شہباز شریف بھائی کو واپس لا کر عوام
کے سامنے پیش کریں: پرویز الٰہی
سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور پاکستان تحریک انصاف کے صدر چودھری پرویز الٰہی نے کہا ہے کہ ''شہباز شریف بھائی کو واپس لا کر عوام کے سامنے پیش کریں‘‘ تاہم آتے ہی سب سے پہلے تو انہیں عدالت کے سامنے پیش ہونا پڑے گا جس بارے وہ پہلے ہی تشویش میں مبتلا ہیں اور نہ ہی شہباز شریف انہیں واپس لانے کی غلطی کریں گے بلکہ اصل بات تو یہ ہے کہ نواز شریف بھائی کے کہنے پر بھی واپس نہیں آئیں گے ورنہ وہ اپنے آپ ہی کب کے واپس آ چکے ہوتے‘ نیز ان کی سزا کے خاتمے کے بغیر ان کے ڈاکٹرز ہی انہیں واپس آنے کی اجازت نہیں دیں گے کیونکہ اُن کی بیماری کی نوعیت ہی ایسی ہے۔ آپ اگلے روز گوجرانوالہ بار کے وکلا سے ملاقات کر رہے تھے۔
کیا مجھے ہٹانے والے کبھی عدالت
بلائے جائیں گے؟نواز شریف
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''کیا مجھے ہٹانے والے مجرم کبھی عدالت بلائے جائیں گے؟‘‘ اگرچہ وہ بلائے جانے کے بعد بھی عدالت میں اپنی مرضی ہی سے جائیں گے کیونکہ یہ کام اگر اتنا آسان ہوتا تو میں خود بھی عدالت میں نہ آ جاتا‘ شہباز شریف میری واپسی کے ذمہ دار اور ضامن بھی ہیں‘ لیکن عدالت نے اب تک نہیں پوچھا کہ جس کی واپسی کے آپ ضامن بنے تھے‘ اسے واپس کیوں نہیں لاتے‘ عدل و انصاف کی زبوں حالی اسی سے ظاہر ہے جبکہ ہم سب نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ آپ اگلے روز لندن میں ٹویٹ اور سوشل میڈیا پر ویڈیو شیئر کر رہے تھے۔
کوئی ہدایت نہ دے‘ ہم خود
مل بیٹھیں گے: سعد رفیق
وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ''کوئی ہدایت نہ دے‘ ہم خود مل بیٹھیں گے‘‘ بلکہ جو ہدایات ہم نے مخالفین کے لیے جاری کر رکھی ہیں‘ وہ ان پر عمل کریں کہ ان کی بہتری بھی اسی میں ہے اور ہمیں یقین ہے کہ وہ اپنے نفع و نقصان کو اچھی طرح سے سمجھتے ہیں جبکہ ہم فی الحال تو صرف ہدایات جاری کر رہے ہیں‘ اگر ضرورت پڑی تو ہم حکم بھی صادر کریں گے کیونکہ حکومت میں ہم ہیں وہ نہیں‘ اس لیے امید ہے کہ وہ ہمیں حکم دینے پر مجبور نہیں کریں گے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
محض مثبت کردار کے ساتھ کوئی
اداکار آگے نہیں بڑھ سکتا: ارمینہ خان
اداکارہ ارمینہ خان نے کہا ہے کہ ''محض مثبت کردار کے ساتھ کوئی اداکار آگے نہیں بڑھ سکتا‘‘ کیونکہ جب تک وہ کسی منفی کردار کا سہارا نہ لے‘ اُس کی دال نہیں گل سکتی بلکہ عام زندگی میں بھی زیادہ تر منفی کردار ہی آپ کے کام آتے ہے‘ میری کامیابی کا راز بھی اسی میں ہے کیونکہ میں نے مثبت کردار کو کبھی پاس بھی پھٹکنے نہیں دیا اور ہمیشہ ایسا کردار ادا کرنے سے معذرت کی ہے جبکہ ویسے بھی آدمی کو اپنی افتادِ طبع کے خلاف کام نہیں کرنا چاہیے اور یہی کلیۂ کامیابی بھی ہے۔ آپ اگلے روز سوشل میڈیا پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہی تھیں۔
اور‘ اب آخر میں ڈاکٹر ابراراحمد کی نظم:
میرے پاس کیا کچھ نہیں
میرے پاس
راتوں کی تاریکی میں کھلنے والے پھول ہیں
اور بے خوابی
دنوں کی مرجھائی روشنی ہے اور بینائی
میرے پاس لوٹ جانے کو ایک ماضی ہے اور یاد
میرے پاس مصروفیت کی تمام تر رنگا رنگی ہے
اور بے معنویت
اور ان سب سے پرے کھلنے والی آنکھ
میں آسمان کو اوڑھ کر چلتا
اور زمین کو بچھونا کرتا ہوں
جہاں میں ہوں
وہاں ابدیت اپنی گرہیں کھولتی ہے
جنگل جھومتے ‘ بادل برستے ‘ مور ناچتے ہیں
میرے سینے میں ایک سمندر نے پناہ لے رکھی ہے
میں اپنی آگ میں جلتا‘ اپنی بارشوں میں نہاتا ہوں
میری آنکھوں میں
ایک گرتے ہوئے شہر کا ملبہ ہے
ایک مستقل انتظار
اور آنسو
اور ان آنسوؤں سے پھول کھلتے
تالاب بنتے ہیں
جن میں پرندے نہاتے ہیں
ہنستے اور خواب دیکھتے ہیں
میری آواز میں بہت سی آوازوں نے گھر کر رکھا ہے
اور میرا لباس بہت سی دھجیوں کو جوڑ کر
تیار کیا گیا ہے
میرے پاس
دنیا کو سنانے کے لیے کچھ گیت ہیں
اور بتانے کے لیے کچھ باتیں
میں رد کیے جانے کی خفت سے آشنا ہوں
اور پزیرائی کی دل نشیں مسکراہٹ سے بھرا رہتا ہوں
میرے پاس
ایک عاشق کی وارفتگی ‘ در گزر اور بے نیازی ہے
تمہاری اس دنیا میں میرے پاس کیا کچھ نہیں ہے
وقت اور تم پر اختیار کے سوا
آج کا مقطع
بس کہ میری شاعری ایک ایسا جنگل ہے ظفرؔ
جس میں داخل ہو کے پھر باہر نکل سکتے نہیں