"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں، متن اور اوکاڑہ سے مسعود احمد

الیکشن کمیشن تاریخ دے‘ ہم تیار ہیں: شہبازشریف
وزیراعظم شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ دے‘ ہم عمل کرنے کیلئے تیار ہیں‘‘ کیونکہ بڑی محنت اور کوشش کے بعد ہم مخالفین کا پورا بندوبست کرنے کے قابل ہو گئے ہیں اور اب کوئی خطرہ نہیں‘ اس لیے انتخابات کا رسک لیا جا سکتا ہے اور جہاں تک ووٹرز کا تعلق ہے تو انتظامیہ ان کے دانت کٹھے کرنے کے لیے کچھ زیادہ ہی تیار ہے۔ جس کی ایک مثال سندھ میں نمایاں ہے کہ میئر الیکشن کیلئے اگر صوبائی حکومت کو مینڈیٹ نہیں ملا تو بھی میئر اسی کا ہوگا اور کوئی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اس لیے مینڈیٹ کے بارے میں ہمیں بھی زیادہ فکر نہیں ہے کیونکہ اسے ماننا نہ ماننا تو ہم ہی نے ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک تقریب سے خطاب اور مریم نواز سے ملاقات کر رہے تھے۔
اسمبلی کی توسیع کی حمایت کروں گا: راجہ ریاض
قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف راجہ ریاض نے کہا ہے کہ ''قومی اسمبلی اور حکومت کی مدت میں توسیع کی حمایت کروں گا‘‘ کیونکہ جب تک اسمبلی اور حکومت ہے، تب تک ہم ہیں، کیونکہ اول تو (ن) لیگ کا ٹکٹ ملے گا ہی نہیں‘ جس حوالے سے کافی پہلے خواہش کا اظہار کر چکا کیونکہ ایسا کرنے سے اس پارٹی کے اپنے اندر بغاوت ہو جائے گی‘ اور اگر ملا تو بھی لوگوں کوضمیر کے جاگنے کا اچھی طرح علم ہے اور اسے دوبارہ سلانے کی کوشش بھی کروں تو کامیاب نہیں ہوں گا کیونکہ وہ اس بری طرح سے جاگا ہے کہ اب دوبارہ اس کے سو جانے کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا اور اس کے ساتھ میری سیاسی قسمت بھی محوِ خواب ہی رہے گی۔ آپ اگلے روز فیصل آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
تباہی کا باب بند‘ اب ترقی کا سفر شروع ہوگا: مریم نواز
سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کی صاحبزادی، مسلم لیگ نواز کی سینئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر مریم نواز نے کہا ہے کہ ''تباہی کا باب بند‘ اب ترقی کا سفر شروع ہوگا‘‘ اور یہ ترقی قیادت کی بھی ہو گی اور عوام کی بھی، کیونکہ جب تک قیادت ترقی نہیں کرتی، عوام بھی ترقی سے محروم رہیں گے بلکہ اصل میں تو قیادت کی ترقی ہی عوام کی ترقی ہے جس کا شاندار مظاہرہ پہلے بھی کیا جا چکا ہے اور اب وہ ترقی دوبارہ بھی واجب اور ضروری ہو چکی ہے اس لیے عوام کو قیادت یعنی اپنی ترقی کے لیے دعا بھی کرنی چاہئے اورانتظار بھی۔ آپ اگلے روز شجاع آباد میں ورکرز کنونشن سے خطاب کر رہی تھیں۔
نئی سیاسی جماعت لندن والوں
کے کہنے پر بنی: چودھری سرور
سابق گورنر پنجاب اور مسلم لیگ (ق) کے چیف آرگنائزر چودھری محمد سرور نے کہا ہے کہ ''نئی جماعت لندن والوں کے کہنے پر بنی‘‘ اور اس طرح انہوں نے اپنے ہی پائوں پر کلہاڑی ماری ہے کیونکہ اگر انہیں اپنے ساتھ ملا لیتے تو ان کو دو‘ چار سو ووٹ مزید مل جاتے، اس لیے اب وہ ووٹ بھی ضائع ہو گئے جبکہ ان کی اپنی جماعت پہلے ہی دگرگوں ہے جبکہ پی ٹی آئی کا ووٹ بینک اسی طرح قائم ہے اور سب کو حیران و پریشان کرنے کے لیے کافی ہے جبکہ چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری یا نااہلی خود ان کے اپنے گلے پڑ جائے گی کیونکہ لندن والوں کا اپنا بھی کوئی مستقبل نہیں ہے ورنہ وہ کب کے واپس آ چکے ہوتے۔ آپ اگلے روز لاہور میں پارٹی کے سیکرٹری جنرل چودھری شافع حسین کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
پولیس افسر روایتی کے بجائے لوگوں سے
مضبوط تعلق قائم کریں: نگران حکومت
نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے کہا ہے کہ ''پولیس افسر روایتی کے بجائے لوگوں سے مضبوط تعلق قائم کریں‘‘ اگرچہ تعلق پہلے ہی روایتی ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ اس تعلق کو مزید روایتی بنانے کی کوشش کریں اور وہ یقینا اس کا طریقہ بھی خوب اچھی طرح جانتے ہیں کیونکہ کمر توڑ مہنگائی کے اس دور میں یہ روایتی تعلقات ہی مدد گارثابت ہو سکتے ہیں اور لوگوں کے اپنے معاملات بھی اس کی بدولت سے چلتے چلے جاتے ہیں اس لیے یہ تعلقات جتنے زیادہ مضبوط ہوں گے دونوں کے حق میں زیادہ بہتر ہوگا جبکہ پولیس کیساتھ ساتھ لوگ بھی اس راز سے بہت اچھی طرح سے واقف ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایگریکلچر، فوڈ اینڈ ڈرگ اتھارٹی کے پروجیکٹ کا دورہ کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں اوکاڑہ سے مسعود احمد:
جلا تو دی ہیں پرندوں کی بستیاں ہم نے
کہاں بہانی ہیں پیڑوں کی استیاں ہم نے
ہمارے خانۂ دل میں بتوں کا قبضہ ہے
کہاں پہ چھوڑی ہیں وہ بت پرستیاں ہم نے
ہمارے دکھ کو ہمارا خدا بھی جانتا ہے
زمیں کو سونپی ہیں کیسے یہ ہستیاں ہم نے
دلیل اس سے بڑی کیا ہے نیچ ہونے کی
سروں سے اونچی اٹھائی ہیں پستیاں ہم نے
گئے زمانوں کو دن رات یاد کرتے ہوئے
ابھی بھی چھوڑی نہیں موج مستیاں ہم نے
جنہیں خریدا ہے قسطوں پہ مہنگے داموں میں
وہی تو بیچی ہیں مسعودؔ سستیاں ہم نے
٭......٭......٭
پرندے پیڑ ہیں مصروف رنگ رلیوں میں
مگر یہ کیسی اداسی چمن کی گلیوں میں
مرا کمال ہے کیا انحطاط قدروں کا
مرا شمار بھی ہونے لگا ہے ولیوں میں
یہ سانس دہری اذیت سے ضرب دینے لگے
ہمارے جسم کو تقسیم کرکے خلیوں میں
روش روش پہ محبت بھری بہار کے دن
گلاب سا وہ بدن کھل رہا ہے کلیوں میں
ابھی تو برف کے تودے پڑے ہیں پاؤں میں
ابھی سے آ گ سلگنے لگی ہے تلیوں میں
اسی لیے تو ہیں کھانے میں یہ پسند مجھے
تمہارا ذائقہ رچ بس گیا ہے پھلیوں میں
آج کا مقطع
اچھا نہیں ہے بوسۂ چشم اس کا اے ظفرؔ
تو رفتہ رفتہ آپ ہی بیمار ہوئے گا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں