اداروں کو بدنام کرنے کی حد عبور ہو چکی‘
اب مزید برداشت نہیں: آصف زرداری
سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''عمران خان اداروں کو بدنام کرنے کی حد عبور کر چکا‘ اب مزید برداشت نہیں‘‘ اور جس حد تک برداشت کر چکے ہیں اسی کو کافی سمجھا جائے جبکہ ایک ہی ادارہ اب تک بچا ہوا ہے جسے رام کرنے کی عاجزانہ کوششیں ہم کر رہے ہیں تاکہ مساوات کے اصول پر عمل ہوتا رہے جو کہ جمہوری اصولوں کے عین مطابق ہے کیونکہ مسابقت ہی ترقی کے زینے کی ابتدا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس دوڑ میں سبقت کس کو حاصل ہوتی ہے اور کہاں تک۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
تحریک انصاف آئین کی پامالی پر چپ
نہیں بیٹھے گی: یاسمین راشد
پاکستان تحریک انصاف سینٹرل پنجاب کی صدر اور سابق صوبائی وزیر ڈاکٹر یاسمین راشد نے کہا ہے کہ ''تحریک انصاف آئین کی پامالی پر چپ نہیں بیٹھے گی‘‘ اگرچہ وہ پہلے بھی چپ نہیں بیٹھی ہوئی، اور خاص طور پر خواتین کے لیے تو چپ بیٹھنا خاصا مشکل کام ہے اس لیے تحریک انصا ف کی خواتین اس موضوع پر بولنے کے لیے اکیلی ہی کافی ہیں جس پر وہ کاربند رہیں گی اور مرد حضرات دوسرے ضروری کاموں میں مصروف رہیں گے کیونکہ دونوں زندگی کی گاڑی کے دو پہیے ہیں جبکہ مردوں کوسٹپنی کی حیثیت بھی حاصل ہے جو ایک ٹائر پنکچر ہونے کی صورت میں کام آتی ہے۔ آپ اگلے روز حافظ آباد ضلع کا تنظیمی دورہ کر رہی تھیں۔
شاہد خاقان آٹا سکیم میں کرپشن کے
ثبوت دیں: طارق بشیر چیمہ
وفاقی وزیر خوراک اور مسلم لیگ (ق) کے رہنما طارق بشیر چیمہ نے کہا ہے کہ ''شاہد خاقان عباسی آٹا سکیم میں کرپشن کے ثبوت دیں‘‘ اگرچہ یہ الزام حکومتی پارٹی ہی کے ایک سینئر رکن نے لگایا ہے اور اس سے زیادہ اس کا ثبوت کیا ہو سکتا ہے؛ اگرچہ اب تک ملک عزیز میں کرپشن کے جو پہاڑ ٹوٹے پڑے ہیں اور جس کے ثبوت ساری دنیا کے سامنے ہیں اور اس سلسلے میں کسی کا بال بھی بیکا نہیں کیا جا سکا تو آٹا سکیم میں کرپشن ثابت ہو بھی گئی تو اس سے کسی کی صحت پر کیا اثر پڑ سکتا ہے بلکہ ایک ایک کر کے یار لوگوں کے سبھی مقدمات بھی ختم کیے جا رہے ہیں، آٹا سکیم کسی کھیت کی مولی ہے ۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
پولیس میرے گھر سے پرس، فون اور
موٹرسائیکلیں بھی لے گئی: پرویز الٰہی
سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور پاکستان تحریک انصاف کے صدر چودھری پرویز الٰہی نے کہا ہے کہ ''پولیس میرے گھر سے پرس، فون اور موٹرسائیکلیں بھی لے گئی‘‘ جبکہ چھاپا مارنا تو ان کا حق تھا اور کسی حد تک گیٹ توڑنا بھی، لیکن پولیس سے چوری کی اس واردات کی ہرگز توقع نہیں تھی کیونکہ اس کا کام چوروں کو پکڑنا اور چوری کا مال برآمد کرنا ہوتا ہے، خود مال کو ادھر ادھر کرنا نہیں، پھر ستم بالائے ستم یہ ہے کہ نگران وزیر داخلہ چودھری شجاعت حسین کے گھر معذرت کے لیے پہنچ گئے حالانکہ واردات میرے گھر پر ہوئی تھی۔ آپ اگلے روز اپنی رہائش گاہ پر صدر لاہور ہائیکورٹ بار سے ملاقات کر رہے تھے۔
عدلیہ کی کارکردگی تسلی بخش نہیں: قمر زمان کائرہ
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور وزیراعظم کے مشیر برائے امورِ کشمیر و گلگت بلتستان قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ''عدلیہ کی کارکردگی تسلی بخش نہیں ہے‘‘ جس کو مکمل طور پر تسلی بخش بنانے کے لیے حکومتی پارٹیاں سر توڑ کوشش کر رہی ہیں؛ اگرچہ ہمارے روز روز کے بیانات کا بھی اس پر کوئی اثر نہیں ہو رہا جس کے لیے فوری طور پر ہمیں اپنا طریقہ کار تبدیل کرنا ہو گا اور اس حوالے سے ماضی میں کئی درخشاں مثالیں موجود ہیں جبکہ ہماری حلیف نواز لیگ کو اس سلسلے میں کامیاب تجربہ بھی حاصل ہے، اس لیے امید ہے کہ متعلقہ احباب اپنی خیروعافیت کا خود ہی خیال رکھیں گے اور تاریخ کو دہرانے کا موقع نہیں دیں گے۔ آپ اگلے روز جہلم میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں رستم نامی کی شاعری:
روتا ہوں دوسروں کو ہنسانے کے واسطے
یعنی میں جی رہا ہوں زمانے کے واسطے
اب اُس کے ساتھ میرا تعلق نہیں‘ مگر
رکھتا ہوں اُس کو یاد بھلانے کے واسطے
جز خون و خاک کچھ بھی میسر نہیں ہمیں
پیسے کے واسطے نہ ہی کھانے کے واسطے
آتا نہیں ہے یاد ہمیں کچھ دنوں سے تُو
آیا ہوں تجھ کو یاد دلانے کے واسطے
حامی ہے انقلاب کا ہر آدمی‘ مگر
طاقت کہاں ہے شور مچانے کے واسطے
آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے بس گھورتے رہو
جب کچھ نہیں ہے پاس بتانے کے واسطے
٭......٭......٭
چلی جاتی ہے اِس میں آدمی کی جان تقریباً
محبت میں ہے لے دے کر یہی نقصان تقریباً
کسی بھی غیر کو زحمت اٹھانی ہی نہیں پڑتی
گل و بلبل کے دشمن آپ ہیں نگران تقریباً
بچھڑنے سے زیادہ ہم کو ہے اِس بات کا صدمہ
نہیں کیوں تیرے جانے پر یہ دل ویران تقریباً
اِسی خاطر تو ہیں ملنے ملانے سے گریزاں ہم
نہ ملنے میں جدائی کا نہیں امکان تقریباً
جلاتا ہوں دیا جب بھی سرِ طاقِ یقیں نامیؔ
ہوا بھی چلنے لگتی ہے اُسی دوران تقریباً
آج کا مطلع
یوں بھی نہیں کہ شام و سحر انتظار تھا
کہتے نہیں تھے منہ سے مگر انتظار تھا