قوم کا اتحاد ہی اصل جوہری قوت ہے: وزیراعظم
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''قوم کا اتحاد ہی اصل جوہری قوت ہے‘‘ اور جب تک قوم عمران خان کا ساتھ چھوڑ کر ہمارے ساتھ متحد نہیں ہو جاتی، اس اتحاد کا صرف خواب ہی دیکھا جا سکتا ہے کیونکہ کل کلاں کو عمران خان کے خلاف پریس کانفرنسیں کرنے والے ان کے حق میں پریس کانفرنسیں کر کے اپنی واپسی کے اعلانات کرتے نظر آئیں گے اور جو کچھ عوام کے ساتھ کر چکے ہیں وہ انہیں بھولتا ہی نہیں ہے حالانکہ پہلے ان کے حافظے اتنے مضبوط نہیں ہوا کرتے تھے اب شاید یہ بادام کھانے لگ گئے ہیں۔ آپ اگلے روز یوم تکبیر پر قوم کے نام پیغام جاری کر رہے تھے۔
حکمرانوں کا اگلا مشن عدلیہ کو آپس میں لڑانا ہے: شیخ رشید
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اور سابق وفاقی وزیر شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''حکمرانوں کا اگلا مشن عدلیہ کو آپس میں لڑانا ہے‘‘ کیونکہ اس کا اتفاق رائے انہیں راس نہیں ہے جبکہ پہلے ہی اتفاق اور یک جہتی کا فقدان پیدا ہو چکا ہے جس پر حکمران بہت خوش ہیں، اب ان کا مقصد اس ادارے پر اپنا کنٹرول مضبوط بنانا ہے جس پر ان کی کسی بات یا سخت تنقید کا کوئی اثر ہی نہیں ہو رہا حتیٰ کہ آڈیو لیک کمیشن کو بھی کام سے روک دیا گیا ہے جس سے حکومت سخت کبیدہ خاطر ہے۔ آپ اگلے روز راولپنڈی میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
بات چیت صرف سیاستدانوں
سے کی جاتی ہے: نواز شریف
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''بات چیت صرف سیاستدانوں سے کی جاتی ہے‘‘ اور سیاستدان وہ ہوتے ہیں جو وہی کچھ کرتے ہیں جو ہم نے کر کے دکھا بھی دیا اور جس کی ایک دنیا گواہ ہے اور تفتیش میں سوالوں کے جواب بھی ایسے دیتے ہیں جیسے ہم نے دیے اور جو منی ٹریل بھی دینا ضروری نہیں سمجھتے نیز عمران خان اگر مذاکرات کرنا چاہتے ہیں تو پہلے سیاستدان بن کر دکھائیں، ملکی وسائل اور خزانے کو ذاتی سمجھیں اور ملک کی شان و شوکت بڑھانے کے لیے ملک سے باہر مہنگے شہروں میں اثاثے بنا کر دکھائیں۔ آپ اگلے روز لندن میں اخبار نویسوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
حکومت نے عمران خان یا کسی
حامی کو گرفتار نہیں کیا: احسن اقبال
وفاقی وزیر اور مسلم لیگ نواز کے مرکزی رہنما احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''حکومت نے عمران خان یا کسی حامی کو گرفتار نہیں کیا‘‘ اور صرف ان لوگوں کو گرفتار کیا ہے جو پہلے ہی ان کا ساتھ چھوڑ چکے تھے اور محض اس وہم کی وجہ سے کہ ان کو یا خاندانوں کو کچھ نقصان نہ پہنچ جائے‘ حفاظتی تحویل میں تھے، جبکہ شیخ رشید کو بھی گرفتار نہیں کیا حالانکہ ان کی تو فیملی میں بھی وہ اکیلے ہی ہیں، ان کو کسی نے کیا کہنا تھا؛ تاہم ان سب کا توکل کمزور ہے اور وہ اسی لیے وہم و گمان اور غلط فہمیوں کا شکار ہوئے اور اپنی مرضی سے ہی پریس کانفرنسیں کرتے رہے تاکہ ان کی تصویریں اخبارات میں چھپ سکیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں غیر ملکی میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
عمران خان نے جو کچھ کیا
اب بچنا ناممکن ہے: ریحام خان
سابق وزیراعظم عمران خان کی سابق اہلیہ ریحام خان نے کہا ہے کہ ''عمران خان نے جو کچھ کیا‘ اب بچنا ناممکن ہے‘‘ اور وہ اچھے بھلے کرکٹر اور سابق کپتان تھے انہیں سیاست میں آنے کی کیا ضرورت تھی اور اگر علیحدہ ہی ہونا تھا تو شادی کی کیا ضرورت تھی ا ور سب سے بڑا ایشو یہ ہے کہ پاکستانی عوام کو خواہ مخواہ اپنے پیچھے لگا لیا، اگرچہ ان کے لیڈر پرلے درجے کے بیوفا ثابت ہو چکے ہیں مگر عوام اس قدر سست الوجود ہیں کہ اب تک اس کے ساتھ ہیں۔ آپ اگلے روز ڈیجیٹل میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔
اور‘ اب آخر میں افضال نوید کی غزل:
جتنا بڑھا تھا اُتنا ہی کم ہو کے آ گیا
نکلا تھا تیرے کوچے میں دم ہو کے آ گیا
جو جو کمی تھی پوری ہوئی کشتِ خاک کی
جو جو ستم ہوا تھا کرم ہو کے آ گیا
اپنے ہی گہرے زخموں سے جاں کھینچنی پڑی
اپنے ہی خالی پن کا بھرم ہو کے آ گیا
پامال ہونے پر گئی پابندیٔ مقام
پاؤں بڑھا جہاں بھی قدم ہو کے آ گیا
کچھ اور لالہ کاری کی جیسے جگہ نہ تھی
خالی مرے نشاں سے ستم ہو کے آ گیا
اچھا ہوا کہ اگلی سی حالت نہیں رہی
پہلے جلا تھا اب کے بھسم ہو کے آ گیا
اتنی گھٹن کہ اپنی ہوا باندھنی پڑی
اتنی لگن کہ اپنا جنم ہو کے آ گیا
تیری گلی میں جانے کہاں کی فضا بندھی
موجود کو گیا تھا عدم ہو کے آ گیا
مٹ جانے کا نشہ کہیں دہلیزِ یار پر
جاتی ہوئی اَنا کا بھرم ہو کے آ گیا
جب راستہ ملا نہ کوئی احتجاج کا
انگلی میں اپنی نوکِ قلم ہو کے آ گیا
ٹھہرا نہیں سمجھنے کا اور جاننے کا شوق
جو جو تھا انکشاف دھرم ہو کے آ گیا
سود و زیاں کے بھینٹ اُسے چڑھتا دیکھ کر
اپنا جو غم تھا دنیا کا غم ہو کے آ گیا
بھونچال اِس قدر کہ جزیروں نے سانس لی
پامال اِس قدر کہ اہم ہو کے آ گیا
میں دیکھتا تھا اور کسی کا مراسلہ
بارش کے ساتھ ساتھ رقم ہو کے آ گیا
کرنی پڑی ادا ہمیں قیمت دبانے کی
جس کو کیا تھا زیر وہ بم ہو کے آ گیا
اگلی کسی گلی میں جگہ لینے کو نویدؔ
پچھلے کسی مقام کا خم ہو کے آ گیا
آج کا مقطع
گلی گلی مرے ذرے بکھر گئے تھے ظفرؔ
خبر نہ تھی کہ وہ کس راستے سے گزرے گا