوگا اتحادیوں سے منظوری لینا ہوگی‘‘ جبکہ اتحاد کے صدر مولانا فضل الرحمن نے پہلے ہی مذاکرات کا بائیکاٹ کر رکھا ہے جس کے لیے ہم کوشش ضرور کریں گے لیکن وہ چونکہ ہمارے صدر ہیں اس لیے ان کے حکم کو ٹال بھی نہیں سکتے‘ اس لیے مذاکرات کی متوقع کامیابی پر اس طرح بغلیں اور شادیانے بجانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ ایک مستقل مزاج شخصیت ہیں اور اپنی ہٹ کے پکے بھی ہیں جبکہ عقلمند کے لیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے اور وہ اشارے کے بجائے صاف لفظوں میں اپنے مضبوط مؤقف کا اظہار پہلے ہی کر چکے ہیں۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شریک تھے۔
پارلیمنٹرین نہیں سنبھال پاتے تو کتنی
بار دوسروں کو سنبھالنا پڑا: کشور زہرا
ایم کیو ایم کی رہنما کشور زہرا نے کہا ہے کہ ''پارلیمنٹرین نہیں سنبھال پاتے تو کتنی بار دوسروں کو سنبھالنا پڑا‘‘ اور اس بات کا فیصلہ سنبھالنے والے خود کرتے ہیں کہ پارلیمنٹرین سنبھال پا رہے ہیں یا نہیں جبکہ ویسے بھی ہمارے اہم ملکی فیصلے وہی کرتے ہیں اور ملکی و قومی مفاد کی خاطر ہر وقت تیار ہی بیٹھے ہیں اور تاخیر یا کوتاہی کا لفظ ان کی لغت میں ہے ہی نہیں‘ بلکہ بہتر تو یہ ہوگا کہ پارلیمنٹرین انہیں خود ہی بتا دیں کہ وہ سنبھال نہیں پا رہے تاکہ وہ فوری طور پر صورتحال سنبھال لیں۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شریک تھیں۔
اور اب آخر میں ڈاکٹر ابرار احمد کی نظم:
ہمارے دکھوں کا علاج کہاں ہے
اگر ہمارے دکھوں کا علاج
نیند ہے
تو کوئی ہم سے زیادہ گہری نیند نہیں سو سکتا
اور نہ ہی اتنی آسانی اور خوبصورتی سے
کوئی نیند میں چل سکتا ہے
اگر ہمارے دکھوں کا علاج
جاگنا ہے
تو ہم اس قدر جاگ سکتے ہیں
کہ ہر رات ہماری آنکھوں میں آرام کر سکتی ہے
اور ہر دروازہ
ہمارے دل میں کھل سکتا ہے
اگر ہمارے دکھوں کا علاج
ہنسنا ہے
تو ہم اتنا ہنس سکتے ہیں
کہ پرندے، درختوں سے اڑ جائیں
اور پہاڑ ہماری ہنسی کی گونج سے بھر جائیں
ہم اتنا ہنس سکتے ہیں
کہ کوئی مسخرہ یا پاگل
اس کا تصور تک نہیں کر سکتا
اگر ہمارے دکھوں کا علاج
رونا ہے
تو ہمارے پاس اتنے آنسو ہیں
کہ ان میں ساری دنیا کو ڈبویا جا سکتا ہے
جہنم بجھائے جا سکتے ہیں
اور ساری زمین کو پانی دیا جا سکتا ہے
اگر ہمارے دکھوں کا علاج
جینا ہے
تو ہم سے زیادہ با معنی زندگی
کون گزار سکتا ہے
اور کون ایسے سلیقے اور اذیت سے
اس دنیا کو دیکھ سکتا ہے
اگر ہمارے دکھوں کا علاج
بولنا ہے
تو ہم ہوا کی طرح گفتگو کر سکتے ہیں
اور اپنے لفظوں کی خوشبو سے
پھول کھلا سکتے ہیں
اور اگر تم کہتے ہو:
ہمارے دکھوں کا علاج کہیں نہیں ہے
تو ہم چپ رہ سکتے ہیں
قبروں سے بھی زیادہ
آج کا مقطع
کام نکلا ہے کچھ اتنا ہی یہ پیچیدہ ظفرؔ
جتنا آساں نظر آیا مجھے شاعر ہونا